کالمز

گلگت بلتستان اسمبلی میں حق ملکیت پر قانون سازی شجرممنوعہ کیوں؟

صفدر علی صفدر

گلگت بلتستان اسمبلی کے عام انتخابات 2020 کے نتیجے میں وجود میں آنے والی پاکستان تحریک انصاف کو خطے کا بھاگ ڈور  سنبھالے ڈھائی ماہ کا عرصہ گزر گیا۔ اس عرصے کے دوران گگت بلتستان میں بھی وفاقی حکومت کی طرح تبدیلی کا نعرہ لگاتے ہوئےصرف اعلانات، دعوے اور وعدوں پر ہی اکتفا کیا گیا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ گلگت بلتستان کی نومنتخب حکومت اقتدار کے ابتدائی ایام میں عوامی فلاح و بہبود اور بنیادی ضروریات زندگی سے متعلق اپنی ترجیحات کا تعین کرتی اور انہی ترجیحات کو عملی جامع پہنانے کے لئے مکمل منصوبہ بندی کرتی۔ بجائے اس کے تبدیلی کے دعویدار حکومت بھی سابقہ حکومتوں کے نقش قدم پر چل پڑی۔

یوں حسب روایت گلگت بلتستان کے گورنر، وزیراعلیٰ، اسپیکر اور صوبائی وزراء ومشیران نے نئے سال کے آغاز میں گلگت بلتستان کے سخت موسمی حالات سے بچنے کی خاطر طویل عرصے تک اسلام آباد میں ڈھیرے ڈال دیئے۔ اس دوران وزیراعلیٰ سمیت صوبائی وزراء بظاہر مختلف اداروں اور شخصیات کے ساتھ ملاقاتوں و میٹنگوں میں مصروف نظرآئے۔ مگر عملاً ان ملاقاتوں کے علاقے اور عوام کی زندگیوں میں کوئی تبدیلی نظر نہ آئی۔

کاش اگر نئی حکومت کے عہدیدار علاقے کی سابقہ سیاسی روایت کو توڑ کر سردیاں  اسلام آباد میں گزارنے کی بجائے گلگت بلتستان میں نہی قیام کو ترجیحی دیتے تو حکومتی قلمدان سنبھالنے کے ابتدائی دنوں میں ہی انہیں علاقے اور عوام کو درپیش مسائل کا بخوبی اندازہ ہوتا۔ سردیوں میں گلگت بلتستان کے عوام کے چند چیدہ چیدہ مسائل میں شدید سردی سے بچنے کے لئے اندھن کا اہتمام، بجلی کی طویل ترین لوڈ شیڈنگ، مہنگائی،گرانفروشی، موسمی بیماریاں،اسپتالوں کی حالت زار، سرکاری دفاتر میں سائلین کی خواری وغیرہ۔

ان طے شدہ مسائل میں رواں سال تو کنٹریکٹ ملازمین کی مستقلی کا مسئلہ، لائن ڈپارٹمنٹ ایمپلائز  اور ڈاکٹروں کے مطالبات، نشینل پارکس سے متعلق عوامی تحفظات  کا اضافہ ہوا جو کہ اب تک جوں کے توں ہیں۔ ایسی صورتحال میں گلگت بلتستان کی نئی نویلی حکومت کو فرسٹ ایمپریشن کے طور پر خطے میں ہی بیٹھ کر عوامی مسائل کا جائزہ لیکر مناسب حل تلاش کرنا چاہیے تھا۔ لیکن پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے اس سابقہ روایت میں بغیر کسی تبدیلی لائے اسلام آباد کا رخ کیا جوکہ بقول شاعر نہ خدا ملا نہ وصالِ صنم، نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے ہوکر رہ گئی۔

 اب موسم میں تھوڑی بہتری آنے کے ساتھ موسمی پرندوں کی واپسی پر جب گلگت بلتستان اسمبلی کا اجلاس بلایا گیا تو اس میں عوامی مسائل پر بحث ومباحثے کی بجائے حکومت اور اپوزیشن میں دنگامشتی شروع ہوگئی۔ حکومت اور اپوزیشن کی اس دنگا مشتی سے بھی نقصان صرف عوام کا ہی ہوگا۔ عوام اس نیت سے اپنے نمائندے منتخب نہیں کرتے ہیں کہ وہ اسمبلی میں جاکر آستینیں چڑھا کر ایک دوسرے کو غیرت دکھائے۔ بلکہ عوام اس امید سے بہتر سے بہتر نمائندے کا انتخاب کرتے ہیں کہ وہ اسمبلی میں جاکر عوامی مسائل اور علاقائی فلاح وبہبود کے امور پر قانون سازی کریں۔ دنگا مشتی کے اس معاملے میں قصور اپوزیشن سے زیادہ حکومت کا ہے۔

 اپوزیشن کا کام ہی یہی ہے کہ وہ اسمبلی میں عوامی مسائل کی نشاندہی کرے اور ان مسائل کے حل میں حکومتی کمزوریوں پر نقطہ چینی کرے۔ حکومت کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپوزیشن کے تحفظات کو دور کرنے کے لئے دلائل پر مبنی جوابات پیش کرے۔ جبکہ اسپیکر اپنے عہدے کی غیرجانبداری کو برقرار رکھتے ہوئے مروجہ قوائد وضوابط کے تحت حکومت اور اپوزیشن کو بلاتفریق اظہارخیال کا موقع فراہم کرے۔ یہی ایک جمہوری معاشرے کا خاصا اور وقت اور حالات کا تقاضا ہے۔

گلگت بلتستان اسمبلی کے تیسرے اجلاس کی تا دم تحریر کاروائی کے دوران اپوزیشن کی جانب سے جن معاملات پر تحفظات کا اظہار کیا جاتا رہا ان میں پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے حق ملکیت وحق حاکمیت کا قانون اسمبلی اجلاس کے ایجنڈے میں شامل نہ کرنا اور گلگت بلتستان میں عوامی ملکیتی زمینوں کو نشینشل پارکس ڈیکلئیر کرنے کی وضاحت طلب کرنا وغیرہ ہے۔

حق ملکیت و حق حاکمیت پاکستان پیپلز پارٹی کے صوبائی صدر و اپوزیشن لیڈر گلگت بلتستان اسمبلی امجد حسین ایڈووکیٹ صاحب  کے مطابق یہ ہے کہ گلگت بلتستان میں کوئی زمین خالصہ سرکار نہیں بلکہ دریا کے کنارے سے پہاڑ کی چوٹی تک سب کچھ عوام کی ملکیت ہے۔ دریا کے کنارے سے پہاڑ کی چوٹی تک کے تمام وسائل بشمول اراضٰی پر حکمرانی بھی یہاں کے عوام کا حق ہے۔ عوامی رائے عامہ کے بغٰیر کوئی شخص ایک انچ زمین بھی کسی کو الاٹ نہیں کرسکتا ہے۔

یہی وہ نکتہ ہے جس کی بنیاد پر گلگت بلتستان اسمبلی میں حق ملکیت کا قانون زیربحث لانا شجر ممنوعہ بن گیا ہے۔ چنانچہ  اپوزیشن لیڈر اس بات پر بضد ہیں کہ جب حق ملکیت سے متعلق ان کی جانب سے مجوزہ قانون قانون کو اسمبلی میں پیش کیا جائے۔ اسی حق ملکیت قانون کو آڑ بنا کر ہی امجد ایڈووکیٹ صاحب گلگت بلتستان میں  نیشنل پارکس قیام پر تحفظات کا اظہار کررہے ہیں۔

بظاہر تو حق ملکیت سے متعلق مجوزہ قانون کو اسمبلی سے پاس کرنا اور نیشنل پارکس کے فوائد ونقصانات پر بحث ومباحثہ گلگت بلتستان کے عوامی خواہشات اور امنگوں کے عین مطابق ہیں۔مگر ان دونوں  معاملات کو اسمبلی میں زیربحث لانے میں غالباً حکومت یا اسمبلی کے کسٹوڈینز کے لئے کچھ نادیدہ قوتیں رکاوٹوں کا باعث ہیں جس باعث ان معاملات کو اسمبلی میں زیربحث لانے میں لیت ولعل سے کام لیا جاتا ہے۔

کمزور جمہوری معاشروں میں عوامی فلاح وبہبود سے متعلق امور کو ایوانوں میں زیر بحث لانے میں رکاوٹیں ڈالنا کوئی انہونی بات تو نہیں مگر ان رکاوٹوں کو عبور کرکے کسی قومی مسئلے پر قانون سازی کرنا ہی حقییقی معنوں میں عوامی نمائندگی ہے۔ آج گلگت بلتستان کے عوام کی اپنے منتخب نمائندوں سے جو امیدیں وابستہ ہیں وہ یہی ہیں کہ یہ لوگ بغیر کسی بیرونی دباوء کے علاقے کے بنیادی سیاسی، سماجی اور آئینی مسائل کا ان  کی خواہشات کے مطابق حل تلاش کرے۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button