امجد حسین ایڈوکیٹ کا اعترافِ سچ
پاکستان پیپلز پارٹی کے صوبائی صدر امجد حسین ایڈوکیٹ کا سوشل میڈیا کے ذریعے ایک بیان سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے برملا اظہار کیا ہے کہ گزشتہ دنوں نلتر کے مقام پر پیش آنے والے دلخراش واقعے کے بعد قاضی نثار احمد کا امن کے قیام میں بنیادی کردار ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ قاضی نثار احمد نے اس واقعے کے بعد انتہائی ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے گلگت بلتستان کو آگ و خون کے کھیل سے بچایا۔۔۔ امجد صاحب کی یہ بات بھی حقیقت ہے کہ اگر قاضی نثار احمد امن کیلئے آگے نہ بڑھتے تو فرقہ وارانہ جنگ کو روکنا کسی حکومت کی بس کی بات نہیں تھی۔
حوصلہ افزا پہلو یہ بھی رہا کہ نلتر اندھناک واقعے کے بعد پہلا مذمتی بیان آغا راحت صاحب کا آیا اس کے بعد دوسرا بیان خود امجد ایڈوکیٹ کا آیا اور تیسرا بیان شیخ حسن جعفری کا آیا، یہ تمام حوالے اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ گلگت بلتستان کے تمام مسالک کی قیادت انتہائ ذمہ داری کامظاہرہ کر رہی ہے۔ تاریخ میں پہلی دفعہ نلتر کے المناک واقعے کو خطے کی کثیر تعداد عوام نے مسلکی خول سے باہر نکل کر دیکھنے کی کوشش کی۔
مجھے افسوس اس بات پر ہوا کہ نلتر واقعہ کی حمایت میں بعض سیاسی و مذہبی رہنماوں نے امجد ایڈوکیٹ سے سیاسی بدلہ نکالنے کی کوشش کرتے ہوئے ایک بیانیہ بنایا کہ امجد ایڈوکیٹ قاتلوں کے فریق ہیں حالانکہ ہم سب جانتے ہیں کہ ایک سیاسی رہنما چاہئے کسی بھی فرقے سے ہو وہ کسی بھی طور فرقہ وارانہ تصادم کا حامی نہیں ہوسکتا۔۔ نلتر واقعے کے بعد حمایت و مخالفت کا جو سلسلہ چل پڑا اس میں مظلوم گوجروں اور پسماندہ خاندانوں سے ہمدردی کم اور ذاتی عناد و انا کا زور زیادہ نظر آیا۔ ظالم کا خارجی طور پر مذہب تو ہوسکتا مگر باطنی طور پر کوئی مذہب نہیں ہوتا لیکن مظلوم کا تو کوئی مذہب، رنگ و نسل نہیں ہوتا۔۔۔
نلتر واقعہ کے بعد حالات کوئی بھی رخ اختیار کر سکتے تھے مگر مقتدر حلقوں، ایف ۔سی۔این اے کی کوششیں اور قاضی نثار کے ذمہ دار رویہ، آغا راحت اور شیخ حسن جعفری کی انسانی قدروں پر مبنی سوچ نے گلگت بلتستان کو ایک بڑے امتحان سے بچا لیا۔۔۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اب تمام مسلکی قیادت یک جان اور یک زبان ہو کر قاتلوں کو سزا اور پسماندگان کو ریلیف دلوانے تک جدوجہد کریں۔۔۔
ہم تو روز اول سے اس بات کے قائل ہیں کہ 1970 سے لیکر آج تک گلگت بلتستان کی حدود میں بہنے والے مظلوموں کے خون کو انصاف ملنا چاہئے تھا مگر صد افسوس! ایسا نہیں ہوا اور ہر دور کا ظالم و قاتل ہمارے بدترین اجتماعی رویوں کی وجہ سے مسلکی و مفاہمتی کمبل اوڑھ کر راہ فرار اختیار کر گیا۔ ہم نے مخالف فرقے کے قتل پر خاموشی اختیار کی اور اپنے فرقے کے قتل پر شور مچایا جس وجہ سے قاتلوں کو ہمشہ سے تحفظ ملا ۔۔۔ گلگت بلتستان کے آنے والے دن انتہائی اہم ہیں، اس خطے کی جیو اسٹریٹجک پوزیشن، وسائل، بدلتا ہوا عالمی منظر نامہ ہمیں دعوت فکر دے رہا ہے۔ مستقبل کا سنہرا دور ہمارے پرامن رویوں سے جڑا ہوا ہے اگر آج ہم نے غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے بدلتے ہوئے عالمی منظر نامے میں خود کو نہیں ڈھونڈا تو مورخ ہماری نسلوں کو ہماری بربادیوں، کوتاہیوں اور جہالت پر بنی تصورات کے صفحات میں جگہ دے گا۔۔۔
گلگت بلتستان کی عوام کا نفع و نقصان مشترک ہے، یہاں کے باسی صدیوں سے اکھٹے ہیں اور قیامت تک رہیں گے، بدامنی، خون خرابہ اور نفرتوں کے بینفشری نہ یہاں کے شیع ہیں نہ سنی، نہ اسماعیلی ہیں اور نہ ہی نوربخشی بلکہ ہماری تقسیم کا بینفشری سمندر پار بیٹھے کچھ ممالک ہیں یا اندر بیٹھے کچھ آستیں کے سانپ۔۔۔ گلگت بلتستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ ایک دلخراش واقعے کے بعد اجتماعی طور پر جس ذمہ داری اور دانش کا مظاہرہ کیا گیا ہے اس عمل کو مزید جاری رہنا چاہئے تاکہ غلط فہمیوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بدامنی کا دروازہ بند ہو سکے ہمارے دشمن ناکام ہوں۔۔