کالمز

7 دسبر 2016 کی خون آشام شام ، سب کچھ لٹ گیا

تحریر: شمس الحق قمر ؔ  بونی

یہ 7 دسمبر ، 2016 بروز بدھ کے تقریباً  5 بجکر 10 منٹ ہوئے تھے کہ میرے موبائل پر پولیس لائن اسکردو سے میرے ایک  دوست پولیس افسر کا فون آیا  اور پھر بند ہوا ۔ دوبارہ گھٹنی بجی، میں نے فون اٹھایا تو سلام و خیر عافیت پوچھنے کے بعد فون دوبارہ بند ہوا  ۔ اب تیسری مرتبہ فون بجا فوں پر ایس ایس پی اسحاق تھے  ۔۔ آن کے لہجے میں ایک غیر متوقع سنجیدگی تھی ۔ میری خیرو عافیت پوچھنے کے بعد بولے کہ آج کل کہاں ہیں ؟ میں نے بولا ” گلگت میں ہوں ” بولے ” چترال سے آپ کا کوئی رشتہ دار بذریعہ جہاز اسلام آباد تو نہیں جا رہا تھا ؟ میرا جواب جب نفی میں ہوا تو  انہوں نے کہا کہ ایک غیر مصدقہ خبر کے مطابق چترال سے اسلام آباد جانے والی پاکستان انٹر نشنل ائیر لائینز کی پروازPK 661 کو حادثہ پیش آیا ہے لیکن یہ معلوم نہیں جانی نقصان کتنا ہوا ہے ۔  ہماری بات چیت ختم ہوئی  تو میں نے فوراً ننھیال  مور دویر فون کیا کیوں کہ میرے مامو زاد بھائی عندنا  اپنی چھٹیاں گزرنے کے بعد اسی ہفتے دوبارہ  افغانستان جانے والے تھے ۔  میں نے جب فون کیا تو  سلمان ( مغفور ) سے چھوٹے بھائی نغمان نے فون اٹھا یا  میں نے فوری طور پر عدنان بھائی کے سفر کے بارے میں اتفسارکیا تو انہوں نے کہا کہ وہ گھر پر موجود ہے ۔ میں نے کہا اللہ کا شکر وہ اُس جہاز میں نہیں تھے لیکن نعمان نے کہا لالہ  عندنان تو گھر پر موجود ہے لیکن سلمان ہم سے جدا ہوئے۔ اس کے بعد ہمارا ربطہ فوں  پر منقطع ہوا پھر نہیں معلوم میرے ارد گرد کیا وقوع پذیر ہوتے رہے مجھے مطلقاً علم نہیں رہا ۔

            سلمان میری والدہ کے بڑے بھائی زین العابدین ( مروحوم ) کے بڑے صاحزادہ عدنان سے چھوٹا بھائی تھے ۔ حادثے سے پہلے  ایک عجیب واقعہ پیش آیا تھا ۔  مجھے اسی ہفتے میری شریک حیات نے ایک خوب  سنا کے کہا تھا ”  خواب میں ہم سب اہل و عیال موردی میں عین اُس جگہ موجود تھے جہاں ہماری اجداد کی آخری آرام گاہیں ہیں ۔  کیا دیکھتی ہوں کہ ہمارا ماموں  زین العابدین  ( مرحوم )   سلمان کو ایک  بڑی خوبصورت  اور سجی ہوئی گاڑی میں بٹھائے  خود گاڑی چلاتے ہوئے آ رہے ہیں اور ہم ہکا بکا دیکھ رہے ہوتے ہیں کہ  بجائے سلمان  کے اس عمر میں ماموں گاڑی کیوں چلا رہے ہیں؟ ۔ لیکن یہ معلوم نہیں ہوتا تھا  کہ یہ کہاں سے اس شان و شوکت کے ساتھ آرہے تھے اور ہم کیوں استقبال کر رتے ہیں؟ ” میری شریک حیات نے 7 دسمبر کے دل دہلانے والے  واقعے سے ٹھیک پانچ دن پہلے مجھے خواب کا یہ واقعہ سنایا تھا ۔ آج جب یہ واقعہ ہوا تو میں اپنی شریک حیات کو  بتانے سے قاصر تھا کیوں کہ سلمان ہم دونوں کا ماموں زاد بھائی تھے ۔  میرے منہ سے صرف اتنا الفاظ نکلے کہ جو خواب آپ نے دیکھا تھا وہ سچ نکلا  ۔ حقیقت میں  ہمارے ماموں ہمارے بھائی سلمان کو لیکر آخری آرام گاہ کی طرف آ رہا تھا ۔  رشتے ایک دوسرے سے کتنے پیوست ہوتے ہیں کہ ایک دوسرے کے فانی دنیا کو چھوڑ کی خبر بھی دیتے ہیں ۔ ہم ہمیشہ سوچتے ہیں کہ  ماں پاب ، بہن بھایئ  شریک حیات اور اولاد کی جدائی کتنی غم انگیز ہوگی لیکن انسان کر بھی کیا سکتا ہے ۔  بس اتنا کہ بیتے لمجات یاد آتے ہیں اور  کلیجہ منہ کو آتا ہے ۔

ہم جب بہت چھوٹے ہوتے  تھے تو ننھیال میں کھیل کود کا ہمارا اپنا ایک حلقہ ہوا کرتا ۔ ہم دن کو کھیلتے اور رات کو ہماری ایک اور خالہ زاد بہن ذیبون ( مرحومہ ) ہمیں قصے کہانیاں سنایا کرتی تھیں اور ہم خوابوں کی وادی میں چلے جاتے ۔  سلمان بچپن سے محبت کا ایک پیکر تھے ۔ ہم بچپن میں شرارتیں کرتے یہاں تک کہ اُنہیں مارتے بھی تھے لیکن اُن کا سب سے بڑا اور سخت سے سخت ترین غصہ اور بہترین ہتھیا ر اُس کی بے انتہا معنی خیز مسکراہٹ ہوا کرتی تھی ۔  کالج میں ہمارے جونئیر رہے لیکن تمام سینئیر  ، ہم جماعت  اور جوئیرز میں سلمان کا نام اُن کی ملائیمت  کی وجہ سے زبان زد خاص و عام تھا ۔ یہی حال اُن کی عملی زندگی میں بھی رہی جہاں بھی گیے اپنے ساتھ کام کرنے والوں پر راج کرتے رہے ۔  سلمان آج جسمانی طور پر ہمارے درمیان نہیں  ہیں لیکن اپنے خاندان اور تمام دوستوں کے دلوں میں آج میں راج کرتے ہیں ۔ آپ یقین جانیئے میں اُن کے بہت سارے قریبی دوستوں کو جانتا ہوں کہ جن کے سامنے سلمان کا نام زبان پر لاتے ہی اُن کے آنسو اُن کی آنکھوں سے بے قابو ہو جاتے ہیں ۔ ایک مرتبہ باتوں باتوں میں اُن کے ایک  دوست ذیت کے شیر حسین صاحب سے سلمان کا تذکرہ ہوا تو اُن کی آنکھوں سے آنسوؤں کا گویا ایک  سمندر امننڈ پڑا ۔ میں سلمان کے دوستوں سے مل کر اور اُن سے سلمان کے بارے میں سن کراُن کی عظمت پر  فخر محسوس کرتا ہوں۔  لیکن  میرا دل یہ سوج کر ہمیشہ مرجھا جاتا ہے کہ موت کو آخر کیوں اتنی جلدی تھی کہ ایک عظیم بھائی کو ہم سے چھینا۔

سلمان! آپ کی جدائی کے چار سال مکمل ہو رہے ہیں ۔ میں ایک شعر آپ کی نذر کر رہا ہوں اگر برا نہ مانو

میں سخت جان تھا اس کرب سے بھی بچ نکلا                 میں جی رہا ہوں تجھے ہاتھ سے گنوا کر بھی

آللہ آُ پ کو اُس دنیا میں بھی مسکراتا رکھے ۔ آمیں

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button