گلگت بلتستان میں عمرانی معاہدہ اور اسکا تضاد
تحریر: عزیز علی داد
مترجم: اشفاق احمد ایڈوکیٹ
تاریخی اعتبار سے گلگت بلتستان کے خطے میں چھوٹی چھوٹی ریاستوں اور مختلف وادیوں کے زیر اثر قبائلی کونسلات کے ذریعے حکومت کی گئی تھی-
صدیوں تک اس سیاسی نظام نے لوگوں کو اس قابل بنایا کہ وہ اپنے انفرادی تعلقات, مقامی معیشتوں, سماجی حالات اور ریاستی و سیاسی معاملات کو احسن طریقے سے چلا سکے.
انیسویں صدی کے دوسرے عشرے میں گلگت بلتستان میں ڈوگرہ راج اور برٹش حکومت کی آمد نے مقامی عمرانی معاہدے کو کمزور کر دیا اور وقت کے ساتھ مقامی پاور سٹرکچر ( طاقت کے ڈھانچے) کو توڑ دیا.
سال 1974 میں آخری شاہی ریاست ہنزہ کے تحلیل ہونے اور ذوالفقار علی بھٹو کے نئے پاور سٹرکچر اور انتظامی نظام متعارف کروانے کے ساتھ مقامی عمرانی معاہدے کے آخری بقایہ جات بھی ٹوٹ گئے.
اختیار کے اس نئے ڈھانچے میں خطے کے مقامی افراد کو ان کے اختیارات سے محروم کردیا گیا اور ریاست کے انتظامی عضو نے خطے کی باگ دوڑ سنبھال لی. تب سے گلگت بلتستان کے علاقے کو گوشہ گمنامی یعنی ایک نامکمل حالت میں رکھ کر اس کو ریاست پاکستان میں کسی بھی طرح کی نمائندگی دینے سے انکار کیا گیا اور ساتھ ہی ایک خود کار سماجی معاہدے کے پیدا ہونے کے امکان کو بھی سختی کے ساتھ دبایا گیا. پاکستانی ریاست میں اس خطے کو کسی عمرانی معاہدے کے بغیر چلانے کی بنیادی وجہ تنازعہ کشمیر ہے.
پاکستان کے تمام تر نظریاتی فریم ورک میں کشمیر مرکزی ستون اور قومی شہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے.
اس کی وجہ یہ ہے کہ کشمیر کا پاکستان میں ادغام ریاست پاکستان کی نظریاتی اور جغرافیائی طور پر تکمیل کرتا ہے مگر پاکستان کی قومی تعمیر کے طریق عمل میں گلگت بلتستان ایک عدم وجود بن کر رہ گیا ہے.
1948 میں جب مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ میں ایک ببن الاقوامی مسئلہ کے طور پر اجاگر ہوا تو پاکستانی ریاست نے گلگت بلتستان کو مسئلہ کشمیر کا حصہ قرار دیا. تب سے گلگت بلتستان کی قسمت تنازعہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی قرارداد کی یرغمال بن گئی ہے.
خطہ گلگت بلتستان کو دائمی طور پر شناخت کے بحران میں رکھنے کی پالیسی نے پاکستانی ریاست اور گلگت بلتستان کے لوگوں کی تعلقات کو تلخ بنا دیا ہے.
پاکستان گلگت بلتستان میں صْابطے اور طریقہ کار میں مصروف عمل ہے جیسے کہ انتخابات کا انعقاد, عبوری حیثیت دینا, گورنر کی تعیناتی, کابینہ کی عام رسم کے ساتھ وزیر اعلی کا خطاب دینا.
مگر ان صْوابط اور قاعدوں کے تحت عمل دخل بامعنی مقامی سیاست کے لئے بہت ہی کم جگہ پیدا کرتی ہے.
قومی سطح پر حکمران جماعتیں خطے کی مقامی مقبول خواہشات اور جذبات کو نظرانداز کر کے مرکز میں اتھارٹی ,اصول اور اپنی پارٹی کے طریق کار کو تسلیم کرتی ہیں.
مقامی خواہشات اور جذبات کی طرف ریاست کی بےحسی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ سال 1947 میں حکومت پاکستان نے گلگت بلتستان کے صدر شاہ رائیس خان کو ہٹا کر ان کی جگہ ایک مجسٹریٹ کو تعینات کیا اور اسے سارے خطے کا حکمران بنا دیا تب سے آج تک اس خطے کو پاکستان کی افسر شاہی کنٹرول کرتی آ رہی ہے اور کسی بھی اختلاف رائے کو کئی طریقوں سے دبایا جاتا ہے. سیاسی جبر کا اگرچہ بیرونی طور پر بہت کم ظہور ہوتا ہے مگر سیا سی لاشعور مقامی زبانوں اور ادب میں شاعری کے ذریعے سے اپنی اختلاف رائے کو بیان کرتا ہے.
مقامی شاعرانہ انداز گلگت بلتستان کے باشندوں کو اجازت دیتا ہے کہ وہ اپنے حلقہ عدم ہستی میں اپنی موجودگی اور سیاسی حالت کا ٹھیک انداز میں اظہار کریں اور اس غالب بیانیے کو چیلنج کریں جو گلگت بلتستان کی ہستی کو نیستی میں تبدیل کر دیتا ہے.
نوشین علی اپنی کتاب Delusional States کے صفحہ 173 پہ لکھتی ہیں کہ” گلگت بلتستان کی موجودہ عہد کی تنقیدی شاعری بجاۓ اس کی تکمیل کرنے کے قوم کے معنی کو چیلنج کرتی ہے”.
مقامی شاعری گلگت بلتستان کو حق سے محرومی اور فرقہ واریت کے سیاق و سباق میں سیاسی داخلی کیفیت کے اظہار کی تشکیل کرتی ہے اور علاقائی ثقافتی پیداوار کے تقطہ نظر سے یہ پوسٹ کولونیل نیشنلزم( نوآبادیاتی دور کے بعد کی قوم پرستی) کی جھلک دکھاتی ہے.
علی کے نقطہ بحث کو ایک شینا شاعرنے اپنے ایک مقبول شینا گانے میں بہترین انداز میں بیان کیا ہے.
موجودہ نظام سے مایوسی اور اسلام کا نام استعمال کر کے بغیر حقوق دیئے اسلام کو سوشل کنٹریکٹ کی بنیاد بنانے پر لوگوں کی کیفیت اور حقیقت بینی کی نمائندگی کرتے ہوئے شاعر کہتے ہیں کہ.. "
کوہ قاسم شاہ ,کوہ کہھترانی وطے
کوہ مہتاب خان ,کو افصْل خانی وطے
بے خوش بلس کے مسلمانی وطے
لیل نوش آسوت کچاق نقصانی وطے
ترجمہ :
"کھبی قاسم شاہ ہمارے اوپر حکومت کرنے آیا
اور کبھی کھترآن آۓ
پھر مہتاب خان آیا ,
پھر افضل خان آیا
ہم مسرور تھے کہ مسلمان آئے,
مگر ہمہیں معلوم ہی نہیں ہوسکا کہ مذہب کے بھیس میں کتنے نقصان آئے.
یہ فقرے واضح طور پر اس حقیقت کو بیان کرتے ہیں کہ کس طرح پاکستانی ریاست نے ریاستی اسلام کے تصور کو محض گلگت بلتستان کے لوگوں کے سیاسی حقوق اور ثقافتی پہچان کے سوال کو دبانے کے لئے استعمال کیا.
گلگت بلتستان کو جمہوری عمل کے طور طریقوں سے پاکستان میں شامل کرنے کے بجائے پاکستانی حکمران طبقے نے اس خطے کے مختلف النوع مذہبی گروہوں پر اپنے کنٹرول کو استحکام دینے اور اپنی گرفت برقرار رکھنے کے لئے اسلام کے نام کو ایک متحدہ طاقت کے طور پر استعمال کیا. گلگت بلتستان کے مذہبی تنوع پر ایک ہی قسم کے یکساں طرز کے اسلام کی بالا دستی کو زبردستی نافذ کرنے کی کوششوں نے اس خطے کو ایک تفرقہ انگیز قوت بنا دیا ہے. اس طرح ریاستی تعاون سے چلنے والے مذہبی بیانیے نے سابقہ معاہدہ عمرانی کے بقایا جات کو بالکل مٹا کر صاف کر دیا جو مختلف نوع کے مذہبی, لسانی اور نسلی پس منظر سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو متحد کرکے ان کو ایک سماجی اور سیاسی کمیونٹی کے طور پر یکجا رکھتا تھا.
بہرحال زبانی اور مقامی زبانوں اور دیسی بولیوں کی شاعری نہ صرف خیالی کمیونٹی کو چیلنج کرتی ہے بلکہ ان کا مقابلہ بھی کرتی ہے جس کو لکھے ہوئے الفاظ, معاشرے میں پھیلے ہوۓ تعلیمی ادارہ جات, کاغذی کاروائی اور شماریات میں لکھے ہوئے الفاظ کے ذریعے نافذ کیا گیا ہے. لہذا زبانی بولی کو ایک توانا اور مضبوط تصور اور طرز فکر کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے جو گلگت بلتستان کو ایک علیحدہ ثقافتی کیٹگری /درجےکے طور پر تصور کرتے ہیں. پاکستانی ریاست کی نافذ کی گئی شناخت کو مٹانے اور گلگت بلتستان کی شناخت کا احیا کرنے کے لئے یہ لازمی بنیادیں فراہم کرتی ہے .
جیسا کہ نوشین علی دلیل دیتی ہیں کہ
” یہ زبانی دنیا ہے جو گلگت بلتستان کے علاقے کی کمیونٹی کو تنقیدی انداز میں دوبارہ تصور کرنے میں مدد دیتی ہے”.
سال 2015 میں گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے انتخابات کے دوران تمام مقامی برادریوں نے اپنے سیاسی عقیدوں اور انتخاب لڑنے والے اپنے نمائندوں کی حمایت کرنے کے لیے بڑھ چڑھ کر مقامی گانوں پر انحصار کیا.
زیادہ تر گیت ہنزہ سے تعلق رکھنے والے امیدوار بابا جان جو کہ پابند سلاسل لیڈر ہیں کے لئے کمپوز کئے گئے.
ہنگامہ آرائی کے الزامات کی بنیاد پر بابا جان اور ہنزہ سے تعلق رکھنے والے دیگر گیارہ سیاسی کارکنوں کو چالیس سال کی سزا دیکر جیل میں قید کیا گیا ہے. نوجوانوں کے جذبے کو قابو کرنے کے بجائے ان کی قید و بند نے مزید کئی نوجوانوں کو پیدا کیا ہے جو اس سسٹم کے خلاف ہیں جس نے انہیں اپنی شخصیت یا پہچان سے محروم کر رکھا ہے.
احساس محرومی اور آئیڈیلز کی طلب حقیقی اور خیالی دونوں دنیاؤں میں سرایت کر گئی ہے. یہاں تک کہ شعراء بھی اپنے ناقابل حصول محبوب کی عکاسی سیاسی پیراۓ میں کرتے ہیں.
ان کے لئے طاقت بھی اتنی ہی فریب انگیز ہے جتنا ان کا محبوب.
شینا زبان کے مندرجہ ذیل اشعار میں شاعر خوشی محمد طارق اپنی محبوبہ کے ساتھ سیاسی اِصطلاحات میں گفتگو کرتے ہوئے اپنی سیاسی بے حسی کا اظہار کابینہ, پارلیمنٹ اور منسڑ جیسے سیاسی اصطلاحات کے ذریعے کرتے ہیں.
میے ہیئی او ایوانئے تو وزیراعظم ہن نے
مئے گا نوم لکھار جیک بیئی
کابینۓ وزیررور نے
ترجمہ. "آپ میرے دل کی پارلیمان کی وزیر اعظم ہو
میں تجھ سے اپنا نام بھی اپنی کابینہ کے وزراء میں شامل کرنے کی التجا کرتا ہوں. "
المیہ یہ ہے کہ پاکستان کے حکمران طبقے نے آبادی کو تسلی دینے کے لیے تمام ذرائع بروئےکار لاتے ہوۓ ظالمانہ نظام کے خلاف مقبول مقامی جذبات کو کچل دیا.
گزشتہ ستر سالوں کے دوران گلگت بلتستان میں متعارف کروایا گیا ہر ادارہ, ہر اقدام اور ہر عہدے کا مقصد وفاقی حکومت کی قوت کو بڑھاوا دینا اور مقامی سماجی اداروں اور حکومتی ڈھانچے کو کمزور کرنا ہے, اس طرح جب پرانا معاہدہ عمرانی غائب ہوا تو جدید ادارے اس اہل نہیں تھے کہ وہ اپنے وعدے پورے کرسکیں. چنانچہ ریاست اور معاشرے نے گلگت بلتستان کو حالت التوا میں رکھ کر اسے عضو معطل بنا دیا ہے.
مثلا گلگت بلتستان میں سال 1956 میں ایک تنظیم جو کہ ولیج ایڈ کہلاتی تھی متعارف کروائی گئی تاکہ معاشی ترقی کے معمولات چلاۓ جائیں. اس تنظیم کو سرکاری ملازم چلاتے تھے جس میں مقامی نمائندگی شامل نہیں تھی. بعد ازاں 1969 میں ولیج ایڈ نامی تنظیم کو بدل کر اسے گلگت بلتستان ایڈوائزری کونسل کا نام دیا گیا اور یہ بہانہ تلاشا گیا کہ اس کونسل میں مقامی لوگوں کے لیے جگہ دی جارہی ہے. 1972 میں شاہی ریاست نگر اور 1974 میں شاہی ریاست ہنزہ کو تحلیل کرنے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے نہ تو جدید نمائندہ اداروں کو بااختیار بنایا نہ ہی گلگت بلتستان کو آئین پاکستان میں شامل کیا. بجاۓ یہ کرنے کے انہوں نے اس خطے پر وفاقی حکومت اور اس کے نمائندوں کی گرفت کو مزید مصْبوط کیا. پھر صْیاالحق کا دور شروع ہوا اور انہوں نے ناردرن ایریاز کونسل کی شکل میں ایک نیا ایڈوایزری ادارہ بنایا. یہ ایڈوائزری کونسل 1999تک چلتی رہی. پھر ناردرن ایریاز کونسل کا نام بدل کر ناردرن ایریاز لیجسلیٹیو کونسل رکھا گیا. 2007 میں ایک حکومتی آرڈر کے تحت اس قانون ساز کونسل کو بدل کر قانون ساز اسمبلی کا درجہ دیا گیا اور اسی طرح عوامی نمائندگان کے نام بھی بار بار تبدیل ہوتے رہے. مثلاً ممبر سے ایڈوائزر, ڈپٹی چیف ایگزیکٹیو سے چیف ایگزیکٹیو جس سے موجودہ وزیر اعلٰی کا عہدہ بن گیا.
یہ سیاسی اصطلاحات درحقیقت وفاقی پالیسیوں اور فیصلہ جات کے لیےآسانی کے ساتھ ربر اسٹامپ کی مانند کام کرتے ہیں اور وہ یہ بتلاتے ہیں کہ ریاست اداروں, نمائندوں اور اشخاص کے لیے کوئی بھی نام دینے کو تیار ہیں مگر مقامی افراد کو کوئی بھی اختیار دینے کے لیے راصْی نہیں. بالکل اسی طرح موجودہ گلگت بلتستان اسمبلی بھی اختیارات سے محروم ہے.
مقامی زبان میں ایک کہاوت ہے کہ
"maey baso dono nay bilo "
ترجمہ. میرا بچھڑا کبھی بیل نہیں بن سکا.
جبکہ نمائندہ حکومت مطلب کی تبدیلی سے گزری ہے چنانچہ نمائندہ اسمبلی بامعنی اور جمہوری انداز میں گلگت بلتستان کے عوام کی حقیقی نمائندگی کرنے میں ناکام ہوچکی ہے. یہی انداز تسلسل کے ساتھ نافذ ہونے والے حکم ناموں میں بھی دیکھا جاسکتا. 1974 ,1994اور 2004 میں ناردرن ایریاز لیگل فریم ورک آرڈر, سال 2009 میں گلگت بلتستان امپاورمنٹ اینڈ سلف گورننس آرڈر. پھر گلگت بلتستان آرڑر 2018 اور اب ترمیم شدہ آرڈر 2019. یہ تمام حکم نامے درحقیقت اس خطے کی شناخت کے بحران کو برقرار رکھنے کے حیلے بہانے ہیں.
لوگوں کو حق راۓ دہی دئیے بنا اور آئین میں شامل کیے بعْیر وفاق پاکستان کی طرف سے حکم ناموں کا مسلسل بہاؤ گلگت بلتستان کی آبادی میں عدم اطمینان کو مزید فروغ دے رہا ہے.
گلگت بلتستان میں متعارف کروائی گئی تمام تر تبدیلیاں محصْ اس خطے کی حیثیت کو التوا میں رکھنے کے ایک مشق کی تشکیل ہیں جن کا مقصد اس خطے میں جمہوری اداروں کی تشکیل کی آڑ میں درحقیقت وفاقی حکومت کا گلگت بلتستان میں گرفت کو برقرار رکھنا ہے.
اس طرح کے جمہوری دھوکے کی نسبت ایک معاہدہ عمرانی کے ذریعے معاشرے پر زیادہ بہتر طور پر حکومت کی جاسکتی ہے.
یہ آئین ہی ہوتا ہے جو ایک معاہدہ عمرانی کے طور پر شہریوں اور ریاست کے درمیان تعلق طےکرتا ہے اور افراد کے حقوق کا تحفظ کرتا ہے اور حکومت کو جوابدہ بناتا ہے .
سوشل کنٹرکٹ تھیوری کی کلاسیکی تشکیل کے مطابق معاہدہ عمرانی کے دو پہلو ہیں جو ریاست اور سماج دونوں کے لیے کام کرنے کے لیے جگہ پیدا کرتے ہیں .
معاہدہ عمرانی ریاستی طاقت کو قانوناً تسلیم کرتے ہوۓ شہریوں کے حقوق کو یقینی بناتا ہے کہ ریاست ایک مہذب زندگی کے لئے کم سے کم شرائط کی صْمانت دے اور اگر ریاست ان حقوق کو تحفظ دینے میں ناکام ہوتی ہے تو شہریوں کو انقلاب کا حق فراہم کرتا ہے.
گلگت بلتستان کو گزستہ 72 سالوں سے حالت التوا میں رکھا گیا ہے کیونکہ اس کی قسمت کو تنازعہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے ساتھ نتھی کر دیا گیا ہے. دوسرے الفاظ میں گلگت بلتستان اندورنی مسائل کا نہیں بلکہ بیرونی محرکات کا شکار بن گیا ہے .
گلگت بلتستان کو اپنے ساتھ ملانے اور ایک معاہدہ عمرانی کے تحت جمہوری طرز پر اس خطے پر حکومت کرنے کی بجاۓ پاکستانی ریاست یک طرفہ حکم ناموں کے تحت اس خطے پر راج کرتی ہے. گلگت بلتستان کی یہ شناخت سے عاری گوشے جیسی حیثیت پاکستان کے ریاستی ڈھانچے کے اندر نئے اندرونی محرکات کو جنم دے رہی ہے جس کو اجنبی اختیار کے انتظام سے نہیں روکا جاسکتا.
جب لوگوں کی آواز خاموش کرانے کے لئے دیوار کی طرف دھکیل دیا جاتا ہے تو پھر اس کا واحد نتیجہ یہ ہے کہ وہ دیوار پر لکھیں. ریاست کے لیے وقت آگیا ہے کہ وہ گلگت بلتستان کے لوگوں کی دیواروں اور ذہنوں پر لکھی جانے والی تحریروں کو پڑھے.
نوٹ. عزیز علی داد کا یہ مصْمون مورخہ 25 آگست 2020 کو ایک امریکی جریدے https://politicalandlegalanthro.org
میں بعنوان Social Contract and Its Discordance in Gilgit-Baltistan
شائع ہوا تھا , جس کا اردو ترجمہ مصنف کی اجازت سے قاریئن کے لیے پیش کیا گیا ہے.