کالمز

سسر اور  ساس کی خدمت

خاطرات: امیرجان حقانی
وہ نوجوان تھا، والدین نے اچھی تعلیم دلائی تھی. بیٹے پر بڑی محنت کی تھی. اللہ نے نوکری بھی دی. پھر اس کی پسند کی شادی بھی کردی. بڑے ناز نخروں میں بہو کا استقبال کیا. بیٹیوں کی طرح بہو کیساتھ رویہ رکھا.
بہو پڑی لکھی تھی. دینی کتب کا بھی وسیع مطالعہ تھا. کچھ عرصہ بعد اس نے ہنستے کھیلتے گھر میں رولا کھڑا کردیا. کھبی بوڑھی ساس کو جڑکیاں تو کھبی سسر کو کھری کھری سنادی. وہ بیچارے برداشت کرتے رہے. اس نے ان کے صبر کو کمزوری جانا اور پھر بیٹے کے سامنے والدین کو بے عزت کرنا شروع کیا. لڑکے نے بہت سمجھایا مگر اس نے کہاں سمجھنا تھا.
ساس سسر کی خدمت سے ہاتھ اٹھا لیا. دلیل پیش کی کہ اسلام نے ایسا کوئی حکم نہیں دیا ہے کہ شوہر کے والدین کی خدمت کی جاوے.پھر شوہر کیساتھ بھی یہی رویہ رکھا.صصاف بتادی کہ اپنی چائے خود بنالو اور اپنی ٹوپی بھی خود دھو لینا.
جب بچہ پیدا ہوا تو کچھ عرصہ بعد اپنے ہی بچے کو دودھ پلانے سے بھی انکار کردیا اور شوہر سے کہا کہ اپنے بچے کے دودھ کا انتظام کیجے. اسلام نے مجھ پر لازم نہیں کیا کہ آپ کے بچے کو دودھ پلاتی پھروں.دودھ نہ پلانے کی دھمکی دیتے ہوئے الگ گھر کا مطالبہ بھی کردیا.اور اسلام کا حکم پورا نہ کرنے کا طعنہ بھی دے مارا.
والدین کیساتھ شوہر بھی پریشان ہوا. پسند کی شادی تھی اور ویسے بھی لڑکا اور اس کے والدین  گھر برباد کرنا نہیں چاہتے تھے.
اس نے جب ساری صورت حال بتائی تو عرض کیا..
اسلام نے آپ پر سکنی، کپڑا اور کھانا فرض کیا ہے. اب آپ بھی اسلام کی طرف رجوع کرو.
الگ ایک کمرہ دکھاو، اس سے صاف بتاؤ کہ یہ آپ کی الگ رہائش ہے. میری اجازت کے بغیر اس سے باہر نہ نکلنا ورنا آپ کو ہمیشہ کے لیے والدین کے گھر بھی بیجا جاسکتا.
مرینہ کے دو جوڑے سادہ  کپڑے کمرے میں پھینکو اور کہو : یہ لو آپ کا لباس، اسلام کے حکم پر تعمیل ہوگئی.اسلام نے کہی یہ نہیں کہا کہ معیاری شیفون اور ساڑھی پہنائی جاوے اور مہنگے دلہن سوٹ اور کشمیری شالوں کی سوغت کی جائے.اور نہ ہی کڑھائی والے تھری پیس سوٹ پہنایا جائے.
صبح ایک کپ چائے، دوپہر کو ایک روٹی کیساتھ تھوڑا سا نمک اور شام کو ایک روٹی کیساتھ تھوڑی چٹنی عنایت کیجے اور صاف بتادیجے کہ اسلام نے کھانا کھلانا کا حکم دیا ہے. بریانی، چکن روسٹ اور بنڈی کی سبزی کیساتھ لسی اور کولڈ ڈرنک پلانے کا حکم قطعا نہیں دیا.اور نہ ہی بڑے اچھے ریسٹورانوں میں کھانا پر لے جایا جاوے.
شوہر نے  اسلام کے احکام کی تعمیل کرتے ہوئے جب یہ فارمولا اپنایا تو تین دن میں محترمہ کا عقل ٹھکانے آگیا.اور پہلے سے دس گنا زیادہ گھرداری میں لگی رہی. یعنی سگھڑ عورت بن گئی.
یاد رہے اسلام نے کھبی ایسا حکم نہیں دیا کہ شوہر اور اس کے گھر والوں کی خدمت اور ان کا خیال نہ رکھا جائے، گھر کی حفاظت اور شوہر کے اہل و عیال کو لتاڑا جاوے، بلکہ اس کی ترغیب دی ہے البتہ اسلام زبردستی خدمت کروانے سے روکتا ہے.. باقی اسلام نے گھرداری کی ساری ذمہ داریاں عورت کو دی ہے تب تو اسکو گھر کا ملکہ بنایا ہے..
دو چار الفاظ کتابوں میں پڑھ کر اسلام کی غلط تشریح کرکے گھروں کو بگاڑنا قطعا مناسب نہیں، جو خواتین بالخصوص مدرسوں کی فاضلات ایسا کرتی ہیں ان کیساتھ عین اسلام والا سلوک کرکے ان کی دلی تمنا پوری کی جاوے تاکہ ان کو اسلام کی اصل روح سمجھ آجائے اور وہ اسلام کی من چاہی تشریح کرکے گھروں کو نہ بگاڑے.. ان کو سیدھا سیدھا سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور دیگر صحابیات و باکمال خواتین اسلامی  کی سیرت کا مطالعہ کروایا جائے.
اس سب کے بعد بھی نہ مانے تو میرا بتایا ہوا فارمولا نافذ کرکے ان کا دماغ ٹھکانے پر لایا جاوے تاکہ وہ آئندہ اسلام کو غلط بیان کرکے شوہر اور اسکے والدین کو بلیک میل کرنے سے باز آجائے.
ایسی خواتین کو معلوم ہونا چاہیے کہ اسلام ساس اور سسر کو ماں باپ کا درجہ دیتا ہے. شوہر کی مال اور عزت و ناموس کی حفاظت ضروری قرار دیتا ہے. محبت و خدمت سے گھر کو جنت بنانے کی ترغیب دیتا ہے. تب کہیں جاکر کامیاب مرد کے پیچھے خاتون کا ہاتھ ہوتا ہے. ورنا مرد کی زندگی میں زہر گول کر کھبی بھی عورت سکھی نہیں ہوسکتی اور نہ ہی اسکے شوہر اور بیٹوں کی کامیابی میں اسکا کردار ہوسکتا ہے.

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button