کالمز

انتخابات، امیدواران اور حقیقت

تحریر: سمیع اللہ ہنزائی
گلگت بلتستان میں چند دنوں میں انتخابات کی سرگرمیاں زور و شور سے اپنے عروج پر ہوں گی۔ ہر امیدوار اس تگ و دو میں ہوگا کہ وہ اپنے اپنے دلائل اور مستقبل کا لائحہ عمل عوام کے سامنے واضح کرکے عوام سے ووٹ لے کر انتخابات جیت جائے۔ کوئی لوگوں کو راغب کرنے کے لیے جلسے کی شکل میں چپورسن جارہا ہوگا تو کوئی نعرے لگاتے ہوئے ریلی کی نمائندگی کرتے ہوئے شمشال جارہا ہو گا پھر کوئی علاء دین کا خیالی چراغ دکھاتے ہوئے ناصر آباد، خانہ آباد اور حسین آباد جارہا ہوگا حتی کہ یہ ووٹ لینے کی خاطر عوام کے لئے وہ سب کچھ کرنے کو تیار نظر آئیں گے جو کہ ان کے بس میں بھی نہ ہو۔ یہ اگر انتخابات جیت جاتے ہیں اور اسمبلی میں وزارت کی سیٹ پر فائض نظر آتے ہیں تو اس وقت یہ کسی کو پہچانتے ہی نہیں۔ پھر اپنی مدت پوری کرنے کے بعد جب انتخابات کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوتا ہے تو یہی وزراء ہر گلی کوچے میں در در ٹھوکریں کھاتے ہوئے ووٹ کی بھیک مانگتے نظر آتے ہیں۔ یہ سیاست بھی خدا نے کیا چیز بنائی ہے کبھی وزیر تو کبھی بھکاری۔ بہرصورت یہ قدرت کا نظام ہے لیکن ہمارے پورے وطن عزیز ارض پاکستان میں شروع سے آج تک کوئی رہنما یا وزیر اپنے ملک کے ساتھ ہمدرد نظر نہیں آیا، سب اپنے اپنے انداز سے اپنی تجوریاں بھرنے میں مصروف عمل نظر آتے ہیں۔ اگر کوئی ان کو چوری کرتے ہوئے دیکھ بھی لے تو اس کو بھی یہی عمل لالچ دے کر سکھاتے ہیں کہ "خود بھی کھالو اور مجھے بھی کھانے دو”
14 اگست 1947ء سے لے کر اب تک تاریخ میں صرف دو ہستیاں منظر عام پر آئیں جنھوں نے ملکی سالمیت، بقا، استحکام اور امن و سلامتی قائم رکھنے کے لیے سعی بلیغ کیا۔ اولا بانئ پاکستان اور دوسرا سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف جنھوں نے ضرب عضب مشن متعارف کرکے ملک میں دہشت گردی کی دائمی ناسور کو ختم کردیا اور یہ مشن کسی نہ کسی شکل میں اب بھی جاری ہے۔ ان دونوں شخصیات کا نام تاریخ میں رقم ہوچکا ہے۔
خیر ہورہی تھی بات انتخابات اور بازاری سیاست کی۔ تو جناب والا! اب انتخابات قریب ہیں۔ کوئی امیدوار یہ دعوٰی کرے گا اوائل سے ان کے ماں باپ وزراء رہے تو وہ سیاست کرنا اچھی طرح جانتا ہے تو کوئی یہ دعوٰی کرے گا کہ خود پہلے بھی وزیر رہا ہے، کوئی یہ کہ اس نے اپنی عمر کا ایک بڑا حصہ سیاست کے لئے قربان کیا ہے تو کوئی قوم پرست ہونے کا دعویدار، تو ان میں سے کچھ نئی نئی شکلیں نظر آئیں گی لیکن ہر کوئی خود کو منجھا ہوا ثابت کرنے کی ہر ممکن کوشش کرے گا۔ شروع سے اب تک ہنزہ اندھیرے میں ڈوبا رہا، اتنے وزراء یہاں سے منتخب ہونے کے باوجود کسی نے بھی اپنے علاقے کو روشن کرنے کا ہی نہیں سوچا لیکن جب انتخابات ہونے لگتے ہیں تو ہر ووٹ کا بھکاری عوام کو چکمہ دینے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ یہاں ہر طرف روشنی پھیلائے گا۔ وہ آدمی جو اپنے گھر میں چمنی نہیں جلا سکا وہ پورے علاقے کو کیا خاک روشن کرے گا۔ ارے محبت کے جھوٹے دعویدارو! کیوں اپنے ہی علاقے کے بھائیوں کو دھوکہ دیتے ہو؟ یہ صاف صاف بولنے سے کیوں کتراتے ہو کہ تھوڑا پیسہ اکٹھا کرنا اور نام کمانا مقصود ہے؟ ہنزہ کو "زمین پر جنت” کہنے والو! کبھی کسی نے سوچا بھی ہے کہ یہ کیسی جنت ہے جو اندھیرے میں ڈوبی ہوئی ہے۔ آج کل کے اس جدید ٹیکنالوجی کے دور میں دنیا سے جڑے رہنے کے لئے انٹرنیٹ جیسی بنیادی سہولت میسر نہیں، سیاحوں کے لئے یہ تو اور پریشانی کا باعث بن چکا ہے، افسوس یہ ہے کہ خود قوم سوئی ہوئی ہے اور یہ لوگ خود ترقی کرنا نہیں چاہتے، دنیا کے کسی بھی کونے میں عوام کے لئے مشکل وقت میں حکومت وقت اگر عوام کو نظرانداز کرے تو وہ لوگ سڑکوں پر نکل کر اپنی بات منوا لیتے ہیں لیکن چند سال پہلے سانحہ علی آباد میں شہید باپ بیٹا جو حادثے کا شکار ہوگئے تو لوگوں کے دلوں میں خوف اتنا گھر کرگیا کہ انہوں نے سڑکوں پر نکلنا ہی بند کردیا۔ اب یوں لگتا ہے کہ ان کے تمام مطالبات منظور ہوگئے اور اب ان کا کوئی مطالبہ باقی نہیں، تمام سہولیات ان کے لیے میسر ہیں۔ ارے ہنزہ کے باشعور اور ہوشمند بھائیو! آج تک جن قوموں نے بھی ترقی کی ہے وہاں کے لوگوں نے قربانیاں دی ہیں اس لئے وہ عیش و عشرت میں نظر آتے ہیں، اسی طرح ہنزہ کے لئے بھی جو قربانی دینی تھی وہ شہید باپ اور بیٹے نے دے دی (اللہ ان کی مغفرت فرمائے)۔ اب مزید ڈرنے کی ضرورت نہیں اور کسی وزیر یا سیاسی رہنما کے آسرے  بیٹھنے کی بھی ضرورت نہیں اب محض اپنے حق کے لئے آواز بلند کرنے کی ضرورت ہے اور بس-
 پچھلے چند مہینوں میں کسی بھی طریقے سے ہنزہ کو روشن کیا جاتا تھا تو عوام کو ایسا لگا کہ بس بجلی کی کمی اب پوری ہوگئی۔ لیکن افسوس کہ ہنزہ کے عوام کا کوئی بھی فیصلہ دیرپا نہیں ہوتا۔ وہ جو بجلی کا نظام تھا وہ وقتی تھا جسے میرے خیال میں  جگاڈ کہیں تو غلط نہیں ہوگا۔ یہ کوئی مستقل حل نہیں تھا، اب مستقل طور پر ہماری ضرورت پوری کرنے کوئی ہمارے پیچھے کوئی نہیں آئے گا جس طرح پیاسے کو کنویں کے پاس جانا پڑتا ہے ایسا ممکن نہیں کہ کنویں خود چل کر پیاسے کے پاس آئے۔ آج کل صرف پاکستان نہیں بلکہ پوری دنیا میں ہنزہ کے چرچے ہیں، تعلیم اور سیاحت کے شعبے میں تو ہنزہ نے کب کا میدان مارا ہے، لیکن باہر سے آنے والا ہر سیاح پریشان ہوجاتا ہے اس لیے کہ موبائل چارج کرنے کے لیے بھی بجلی میسر نہیں، انٹرنیٹ تو اور دور کی بات ہے، پس اب اگر ہم تمام آپس میں متحد ہو جائیں اور پرزور مطالبہ کریں تو کسی کا باپ بھی ہنزہ کو نظرانداز نہیں کر سکتا۔
اب انتخابات ہونے میں چند دن باقی ہیں، لہٰذا ہم سبھی کو خداوند عالم نے جو عقل کی نعمت سے نوازا ہے اس کا صحیح استعمال کرتے ہوئے ووٹ اس امیدوار کودینا ہوگا جو ہم سب کا بھلا سوچتا ہو چاہے وہ کسی بھی پارٹی سے تعلق رکھتا ہو، ہمیں پارٹی سے کوئی سروکار نہیں ہونا چاہیئے، اس لئے میری تمام ہنزہ والوں سے فردا فردا  عاجزانہ التماس ہے کہ ووٹ کا صحیح استعمال کریں۔ ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر پورے علاقے کے خیرخواہ کو ووٹ دے کر کامیاب کریں تاکہ پورے علاقے کے مطالبات منظور ہوسکیں اور آپ کا "زمین پر جنت” ترقی کی منزلیں طے کرتا رہے۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button