Uncategorizedکالمز
(سفرنامہ) ہوپر۔۔۔سوپر…… پہلی قسط
احمد سلیم سلیمی
ہماری گاڑی ہنزہ گنش پل پار کرتے ہی دائیں طرف ہوپر کے راستے پہ مڑی تو سب سے پہلا احساس روڑ کا تھا۔۔۔گلگت سے گنش پل تک دو گھنٹے کا سفر ،چینی انجینئروں اور مشینوں کاکمال نمونہ۔۔۔ شاہراہ ریشم پر ریشمی رفتار سے گاڑی دوڑاتے ۔۔۔اب ایک دم کچے راستے پر چلنا کسی بھی لحاظ سے خوش گوار نہیں تھا۔۔۔
فرنٹ سیٹ پہ براجمان نسیم صاحب شاید میرے محسوسات سمجھ گئے۔۔۔فرمایا
"سلیمی!اس کچی کنکریلی سڑک سے پریشان مت ہو۔۔۔آگے روڑ پکا ہے۔۔۔”
یہ میرا ھوپر نگر کا پہلا سفر تھا۔۔اس کی خو بصورتی اور گلیشئیر کا بہت سنا تھا۔۔۔مگر کوئی وسیلہ نہیں بنتا تھا۔۔۔
اس دفعہ ایک بہانہ مل گیا۔۔۔ھوپر کے ایک ہم پیشہ معلم ساتھی حسین احمد صاحب کے والد کا انتقال ہوا تھا۔۔نسیم صاحب نے خبر دی۔۔۔دکھی صاحب،یاد صاحب اور یہ ناچیز تیار ہوئے۔۔۔یوں اس سفر کا کریڈٹ نسیم صاحب کو جاتا ہے۔۔۔
ہم گورو پہنچے تھے پہلے یونس سروش صاحب اور امجد سدوزئی صاحب ملے۔۔پھر تاج صاحب کی ہم نشینی نصیب ہوئی۔۔ہماری منزل کا سن کر وہ بھی تیار ہوئے۔۔۔
یوں ایک اتفاقیہ ملاقات نے حلقہ ارباب ذوق کے اہل قلم کو ہم سفر بنا دیا۔۔۔
ہم آٹھ ساتھی ،دو گاڑیوں میں اس گل پوش وادی کی طرف رواں دواں ۔۔۔۔پہلے نگر کی دلفریب وادیوں اور راکاپوشی سے گزر کر ۔۔۔۔پھر ہنزہ کی خوش منظر وادیوں کے اندر، بل کھاتی اور اپنی ہمواری پہ جھومتی شاہراہ ریشم سے ہوتے ہوئے۔۔۔ایک بجے کے بعد ھوپر کی طرف مڑے تھے۔۔۔۔
ھوپر کی سڑک کچی تھی مگر ہموار تھی۔۔۔نالے کے ساتھ ساتھ آگے بڑھتی تھی۔۔۔دائیں بائیں خشک پہاڑ تھے۔۔۔کہیں کہیں سبزہ اور پاپلر کے درخت تھے۔۔۔پندرہ بیس منٹ کے بعد نالا پھیلتا گیا۔۔پھر آبادیاں بھی،بے خود کر دینے والے سبزہ زار بھی۔۔۔۔سفیدہ،خوبانی ،شہتوت اور اخروٹ کے پیڑ بھی۔۔۔اس منظر کا حصہ بن گئے۔۔۔۔
اب سڑک کی حالت بھی بہتر ہوتی جا رہی تھی۔۔۔پکی سڑک پہ ان وادیوں کے بیچ گھومتی سڑک سے دل بھی جھومتا تھا۔۔۔
دو گھنٹے بعد ہم مرحوم کی تعزیت اور فاتحہ سے فارغ ہو کر۔۔۔ھوپر گلیشئیر کی طرف روانہ ہوئے۔۔۔
اب سڑک بلند ہوتی جارہی تھی۔۔۔مگر ایک خوش گوار تاثر بھی ساتھ دوڑ رہا تھا کہ اب آگے کا منظر بھی پہلے سے زیادہ دل فریب اور سڑک پہلے سے زیادہ پکی اور آرام دہ تھی۔۔۔اس پہ بچھا تارکول اچھی حالت میں تھا۔۔۔
اگرچہ گاڑی چلاتے ہوئے توجہ سڑک پہ زیادہ ہوتی ہے لیکن ان وادیوں کا حسن ایسا مسحورکن تھا کہ توجہ کھینچ لیتا تھا۔۔۔ایسے میں نگاہوں کو آئینہ بنائے ،میں حسنِ فطرت کی رعنائیوں میں کھو سا گیا تھا۔۔۔
ھوپر وادی کے چاروں طرف خشک پہاڑ ہیں۔۔ان کے دامن میں ایک معقول کشادگی کے ساتھ وادی لمبائی میں پھیلی ہوئی تھی۔۔پاپلر،اخروٹ،شہتوت،خوبانی اور بید مجنوں کے درختوں کے بیچ گندم اور آلو کی فصلیں فروغ حسن کا باعث تھیں۔۔پھر اکثر کچے اور چند ایک پکے مکان سے اس لینڈ سکیپ کی تکمیل ہورہی تھی۔۔۔
ہم کچھ دیر بعد گلیشئیر کے پاس پہنچ گئے۔۔۔گاڑیاں ایک ہوٹل کی پارکنگ میں کھڑی کر کے۔۔۔پیدل ہی اس ٹریک پہ چڑھنے لگے جو ایک خشک ٹیلے سے ہوتا ہوا گلیشئیر کے قریب جاتا تھا۔۔۔
وہاں ان خشک ٹیلوں پہ چھوٹے چھوٹے ریسٹورنٹ بنے ہوئے تھے۔۔۔جہاں بڑی تعداد میں حسن فطرت کے تماشائی موجود تھے۔۔۔بہت اچھا لگا اس وبائی صورت حال میں۔۔۔۔بہت سے غیر مقامی مرد وزن اور بچوں کو دیکھ کر۔۔۔پنجاب،کے پی کے اور دیگر علاقوں کے یہ مرد عورتیں اور ان کے بچے وہاں بہت بے فکری سے اور آسودگی سے تفریح کر رہے تھے۔۔۔
ہم اس ٹریک پہ چڑھتے ہوئے اس مقام پہ آگئے جہاں سے آگے عام راستہ نہیں۔۔۔بس گلیشئیر کو چھونے کے شوقین اپنے لیے خود راستہ بنا کے جا سکتے تھے۔۔۔ہمارا فی الحال ایسا ارادہ نہیں تھا۔۔۔
وہاں پہاڑ تراش کے ۔۔۔زمین ہموار کر کے ریسٹورنٹ بنائے گئے ہیں۔۔۔
وہاں ھوپر گلیشئیر کے پہلو میں۔۔۔نسیم صاحب نے کیمرہ اور مائک سنبھالا۔۔۔ارباب ذوق سے ان کا کلام (شعری بھی،غیر شعری بھی) ریکارڈ کیا۔۔۔
بہت دیر اس منظر کا حصہ بننے کے بعد ہم وہاں سے نیچے اترے۔۔۔
اب اگلا مرحلہ۔۔۔راجہ نگر کے محل کی سیر کا تھا۔۔۔
دکھی صاحب نے یہ کہہ کر ہمارے شوق کو مہمیز دی تھی کہ محل کی قدیم عمارت کی تعمیر ان کے دادا کے ہاتھوں ہوئی تھی۔۔۔دکھی صاحب کے دادا کو۔۔پاکستان اور گلگت بلتستان کی آزادی سے قبل کشمیر سے ۔۔۔ نگر کے راجہ سکندر نے خصوصی طور پر بلوایا تھا۔۔۔۔
دکھی صاحب کے ساتھ ساتھ ہم بھی اس محل کو دیکھنے کے جنون میں مبتلا ہو گئے تھے۔۔۔۔
راجہ کے محل کی دلکش تفصیل اگلی دفعہ۔۔۔۔