کالمز
لفظ ‘غذر’ کے مبتدا پر بحث
شاہ عالم علیمی
غذر گلگت بلتستان کے بہت اہم علاقوں میں سے ایک ہے۔ مشرق میں گلگت مغرب میں چترال جنوب مغرب میں واخان جنوب مشرق میں ہنزہ نگر شمال میں دیامر کے علاقوں داریل و تانگیر اور شمال مشرق میں سوات کے ساتھ غذر کی سرحدیں ملتی ہیں۔ اج ہم یہ دیکھیں گے کہ لفظ ‘غذر’ کس لفظ سے مشتق ہے۔
سب سے پہلے یہ بات معلوم ہونا چاہیے کہ غذر کی تاریخ پر بہت کم کتابیں لکھی گئی ہیں اور ان میں سے اکثر کا معیار کچھ خاص نہیں ہے۔ ظاہر ہے ان کتابوں کو لکھنے کے لیے جہاں جہاں غذر کا زکر ایا ہے وہاں سے اکتفا کیا گیا ہے۔ جن میں کچھ غیر ملکیوں کی تحاریر لوک کہانیاں سنی سنائی باتیں اور راجوں اور سیاستدانوں اور فوجی مہم جووں کی مسخ شدہ کہانیاں شامل ہیں۔ اور اس علاقے کی تاریخ پر دستیاب مواد بھی یہی کتابیں ہیں۔ مگر جہاں اپ کو ایک اہم لفظ کے مبتدا origin کو دیکھنا ہو وہاں اپ سنی سنائی باتوں یا قیاس اور خیال پر اعتبار نہیں کرتے بلکہ اس سلسلے میں بہت سارے پہلوؤں کو دیکھنا پڑتا ہے۔
اگرچہ غذر کی تاریخ کوئی لمبی چوڑی نہیں ہے ہزاروں سال سے لوگ سخت اور تنگ پہاڑی سلسلوں کے بیج فطرت اور ظالم و جابر مہم جوؤں کے رحم کرم پر سخت قسم کی مشکل زندگی گزارتے رہے ہیں اس عرصےمیں کوئی قابل زکر انقلاب یا علمی میدان میں کوئی کام نہیں ہوا سوائے مذہبی داعیوں کی تعلیمات کے۔ تاہم یہاں ہمارا مقصد غذر کی تاریخ بیان کرنا نہیں ہے فقط لفظ غذر کے مبتدا کو ڈھونڈنا ہے۔ جیسا کہ اشفاق علی خان نے ڈاکٹر غلام جیلانی برق کی کتاب ‘یورپ پر اسلام کے احسانات’ کے دیباچے میں لکھا تھا کہ "۔۔۔۔۔جو قوم اپنی کہانی غیروں کی زبانی سنتی ہے اس کا یہی حشر ہوتا ہے۔ وہ غیر کا مقابلہ تو رہا ایک طرف اس کےسامنے تک انے کی جرات نہیں کرسکتی۔ وہ ایسی قوم سے اپنے حقوق کیا لے گی جس سے وہ اپنا وجود تک تسلیم نہیں کرسکتی۔” ایسا ہی معاملہ غذر کو درپیش ہے۔ اپنے ہاں کسی نے اس موضوع پر سنجیدگی سے غور نہیں کیا اور غیروں نے قیاس اور سنی سنائی باتوں پر تاریخ کو مسخ کرتے رہے۔
لفظ غذر کے ساتھ پہلے ہی ظلم ہوا ہے۔ کچھ تاریخ دانوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہیں کہ لفظ غذر ‘گرزے’ سے نکلا ہے۔ پھر اس سے یہ مطلب اخذ کیا ہے کہ اس لفظ کا مطلب مہاجرین، مہاجر، مہاجروں کی جگہ یا ان لوگوں کی جگہ ہے جنھیں کسی اور جگہ یا ملک سے ملک بدر کیا گیا ہو۔ حالانکہ یہ توجہیہ سراسر غلط اور مبنی بر گمان کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ اس قیاس کو اسانی کے ساتھ ان تاریخ دانوں کے اپنے ہی الفاظ کے زریعے سے ہی غلط ثابت کیا جاسکتا ہے۔ لیکن اس سے پہلے زرا یہ بتائیں کہ کسی ایسے علاقے کی تاریخ جسے باقاعدہ قلم بند نہ کیا گیا ہو کو محض قیاس آرائی کے زریعے سے ثابت کیا جاتا ہے یا خود اس علاقے کے لوک داستانوں، ارکائیالوجی، زبان/لسانیات، تہذیب و تمدن اور انسانوں کی نقل حرکت کو دیکھ کر؟ اج تک غذر کی تاریخ پر جو چند کتابیں ایک دوسرے سے نقل ہوکر لکھی گئی ہیں وہ اوّل الزکر یعنی محض قیاس اور گمان پر مبنی ہیں۔
مثال کے طور پر اپ اس غلط طور پر مشہور ہوتی ہوئی بات کو ہی لے لیجئے کہ لفظ غذر ‘گرزے’ سے نکلا ہے۔ غذر خاص کے لوگ جس تلفظ میں گفتگو کرتے ہیں اس میں ‘غ، خ، ق، وغیرہ عربی کی طرح بالکل واضح ادا ہوتے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف یہ بالکل واضح ہیں کہ غذر کی اولین تاریخ لکھنے/بیان کرنے والا یا تو خود ہندی یا شینا زبان بولنے والا تھا یا اس نے کسی ان زبانوں کے بولنے والے کا اس حوالے سے معلومات لینے کی کوشش کی ہے۔ ہم یہاں مقامی زبان شینا ہی کو لیتے ہیں، شینا بولنے والے اردو حروف تہجی ‘خ، غ، ق’ وغیرہ کو ادا نہیں کرسکتے ان حروف کی جگہ وہ ‘ ک، اور ‘گ’ کو زیر استعمال لاتے ہیں۔ لہذا تاریخ دان نے غلط گمان کرکے سوچا ہے کہ لفظ غذر (شینا تلفظ میں گیزر یا گِزر) "گرزے” سے ہی نکلا ہوگا، اور یوں نہ صرف تاریخی غلطی کی ہے بلکہ اس کے بعد انے والے تاریکدانوں نے اس کی نقل کرکے ساری تاریخ کا ہی ستیاناس کردیا ہے۔ دوسری اہم بات لفظ گرزے کا کھوار ترجمہ من و عن مہاجرت/جلاوطنی/ ملک بدری ہرگز نہیں ہے جیسے کہ تاریخ دان کا خیال ہے۔ جلاوطن کھوار میں جلاوطن (ژلاباتھن) من الاصل مستعمل ہے۔ اور یہ لفظ بوجہ اس زبان/ بولی میں بکثرت استعمال بھی ہوتا ہے۔
کھوار زبان کے اس لفظ کا ترجمہ مہاجر وغیرہ نہیں بلکہ اردو میں ‘دفع ہو، دفع ہوجاؤ، یا گم ہو’ وغیرہ ہوتا ہے۔ اور سب سے اہم بات یہ کہ ‘گرزے’ ‘فعل’ ہے۔ جبکہ مہاجر ‘صفت’ ہے۔ اور مہاجرت ‘اسم’ ہے۔ گویا اس لفظ کا اس ترجمے سے کوئی تعلق نہیں بنتا۔
دوسری طرف غذر خاص میں غذر کی کھوار کے تلفظ میں غذر کو غِزُر یا غزور بولا جاتا ہے اور یہ بھی زہن میں رکھیں کہ خضر کو خِضُر بولا جاتا ہے لیکن کثرتاً اسے بگاڑ کر غزور/غِزُر بولا جاتا ہے مثلاً اگر کسی کا نام خضر علی ہے تو اسے بگاڑ کر اکثر غِزُر/غزور علی بولا جاتا ہے۔ حال ہی میں غذر کی تاریخ پر رحمت جان نے کافی بہتر کتاب لکھی ہے مگر ان کا خیال ہے کہ لفظ غذر ‘گزر’ سے نکلا ہے جس کے معنی ان کے نزدیک راستہ کے ہیں۔ یہ ہمارے نزدیک پھر وہی بات ہوگئی اور صیح نہیں ہے۔ اس پر بحث کی ضرورت بھی نہیں ہے۔
اسی بات کو زہن میں رکھ کر اب ہم آتے ہیں واپس غذر خاص جہاں سے یہ لفظ یعنی غذر نکلا ہے۔ اگر ہم پھیلانے کے بجائے محدود الفاظ میں سمیٹتے ہوئے بات کریں تو غذر خاص کے لوک داستانوں اور کہانیوں میں گرزے اور اس سے منسلک کسی واقعے/کہانی یا حادثے کا کوئی زکر نہیں ملتا۔ عشروں اور صدیوں پرانی باتیں اور روایات ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہوتی رہی ہیں تاہم ایسی کوئی کہانی نہیں ملتی کہ غذر خاص میں کوئی قبیلہ یا قوم کسی ایسے علاقے یا ملک سے ائی ہو جسے وہاں سے علاقہ بدر یا ملک بدر یا اس تاریخ دان کی قیاس آرائی کے مطابق ہجرت کردینے پر مجبور کیا گیا ہو۔ اس علاقے میں جتنے بھی خاندان/قبائل اباد ہیں ان کے ہاں مہاجر ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ اور غذر ہمیشہ سے خوشحال اور خوبصورت پرامن علاقہ رہا ہے کوئی کسی کو سزا دینے ایسے علاقے میں کیوں بھیجے جہاں وہ سکون سے رہے۔
اب آئیں زرا غذر خاص سے منسلک سب سے اہم لوک داستان کی طرف؛ یعنی حضرت خضر یا مقامی لوک کہانیوں میں خواجہ خضر کے اس علاقے میں انے اور اس کے اج تک زندہ رہنے والے اثر رسوخ کی طرف۔ اپ قصص الانبیاء سمیت متعد کتب میں حضرت خضر کی کہانی پڑھ چکے ہیں۔ حضرت خضر ؑ کی کہانی کچھ منفرد ہی ہے۔ بہت سارے لوگ ان کو پیغمبر مانتے ہیں کچھ ان کو والی اللہ مانتے ہیں جبکہ محترم جاوید احمد خامدی کے مطابق کچھ لوگ ان کو فرشتوں میں بھی شمار کرتے ہیں۔
ان کے حوالے سے اس علاقے کی کہانی، جسے میں نے اپنے ایک پرانے مضمون میں بیان بھی کیا ہے، سے لگتا ہے کہ حضرت خضر کا اس علاقے سے کسی نہ کسی طرح تعلق رہا ہے۔ مقامی لوک کہانی کے مطابق حضرت خضر اپنے ایک سفر کے دوران ان علاقوں سے ہوکر گزرے۔ لوک داستان کے مطابق اس سفر کے دوران حضرت خضر کے پاس ایک گدھا بھی تھا، جسے انھوں نے راستے میں ایک اور وادی میں ازاد چھوڑ دیا اور شیطان ان کے پیچھے پیچھے چل رہا تھا۔ ایک جگہ/وادی میں آکر شیطان دھوکہ کھا کر دائیں طرف کی وادی میں داخل ہوگیا۔ جبکہ خضر خود اگے چلتے گئے یہاں تک کہ غذر خاص پہنچ گئے۔ اس زمانے میں غذر چاروں طرف سے ایک سٹیڈیم کی مانند بیج میں واسیع میدان ہرے بھرے کھیت کھلیان اور پہاڑوں میں جنگل تھا۔ حضرت خضر ؑ نے اس خوبصورت علاقے میں قیام کیا۔ ان کے پاس گندم کا ایک دانہ بھی تھا جسے انھوں نے (لوک کہانی کے مطابق) کلوم غذر (اصل علاقہ جو کئی سو سال بعد میں سیلاب کی زد میں آکر بنجر ہوگیا؛ اس سیلاب کا اپنا ایک دلچسپ داستان بھی موجود ہے جس طرح دنیا کی ہر قوم کی تاریخ میں ایک سیلاب عظیم Great Flood کی کہانی ملتی ہے بالکل اسی طرح) میں کاشت کیا۔ یا یہاں کے مقامی باسیوں کو تحفتاً دے دیا جسے لوگوں نے کاشت کیا اور اس سے اس علاقے میں اج بھی گندم کی یہ خاص نسل موجود ہے۔ اس علاقے میں یہ روایت رہی ہے کہ فصلیں کاشت کرنے کے بعد جب ان کو جمع کرنے کا وقت ہوتا ہے تو حضرت خضر یا مقامی روایات میں خواجہ خِضُر کے نام کی ایک خصوصی دعا مانگی جاتی ہے۔(گرچہ نئی نسل میں مفقود ہوتی جارہی ہے)۔
حضرت خضر سے منسوب دو دریاؤں کے سنگم میں پانی میں کھڑے پائے جانے یا سرسبز گھاس کے میدان میں سبز رنگ کی لباس میں لیٹے ملنے کے اشارے بھی یہاں پائے جاتے ہیں کیونکہ دو دریاؤں کے مدغم ہونے کے مقامات اور گھاس کے میدان یہی پائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان پہاڑوں کے بیج بہتے دریاؤں میں صدیوں سے پائی جانی والی مچھلی کی موجودگی کی کہانی بھی انھی سے جا ملتی ہے۔ اس کے علاوہ یہاں کے بزرگوں کی زبانی ایک قول بکثرت سننے کو ملتی تھی کہ ‘غذر (خاص) حضرت خضر کی زمین ہے یہاں گندم کے پیداوار میں کمی نہیں ہوگی۔ کیا حضرت خضر سے متعلق اتنے سارے داستان/ کہانیاں دنیا کی کسی اور قوم میں موجود ہیں؟ یقیناً نہیں ہیں۔
تاریخی ریفرنس کے طور پر ہم یہاں حضرت خضر اور اس علاقے کے متعلق تاریخ کی ایک کتاب سے ایک پیرایہ نقل کرتے ہیں۔ امام شہاب الدین احمد بن حجر عسقلانی اپنی کتاب الزھر فی حال الخضر میں بیان کرتے ہیں کہ ‘کعب الاحبار سے روایت ہے کہ حضرت خضر ؑ حضرت زوالقرنین ؑ کے وزیر تھے۔ وہ حضرت زوالقرنین ؑ کے ہمراہ جبل الہند پر ٹہھرے۔ تو حضرت خضر ؑ نے وہاں ایک ورق دیکھا جس میں یہ لکھا تھا؛ بسم الله الرحمن الرحیم من ادم ابی البشر الی زرّیتہ آوصیکم بتقوی اللہ وآحذرکم کیدعدوی وعدوکم ابلیس فانہ آنزلنی ھنا۔’
یہ بات یاد رکھیں کہ غذر خاص جبل الہند یعنی ہندوکش کے پہاڑوں سے گھیرا ہوا ہے۔ ہمارا یہاں یہ ریفرنس دینے کا مقصد فقط اتنا ہے کہ غذر خاص اس کی زبانی تاریخ اور لوک کہانیوں کے ساتھ ساتھ تاریخ کی قدیم کتابوں سے بھی ‘غذر’ اور ‘خضر’ کے الفاظ کے رشتے کو اپس میں دلائل کے ساتھ جوڑا جائے۔
یہاں یہ سوال بھی فطری ہے کہ خضر سے پہلے غذر کا نام کیا تھا؟ میرا زاتی خیال ہے کہ خضر سے پہلے غذر کا نام کُلُوم تھا۔ چونکہ چترال اور غذر کی ثقافت زبان رہن سہن سب ایک جیسا ہے اور لفظ چترال ‘چٍھتُر'(کھیت) سے نکلا ہے۔ جیسا کہ پہلے مذکور ہوا اصل غذر کا پورا نام ‘کلوم غذر’ ہے۔ اور لفظ کلوم کھیت کے ساتھ ہی سابقہ یا لاحقہ کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ یہ بھی زہن میں رکھیں کہ چترال اور غذر میں دوسری چیزوں کے علاوہ درجنوں گاوں کے نام ایک جیسے ہیں۔ سو غالب امکان ہے کہ غذر کا نام کلوم ہوگا جیسا کہ چترال کا چھتر سے چھترار ہے۔ اور بعد میں یہ علاقہ کلوم غذر بن گیا۔