کالمز

حسد یا تنقید

خاطرات:  امیرجان حقانی
ایک صاحب جو میرے بہت قریب ہوتے جارہے تھے. مجھ سے کہتے کہ آپ سے بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے. اور مزے کہ بات یہ تھی کہ میری ہی ریکمنڈیشن پر وہ صاحب کسی ادارے میں کام بھی کرنے لگے اور کافی کچھ کمایا. میں نے انہیں کافی عزت دی بلکہ ان کی اوقات سے زیادہ عزت دی. موصوف بڑی بڑی علمی شخصیات پر عجیب عجیب تبصرے بھی فرمایا کرتے. میں انہیں بتاتا کہ عملی زندگی میں ایسا کچھ نہیں ہوتا جو آپ سمجھ رہے ہیں یا کہہ رہے ہیں. چونکہ وہ کھبی کھبی اظہار محبت میں یہاں تک کہہ دیتے کہ برادر صغیر کے طور پر مجھے یہ بات بتادیجے. یعنی مشورہ بھی لیتے. میں نے بھی ان پر کافی اعتماد کیا. میں انسان ہوں، خطاؤں کا پتلا بھی ہوں. اپنی بشری کمزوریاں بھی ان سے  شیئر کرتا.اور اصلاح کے لیے مشاورت کرتا.
پھر یوں ہوا کہ موصوف سوشل میڈیا پر میری تحریر یا فکر و خیال پر تبصرہ کرنے کی بجائے میری ذات پر حملہ آور ہونے لگے . میں انہیں بتاتا، میاں! تنقید ذات اور ذاتی کمزوریوں پر نہیں کی جاتی بلکہ فکر و خیال پر ممکن ہوتا ہے مگر وہ اگلی دفعہ پھر  حملہ آور ہوجاتے.
ایک دفعہ فرمانے لگے:
"آپ نماز نہیں پڑھتے، نماز نہ پڑھنے والے ایسے ہی ہوتے، اپنی نماز کی فکر کریں.”
یہ بات  میں نے ان سے خود نجی ملاقات میں شیئر کی تھی  کہ بھائی دعا کیجے. نماز میں سستی ہوتی ہے. اللہ پابندی کی توفیق دے. صاحب نے سرعام ڈھنڈورا پیٹ لیا.اور بزعم خود اصلاح فرمائے.
سوشل میڈیا پر میرے  ایک دوست احسان کریم ہیں. وہ میری تحریرات پر تنقیدی تبصرہ کرتے ہیں. اور تحسین بھی کرتے.چونکہ ان کو میری ذات سے کوئی ایشوا نہیں ہوتا بلکہ کھبی کھبار خیال سے اختلاف ہوتا جو مجھے بے حد اچھا لگتا.
ایک دفعہ سوال اٹھایا کہ:
کہیں سوشل میڈیا نے ہمیں نرگسیت کا شکار تو نہیں بنایا؟”
اس سوال پر گھنٹوں سوچا.
پھر خاطرات دل احباب سے شئیر کیا. یہ میرے پرسنل خیالات تھے. احباب نے بہت سراہا. کالم اخبارات اور ویب سائٹس پر بھی شائع ہوا.
 موصوف میری وال پر تشریف لائے، عنوان دیکھ کر ہی کمنٹس ثبت کردیئے کہ
” یہ سب کچھ سرقہ ہے” یعنی چوری شدہ کالم
آپ یقین کریں، مجھے شدید تکلیف ہوئی، عرض کیا یہ میرے مشاہدات و خیالات ہیں. اگر آپ کو اختلاف ہے تو اپنا نکتہ نظر دیجے اور اگر آپ سمجھتے ہیں کہ یہ سرقہ ہے تو پلیز نشاندھی کیجے. تاکہ ہم اپنی اصلاح کریں اور آئندہ قلمی چوریوں سے بچے.مگر وہ ایسا خاک کرتے. انہیں تو بس اپنا کینہ نکالنا تھا. وہ بھی سربازار.
وہ سمجھتے تھےکہ وہ تنقید کررہے ہیں. یہ عیاں ہے کہ تنقید کام، فکر و نظر اور تحریر پر تو ہوسکتی ہے مگر ذات پر نہیں.ذات پر کیچڑ اچھالنا تنقید نہیں حسد کہلاتا ہے.
یہ سلسلہ چلتا رہا مگر میں اگنور کرتا رہا. چونکہ دوستانہ تھا. پرسنل میں سمجھا بھی دیا کہ حضور اگر مجھ سے ناراضگی ہے تو بتادیجے ازالہ کریں گے اور آپ سے معافی بھی. مگر وہ بھائی بھائی کہتے.
پھر ایک دن وہ میری کسی موٹیویشنل یک سطری پوسٹ پر تشریف لائے اور کہا کہ :
” جان ۔شیخ سلیم اللہ نور اللہ مرقدہ کی آپ اگر ایمانداری سے دسگاہ میں بلا ناغہ بیٹھتے تو بخدا ایک راسخ اور متبحر متدین عالم بن کے اٹھتے”
میری پوسٹ  کا تعلق  موصوف کے اس کمنٹس سے بنتا ہی نہیں تھا. بہت سوچا کہ موصوف کو مجھ سے کیا شکایت ہوسکتی ہے.جو اس وقت مجھے جانتے بھی نہیں تھا جب میں سلیم اللہ خان رحمہ اللہ کے پاس پڑھا کرتا تھا. سمجھنے سے قاصر رہا.
میں نے 2009میں سلیم اللہ صاحب سے مشکوۃ اور 2010 میں بخاری پڑھا ہے. موصوف کیساتھ میری پہلی ملاقات 2018 میں ہوئی تھی. وہ انٹرویو دینے آئے تھے اور میری ہی ریکمنڈیشن پر ان کو سلیکٹ کرلیا گیا تھا.کیونکہ مجھے بطور سبجکٹ سپیشلسٹ بٹھا دیا گیا تھا.
جب ان سے کہا کہ میرے پڑھنے اور آپ سے ملاقات کے درمیان آٹھ سال کا فرق ہے. آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ میں کچھ پڑھے بغیر آگیا ہوں، تو کہنے لگے:
آئینہ دکھایا تو برا مان گئے”
مجھے نہیں معلوم کہ انہیں مجھے آئینہ دکھانے کی ذمہ داری کسی نے دی تھی یا اپنی سرشت سے مجبور ہوکر مجھے آئینہ دکھانے کا کارخیر مفت میں ثواب سمجھ کر انجام دے رہے تھے.
 یہ ذہن میں رہے کہ
مخلص انسان آئینہ دکھاتا ہے. آئینہ دکھانے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ علیحدگی میں انسان کسی کے افعال اور نظریات پر تنقید کرے اور اس سے بچنے کی تلقین کرے. ناراض بھی ہو تو کہے کہ میاں!
بات وہی ہے جو میں کہہ رہا ہوں جو آپ کے حق میں ہے.”
محبت کرنے والے تنقید بھی کرتے ہیں. کام کے نتائج پر بات کرکے آئینہ بھی دکھاتے اور روکتے بھی ہیں.
البتہ حسد اور کینہ رکھنے والے لوگ سرعام بے عزتی کرتے ہیں. کمزوریاں ڈسکس کرتے ہیں اور بغض نکالنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے. اور منافقت کا لبادہ اوڑھتے ہوئے بھائی، بھائی اور جان جگر بھی کہہ دیتے مگر ایسے لوگ کچھ ہی عرصے میں جان جگر نہیں ہوتے بلکہ اپنی ناکامیوں اور کمزوریوں کی آگ میں جلتے ہوئے وبال جان بن جاتے ہیں.
میرا اصول ہے کہ جو میرے کام پر جائز تنقید کرے اس کو دل سے تسلیم کرتا اور اپنی اصلاح کرتا. جو محبت میں مجھے ڈانٹے اور اپنے پاس بلاکر یا میرے پاس تشریف لاکر، یا پرسنل مسینجر  میں جاکر، مجھے میری عبث کاریوں سے روکے، وہ شخص مجھے محبوب لگتا ہے. وہ میرا محسن ہے. اور جو سرعام پگڑی اچھالے، محبت میں نفرت کا زہر اُگل دے اور کینہ ظاہر کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دے اور حسد کی بھٹی میں جلے، ایسے لوگوں سے جتنا ممکن ہو دور ہوتا چلا جاتا. اور قرآنی اصول پر عمل کرتا اور اپنی راہ لیتا.قالوا سلام سب سے آسان فارمولا ہے، کیونکہ حسد، ضد، کینہ، بغض اور عدوات کا کوئی علاج اب تک جدید میڈیکل سائنس نے ایجاد نہیں کیا. واحد علاج خاموشی سے راہ بدلنا ہے. تو
احباب کیا کہتے ہیں؟

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button