بلاگزکالمز

طاقتور کی گالی بھی "تعریف” ہے

ہنزہ کے میر (بادشاہ) کے دربار میں گاوں کا ایک وفد کسی کام سے جاتا ہے. میر اپنے تخت پر بیٹھے سب کو سن رہے ہوتے ہیں اور سائلین نیچے فرش پر کیوں کہ میر عرش (عیش) سے اترے ہوئے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں. دوران گفتگو ایک شخص اپنے آپ کو زیادہ وفادار ثابت کرنے کے لئے زیادہ بولنے لگتا ہے اور دوسروں کو بولنے کا موقع نہیں ملتا ہے. اس بات پر بادشاہ اس شخص کو ماں کی گالی دےکر ۔خاموش رہنے کو کہتا ہے.

گاوں واپس آکر لوگوں کو وفد کے لوگ اپنے بادشاہ سے ملاقات کے متعلق اپنے تاثرات اور تجربات پیش کرتے ہیں. ہر شخص یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ دربار میں بادشاہ نے سب سے زیادہ عزت اسے دی. اتنے میں اُس  شخص، جس کی دربار میں سخت بے عزتی ہوئی تھی، سے رہا نہیں جاتا. وہ کہتا ہے "تم سب ایسے ہی بکواس کر رہے ہو کیونکہ بادشاہ نے تمہیں ذاتی طور کچھ نہیں کہا. مجھے دیکھو. بادشاہ نے مجھے ماں کی گالی سے نوازا.”

کہنے کا مطلب ہے طاقتور کی گالی بھی تعریف ہے، اور اس کی رال بھی شہد. یہ تھی ہماری حالت بادشاہت میں.

اب نیا زمانہ آیاہے۔ ہمیں پچھلے سات دہائیوں سے جس نظام میں رکھا گیا ہے، ہمیں سیاسی دوزخ میں رکھا ہے, ہم اس نظام کے آلا کاروں کے دربار میں حاضری دیتے ہیں اور چند تصاویر نکال کر واپس آنے کے بعد اپنے لوگوں کو بھرم دکھاتے ہیں کہ دیکھا فلاں شخص میرے ساتھ کھڑا تھا.

حالانکہ اس شخص نے آپ کی زمینوں پہ قبضہ کیا ہوا ہوتا ہے۔ اپنے نظام میں آپ لوگوں کو ریوڑ سمجھتا ہے اور اس کا کام ہی ان کو بھیڑ بکریوں کی طرح ہانکنا ہے. وہ تو آپ کا.چرواہا ہے۔  مگر آپ اپنے آپ کو مالک سمجھ رہے ہیں.

آپ کے درمیان اس استحصالی نظام کے نمائندے کے ہونا کا مطلب ہےکہ بھیڑ بکریوں کو وقتا فوقتایاد دہانی کرائی جائے کہ وہ صراط المستقیم پر ہیں کہ کج المستقیم پر! اگر کج راستے پر چل پڑے تو یہی چرواہے کا کتا بھیڑیا بن کر آپ کو تر نوالہ بنا لیتا ہے. ایسے ہی بھیڑ کے لباس میں بھیڑیےکے قریب ہوکے ہمارے میمنے اس مغالطے میں مبتلا ہوتے ہیں کہ وہ بھی بھیڑیے ہیں. حقیقت میں ان کے پاس بھیڑیوں والی کوئی بات نہیں ہوتی ہے, اس لئے اپنے زعم کو سلامت رکھنے کے لئے اپنے آپ کو اپنے ریوڑ سے الگ مخلوق سمجھتے ہیں.

شینا میں ایک محاورہ ہے کہ کمزور چڑیل اپنے گھر والوں کو کھا جاتی ہے (اتولی روئیئ سے تومئئ کھائی). اب یہ بھیڑ تو بھیڑ ئے کو کھانے سے رہا۔ اس لئے اس کا شکار اس کے اپنے ہی بنتے ہیں. ہماری موجودہ حالت دیکھ کر لگتا ہے کہ ہمارے گلگت بلتستان کے آباد اجداد بھی بڑے بے غیرت رہے ہونگے۔ ہیں۔

وہ سب لوگ جو یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اس نظام کے طاقتور اور کامیاب ترین لوگ ہیں، غلط فہمی میں مبتلا ہیں. ان کو یہ ادراک نہیں ہوتا کہ وہ اس معاشرہ کے ایسے افراد ہیں جن کو نظام نے نا کارہ بنا دیا ہے۔ جو جتنا ناکارہ ہوگا وہ اتنا ہی طاقت کا بھرم رکھے گا. یہ جو اپنے بچوں کو بڑے اور طاقتور آفیسر بنے کی تلقین کرتے ہیں دراصل اس نامرد معاشرے کی اپنی شرمندگی اور کمزوری چھپانے کی ایک کوشش کرتے ہیں۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button