سیا ست اور ہم عوام
تحریر از شیر اعظم خان
لفظ سیاست ہمارے تمام مقا می زبانوں مختلف مفاہیم کے ساتھ زبان زد ِ خاص و عام ہے ۔ اکثر و بیشتر یہ لفظ مُنفی معاملات مثلاً چاپ لوسی ، جھوٹی تسلی ،دکھا وا ، پھوٹ اور کہیں اسے سادہ لوح لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈال اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لئے استعمال کیا جاتا ہے ۔ اس لفظ کو خال خال اس کے لغوی معنوں میں سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے لیکن عموماً یہ پاک لفظ بھونڈے اصطلاحا ت کے شکنجے میں پھنسا ہوا ہمیں نظر آتا ہے۔ آپ کے علم میں ہے کہ جب بھی مُعاشرے میں ہم کسی کے جھوٹے دعوٰی یا جھوٹی ہمدردی اور تصنع کو دیکھتے ہیں تو فو را ً یہ کہتے ہیں کہ یہ اس کی سیاست ہے دوسرے لفظوں میں ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ دکھا وا اور دھوکہ دہی ہے ۔ حتیٰ کہ خاندانوں میں اکژ ساس اور بہو بھی ایک دُوسرے پر الزام لگاتی ہیں اور کہتی ہیں کہ اس کا میرے ساتھ صرف سیاست ہے یہ حقیقت میں میری عزت نہیں کرتی وغیرہ ۔ پرسُوں کی بات ہے میں اور چچا جان گولی خان دونوں ماموں بُلبُل امان کےگھر میں بیٹھ کر آپس میں محو گفتگو تھے کہ اسی گھر سے پھوپھی اشرفُ نسا ء اپنی تیں سالہ روتے ہوے پوتے ندیم کا ہاتھ پکڑ کر ہمارے پاس لے آئی ۔ بچے کو اُس کی امی گھر چھوڑ کر اپنی چھوٹی بیٹی کو لے کر قریبی ہیلتھ سنٹر گئی تھی اور یہ بچہ امی کے اُسے چھوڑ کے جانے پر رو رہا تھا ۔ دادی ان کو خاموش کر نے کی سعی لاحاصل کر رہی تھی ۔ لیکن بچہ مسلسل روئے جا رہا تھا ۔ ہم سب نے بچے کو مطمعین کرنے کی بہت کوشش کی ، پر بچہ خاموش ہو نے کا نام نہیں لے رہا تھا ۔ اتنے میں اُن کی دادی چچا جان گولی خا ن کی طرف اشارہ کر کے بو لی کہ کل آپ کے پوتے کا سالگرہ ہے نا۔ آہا خوب ! ایسا ہے تو کل میں اپنے پوتے کو لے کر آپ کے گھر آوں گی ۔ چچا جان گو لی خان نے بظاہر سنجیدگی سے دادی سے مخاطب ہو کر کہا ، ہاں بھابی کل آپ ندیم اور بھائی بُلبل آمان ہمارے گھر آئیں ۔ ہم نے کھانے کے ساتھ موسیقی کا بھی اہتمام کیا ہے۔ اصل میں یہ باتیں ندیم کو خاموش کرنے کے لیے ہو رہی تھیں ۔ ندیم بھی یہ سُن کر آہستہ آہستہ خاموشی اختیار کر تا گیا اور پھر رونے کے انداز میں اپنی طو طلی زبان سے کہنے لگا۔ آپ لوگ میرے ساتھ شیاشت ،تو نہیں کر رہے ہیں؟ یعنی اپنے توطلے زبان میں ان باتوں پر شک کا اظہار کرتے ہوے اس حرکت کو اپنی دادی اور چچا جا ن گولی خان کی سیاست قرار دی۔ یعنی ان کا کہنا تھا کہ کہیں ان کے ساتھ جھوٹ تو نہیں بولا جا رہا ہے، دھوکا تو نہیں دیا جا رہا ہے۔ ۔ اور اس جھوٹ بولنے اور دوھوکہ دہی کے لئیے اس بچے نے لفظ "سیاست” استعمال کیا۔ جس پر ہم سب ہنس پڑے اور اس کو یقیں دلایا کہ یہ سچ ہے کہ کہ کل ہم ندیم کی سالگرہ کی پارٹی میں جائیں گے ۔ یوں اس لفظ کو ہمارے معاشرے میں بچے سے لیکر بڑے تک ہر فرد نے نا پسندیدہ کاموں کے ساتھ جوڑ کے رکھا ہے ۔ اس سماجی برائی کی بیخ کنی کےلئے کسی نے نہیں سوچا ہے کیونکہ یہ لفظ اپنے بھونڈے مفہوم کے ساتھ ان کے دل و دماغ میں مسلسل تجربات کی روشنی میں رِچ بس چکا ہے۔ اور یوںیہ لفظ معاشرے کے ہر منفی اور غلط کار کردگی کی نمائیندگی کرتا ہے
خیر بچے کی یہ بات سُن کر ہنسی کے ساتھ ساتھ ایک سنجیدہ خیال میرے ذہں میں چُھبنے لگا کہ آخر لفظ سیاست کیوں کر اپنا وقار ، بھروسہ اور اہمیت اس حد تک کھو چکا ہے کہ ایک تیں سالہ بچہ بھی جھوٹ، فراڈ اور دوکھا دہی کو سیاست سمجھتا ہے ، جب کہ حقیقی معنوں میں سیاست ایک مقدس اور مُنفعت بخش پیشے اور خدمت کا نام ہے۔ سیاست اصلا ح کی زبا ن میں فن حکومت اور لوگوں کو اصلاح سے قریب اور فساد سے دور رکھنے کا نام ہے ۔ قرآن میں سیاست سے مراد حاکم کا لوگوں کے درمیان میں حق کے ساتھ فیصلہ کرنا، معاشرے کو ظلم و ستم سے نجات دلانا، امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی تلقین کرنا اور رشوت و بدعنوانی سے پاک اور پر امن و ترقی پسند معاشرے کی تخلیق ہے۔ جبکہ فلسفہ میں سیاست سے مُراد فن حکومت،اور اجتماعی زندگی کا سلیقہ و اجتماعی ترقی ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ اس کو عمُوما اس کی اصلی معنوں میں نہیں لیا جا رہا ہے۔ وہ کونسے عناصر ہیں جو سیاست کے تاریک رخ کو انسانوں کو ذہنوں میں ٹھونس دیئے ہیں ؟۔ میں انہی سوچوں میں ایسا ڈوب گیا تھا کہ شاید ماموں بلبل امان کے باتوں کو نہیں سُن سکا تھا یکایک آواز آئی ” برخردار خیر تو ہے کس سوچ میں ڈوب گے ہو؟” میں نے سنجیدگی سے کہا کہ ماموں جان میں چھو ٹے ندیم کے باتوں پر سوچ رہا تھا جو ہماری باتوں کو دھوکہ دہی کی کسوٹی پر پرکھ رہا تھا ۔ آخر اس بچے کو یہ سوچ کیوں آئی ؟ سیاست کے بارے میں چھوٹے بچوں تک منفی سوچ کے شکار کیوں ہیں؟ مامون بلبل آمان اپنی مونچھوں پر ہاتھ پھیرتے ہوے میری طرف بڑھےاور کہنے لگے” دیکھو بیٹا، سادگی کی بھی حد ہوتی ہے اس معاشرتی برائی کہ وجہ وہی افراد ہیں جن کے ذہنوں میں لیڈر بننے کا بھوت سوار ہے جو کہ جائز و ناجائز میں فرق کئے بغیر اپنی دوڑ میں محو ہیں تو بھلا الفاظ کے تقدس کا اُن سے گلا کرنا آپ کی سادگی نہیں تو اور کیا ؟ ” س پر چچا جان گولی خان نے قدرے غصے سے گویا ہوئے "بات یہ ہے کہ ہم عوام نے اپنے یونین کو نسل کے ممبر سے لیکر ایم۔ا ین ۔ اے تک جنتوں کو بھی لیڈر بنا یا اُن سے جھوٹ اور دوھوکہ دہی کے سوا اور کیا سیکھا ہے” میں نے کہا، ہر کوئی ایسا نہیں ہے تو ماموں بلبل آمان کہنے لگے سبھی کسی نہ کسی طرح عوام کے ساتھ کھیلتے آئے ہیں۔ دیکھو یہ لوگ بظاہر منصوبے تو لاتے ہیں لیکن اپنے من پسند کے لوگوں کو ٹھیکے دیتے ہیں اور اپنی پشت پناہی میں ناقص کام کروا کے سارے پیسے ہڑپ کر جاتے ہیں۔ سادہ عوام وقتی طور پر خوش لیکن ایک دو سال کے بعد وہ کام برباد ہو جاتا ہے۔ تب عوام کو ہوش آتا ہے ۔ اتنے میں دادا الطاف بھی تشریف لاے جو دور سے شاید ان باتوں کو سن رہا تھا۔ وہ آتے ہی کہنے لگے کوئی اچھی گفتار ہو دوستو یہ بے ایمان لوگوں کی باتیں سننے سے ذہن پر غلاظت حاوی ہو جاتی ہے ۔ میں کچھ کہنا چاہتا تھا پر دادا جان نے اپنی بات جاری رکھتے ہوے کہا۔ میں نے اپنی 75 سالہ زندگی میں یہ دیکھا کہ جن لوگوں کے گھروں میں کھانے کو روٹی اور پہننے کو کپڑے نہیں تھے وہ ممبر بننے کے بعد متموّل خاندانوں میں شامل ہوئے ۔ مامو ں بلبل آمان اس بات کو آگے بڑہاتے ہوے کہنے لگے چچا آپ منتخب ممبران کی باتیں کرتے ہو۔ بات ان کی کرو جو ان کے دوست بن کر ہر قسم کے تعلقات بنا کر جائز و نا جائز طریقے سے پیسے بنا رہے ہیں۔ جن کی کوئی ذاتی جائدا د نہیں اور نہ ہی کوئی معقول ذرائع معاش ہے۔ بس ان نمائندوں کی صحبت میں یہ بھی عوامی امانت میں خیانت کر کے حرام کے پیسے بٹور رہے ہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ۔ یہ کہتے ہوئے وہ سوالیہ انداز سے چچا جان گولی خان کی طرف دیکھنے لگا۔ چچا جان گولی خان حیرانگی کے انداز میں کہنے لگے کہ یہ ایم این ایز تو مرا عات یا فتہ ضرور ہوتے ہیں لیکن اتنی مراعات تو نہیں ہے نا جو چند سالوں قوم کو لوٹ کر اپنے لئے بڑی جائداد یں بنائیں میری نظر میں یہ لوگ خدمت کے لیئے نہیں صرف پیسے بٹورنے کےلئے ممبر بن جاتے ہیں ۔
میں ان کی باتوں کو غور سے سنتے ہو ئے اس سوچ میں مگن رہا کہ سیاست جیسے ایک مُقدس پیشے کے بارے یہ بے اعتمادی اور نفرت آمیز تاثر کیوں عوام ا لناس کے ذہنوں میں گہری جڑیں پکڑ چکا ہے ۔ کافی ناقدانہ تفکرُ و تد بُر نے میرے ذہن کے پردے پر کئی ایک نقشے کھینچے کہ داریں اثنا دادا الطاف مجھے مخاطب کر کے بولے، دیکھو بیٹا ! میں نے بڑی عُمر پائی ہے مجھے پتہ ہے لوگ سیاست کو جھوت اور فریب کیوں سمجھتے ہیں۔ سنو بیٹا: میں پاکستان کی بات نہیں کر رہا ہوں، البتہ گلگت بلتستان کی با ت کر رہا ہوں جس کا میں کئی دہا ئیوں سے چشمِ دید گواہ ہوں۔ ۔ سنو۔۔۔ اس کی پہلی وجہ سیاست میں پیشہ ور ، اعلی تعلیم یافتہ اور کہنہ مشق سیاست دانوں کا فقدان ہے۔ جنہیں اپنے سیا سی قوتِ بصیرت، علم و اگاہی اور دانش سے عوم ا لناس کے فوری نوعیت کے اہداف (short term targets ) درمیا نی نوعیت کے اہداف ((medium term targets اور طویل ا لمدت اہداف (long term targets) اور مفاد کے اعتبار سے نہ صرف باریک بینی سے تعین کرنا ہوتا ہے بلکہ ایک مکمل حکمت عملی اور منصوبہ بندی کے تحت شبانہ روز محنت سے ان اہداف کو پورے معیار کے ساتھ حاصل کرنے میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کرنا ہوتا ۔ یوں گلگت بلتستان کا سیاست جیسا اہم پیشہ متعلقہ اہلیت کے حامل لوگوں سے اکثر محروم رہا ہے۔ مقامی ، ملکی اور بین ا لاقوامی تنا ظر میں سیاست سے نا اشنا افراد کا اس میدان میں دخل اندازی، جو اس اہم پیشے کی باریکیوں اور اس کی حساسیت سے مکمل لا علم ہیں، سیا ست کو بد عنوانی کی آ مجگاہ بنایا ہوا ہے۔ اور اس قسم کے لوگوں کی تعداد اس میداں میں بہت زیادہ ہے جو سیاست کے لفظ کے علاوہ اس پیشے کے تقدس سے نا آشنا ہیں۔ ۔
دوسری اہم وجہ ا کثر سیاسی نمائندوں میں قوت بصیرت کی کمی ہے جس کی وجہ سے ان کے سامنے قومی ترقی کا کوئی واضح معیار، حد اور منزل موجود نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے آج تک عربوں روپے کا بجٹ خرچ کرنے کے باوجود ہمارے معاشرتی، معاشی، سماجی ، تعلیمی اور صحت کے میدان میں ترقی سب کے سامنے ہے۔
تیسری اہم وجہ سیا ست میں دیانت داری اور سچائی کی نا پیدگی ہے جو اُم ا لخبائث ہے۔ جس نے بد عنوانی، اقرا پروری ، جھوٹ، دوکھا دہی، سکیموں /پرو جیکٹس کی خرید و فروخت اور عوامی فنڈز کی نہایت بے دردی سے بندر بانٹ کا ختم نہ ہونے والا سلسلہ جنم دیا ہے ۔ ۔ سیاسی نمائندے عوامی پروجیکٹس کے ٹھیکے اپنے چیلے چانٹوں کو دے دیتے ہیں جو ناقص کام کر کے عوامی مفادات کی قیمت پر ان پرو جیکٹس کے لاکھوں روپے بچا لیتے ہیں اور پھر اپنے آقا وں کے ساتھ بانٹ لیتے ہیں۔
چوتھی وجہ سیاسی نمایندوں کی اقراپروری ہے جو ملازمتوں میں اپنوں اور اپنے پوجنے والوں کے علاوہ کسی اور کا سوچتے بھی نہیں ہیں۔
پانچویں وجہ ان نمائندوں کا بیرو کریسی کے سامنے جھکنا، اور اپنے سے با اثر سیا سی شخصیات کی ہر قیمت پر خو شنودی حاصل کرکے اپنے اور اپنے constituency کے وقار کا پروا نہ کرنا ہے۔ جس سے electorate کی خودی کو ٹھیس پہنچتی رہی ۔ اور وہ بد ظن اور مایوس ہوتے گئے۔
چھٹی وجہ سیاست کے نام پر خود ساختہ نمائندوں کا معاشرے میں بد عنوانی پر بد عنوانی کرنا، جھوٹ بولنا اور دھوکہ د ہی کرنا ہے۔ جو چھوٹوں سے لے کر بڑوں تک سب کو بد ظن کر دیا ہے۔
ساتوں وجہ اس ملک میں حکومتی سطح پر احتساب کی کمی ہے۔ ا گر صحیح احتساب ہو تو بہت سارے بد عنوان سیاسی نمائندے اور ان کے وفادار چیلے چانٹے سب جیل جایں گے اور ان سے چوری کے پیسے واپس لئیے جا ئیں گے۔ یہ آیندہ کے لئیے نا اہل ہو ں گے۔
آٹھواں وجہ عوام میں سیاسی سوجھ بوجھ کی کمی ہے۔ عوم کی ذمہ داری ہے کہ ان نمائندوں کو ناقص کار کردگی کا ذمہ دار ٹھرائیں۔ اور غیر معیاری نا قص پروجیکٹس اور اقربا پروری کے خلاف سرا پا احتجاج کریں اور دباو ڈال کر اپنا حق حاصل کریں
موصوف کے مزید کچھ کہنے سے پہلے میں نے مُداخلت کی اور کہا۔۔۔ پھر تو ان نمائندوں کا انتخاب بھی ہم ہی کر لیتے ہیں، پھر یہ سارے طعنے عوام خود کو ہی تو دے رہا ہے نا۔۔۔۔ وہ تذب ذب کے انداز میں ایک لمحہ میری طرف دیکھنے لگے اور اثبات میں سر ہلاتے ہوے بولے بڑی بات کی تو نے، تو نے بڑی بات کی۔ ہماری اپنے غلط چناو ہمیں نقصان دیتا ہے۔ پھر بولے، عوام کو ماضی سے سبق حاصل کر کے اپنے ووٹ نمائندوں کی کار کردگی کی بنیاد پر د ینا چاہیئے، پھر چچا جان گولئ خان نے مزیداضافے کے ساتھ کہا” دیکھیں آج تک ہمارے حلقے میں جو جو نمائندے چنے گئے ہیں ان سب کا کام ہمارے سامنے ہے، ایک دو کو اُٹھا کر سب نے ہمیں بہت دوکھا دیا ہے جس سے پوری سیاست کا پیشہ بری طرح بدنام ہو چکی ہے ۔ میں سو چتا رہا کہ جن لوگوں کو ہم ان پڑہ سمجھتے ہیں وہ کتنے دانش مند ہیں۔ کس طرح ایک عام ان پڑہ شخص باریکی سے سیاسی نمائندوں کی کوتا ہیوں کو مدلل انداز میں وضاحت کی کہ لوگ سیاست کو کیوں فراڈ سمجھتے ہیں ، اور ہر دوھوکہ دہی کو سیاست کے ساتھ کیوں نتھی کرتے ہیں۔ انھوں نے یہ واضح کی کہ اس کے ذمہ دار سیاست کے دعویدار لوگ ہی ہیں۔
ہم عوام اور سیاست ساتھ ساتھ ہی رہتے ہیں اپنی تلخ یا خوشگوار تجربات کی بنیاد پر بات کرتے ہیں، اور رائے قا ئم کرتے ہیں۔ اکثر فراڈئیوں کی وجہ سے سیاست جیسا اہم پیشہ اپنا وقار اور اعتماد عوام میں کھو چکا ہے۔ ایک معیاری سیاسی کلچر ہی سیاست کے حوالے سے عوامی تاثر کو مثبت سمت میں ڈال سکتا ہے اور اس کے لیے حقیقی سیاسی نمائندوں کو سیاسی گِدوں سے اپنے اپ کو الگ رکھ کر اپنے معیاری اور عوام دوست کارکردگی سے عوام ا لناس میں سیاست کے اصلی تاثر کو پروان چڑھا نے کی ضرورت ہے ۔ بہر حال عوام ا لناس کا یہ بہت بڑا اخلاقی اور قانونی فرض ہے کہ اپنے ووٹ کا استعمال قومی امانت سمجھ کر کریں اور ہر قسم کے تعصبات سے بالا تر ہو کر معیار اور بہتریں کردار اور کار کردگی کے مالک لوگوں کو منتخب کر کے اپنے علاقے کو ترقی دلانے میں اپنا حصہ ڈالیں۔