کورونا وائرس کے 17 دن
تحریر: علاالدین
مجھے کورونا وائرس بلتستان کے ایک آفیشل دورے کے موقعے پر لگا۔ 18 ستمبر 2020 کو میرے دفت کے ساتھی اور ڈرائیور کو شدید بخار ہوا۔ 19 ستمبر کو میں نے بھی سستی محسوس کی۔ ایک گھنٹے آرام کے بعد میں نے کام شروع کردیا۔ 20 ستمبر کو ہم صبح سویرے گانچھے کی طرف روانہ ہورہے تھے، مگراتنا شدید بخار ہوا کہ سفر ممککن نہ رہا۔
بلتستان میں میڈیکل سہولیات کا خاطر خواہ انتظام نہ ہونے کی وجہ سے میں نے گلگت کا رُخ کرلیا۔ اسی روز براستہ دیوسائی گلگت پہنچ کے ڈاکٹر امین سے مشاورت کے لئے ان کے کلینک پنہچا۔ انہوں نے پانچ دنوں پر مشتمل انجیکشن کا کورس دیا اور ساتھ ہی کوویڈ 19 ٹیسٹ کےلئے ریفرل لکھ کر دیا۔ شدید بخار اور جسم میں درد کے باوجود میں نے اسی روز کوویڈ 19 ٹیسٹ کے لئے گورنمنٹ سٹی ہسپتال گلگت کا رُخ کرلیا۔ نتیجہ مثبت تھا۔ یعنی مجھ میں کوورونا وائرس کی موجودگی ثابت ہوئی۔
پانچ روز انجیکشن لگوانے کے بعد میں تندرستی محسوس کر رہا تھا، تاہم ہلکی کھانسی اور سانس لینے میں دشواری کا سامنا بھی تھا۔ ڈاکٹر صاحب سے دوبراہ مشاورت کی۔ انہوں نے پانچ دنوں تک دوائیاں استعمال کرنے کی ہدایت کی۔
دس دنوں، یعنی دوائیوں کی دونوں کورسز مکمل کرنے کے بعد، میں نے دوبارہ ڈاکٹر صاحب سے رابطہ اس وقت کیا جب سانس لینے میں شدید دشواری تھی۔ ایکسرے کا نتیجہ بھی حوصلہ افزا نہیں تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے ہسپتال میں داخل ہونےکا مشورہ دیا۔
میں جلدہی آغا خان جی ایم سی گلگت پہنچ گیا۔ دوبارہ علاج شروع ہوگیا۔ شروع کے تین روز مجھے مصنوعی تنفس (سپلیمنٹل آکسیجن) پر رکھا گیا۔ دواوں کے استعمال کے بعد سانس کی بحالی کا امکان ہوا تو آکسیجن ہٹا دیا گیا۔
اس تمام پراسیس میں آغا خان میڈیکل سنٹر گلگت کی ٹیم انتہائی پروفیشنل انداز میں قابلیت اور انسانیت سے بھرپور خدمات دے رہی تھی۔ میرے پاس الفاظ نہیں ہیں کہ میں انہیں کس طرح خراج تحسین پیش کروں۔ آغا خان میڈیکل سنٹر گلگت جی بی کا سب سے بہترین میڈیکل سنٹر ہے۔اپنے علاج کے لئے جی ایم سی کا انتخاب ضرور کریں۔
کچھ تلخ حقائق جن کا مجھے سامنا رہا، آپ کے گوش گزار کرتا ہوں۔ کررونا وائرس سے متاثر مریض کو صرف اور صرف پیار اور شفقت کی ضرورت ہے۔ انہیں اکیلا مت چھوڑیں۔ ان سے دور مت بھاگیں۔ کم از کم کال کر کے ان کی حوصلہ افزائی کیجئے۔
کررونا لگ ضرور گیا اور نکل بھی گیا لیکن ایک بہت بڑا سبق دے کر گیا۔ جب برا وقت آتا ہے تو اپنا سایہ بھی ساتھ چھوڑ دیتا ہے۔ اس لئے انسان کو صرف خوش رہنا چاہئے۔ کورونا وائرس سے متاثرہ شخص کو نفسیاتی اور جذباتی مدد کی ضرورت رہتی ہے۔ یہ مرض نفسیاتی طور پر بھی انسان کو متاثر کرتا ہے۔ اسلیئے مثبت اور تعمیری گفتگو اور سرگرمیوں کی شدد ضرورت رہتی ہے۔
ابھی خوراک کے حوالے سے باتیں کرتے ہیں۔ اس بیماری پر قابو پانے کے لیے مریض کو صحت مند اور متوازن غذا کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ زیادہ تر پھل ، سبزی، دالیں نیز وہ تمام اشیاء خوردونوش جو جسم کو انرجی دے کھلانا چاہیے۔ خوراک بلکل بھی کم نہیں کرنا، پانی بھی زیادہ سے زیادہ استعمال کرنا چاہیے اور ساتھ ورزش بھی انتہائی ضروری ہے ۔۔
انتہائی ضروری ہے کہ اپنی مصروفیات کے بارے میں آپ لوگوں کو آگاہ کیا جائے۔ قرنطینہ کے ان 17 دنوں کے دوران سب سے زیادہ مجھے کتب خوانی سے مدد ملی۔ میں دو کتابیں پڑھی اور تیسری کے مطالعے میں مصروف ہوں۔ مطلب یہ کہ ان بیماری کے دنوں میں منفی فکر اور اندیشوں کو خود سے جتنا ہوسکے دور رکھنا چاہیے۔ صبح سویرے ہلکی پھلکی ورزش بھی انتہائی مفید ہوسکتی ہے۔
آخر میں ان تمام لوگوں کو شکریہ ادا کرتا ہوں۔ جنہوں نے ایک بھی لفظ لکھ کر مجھے سپورٹ کیا اور میرے لئے دعائیں کیں۔ اللہ پاک آپ تمام کو اجر عظیم دے۔
آخر میں اس پیغام کے ساتھ اجازت چاہتا ہوں کہ ایس او پیز پر عمل درآمد کریں اپنے اور اپنے پیاروں کو اس وائرس سے محفوظ رکھیں۔ جب تک کہ کوئی ویکسین ایجاد ہو۔
الحمدللہ، 6 اکتوبر 2020 کو میں ہسپتال سے ڈسچارج ہو کر گھر میں منتقل ہو گیا تھا۔
آخر میں یہ کہ انسان کو اپنی زندگی کو بھر پور گزارنا چائیے کچھ پتہ نہیں کب سانس رک جائے۔ اپنے خوشیوں پر کبھی سمجھوتا نہیں کرنا چاہیے۔ اور خوشی کے فلسفے کو ڈھونڈا جائے۔