بلاگز

نظامِ حکومت کی بڑھوتری میں عوام کا کردار

راجہ عدنان علی

قارئین گرامی!

کسی معاشرے کی فنا و بقا میں سیاست کا غیر معمولی عمل دخل ہوتا ہے ۔ معاشرہ سازی میں سیاسی نظام ریڑھ کی حیثیت رکھتاہے اس لیے ماہرین سیاسی نظام کی پائیداری کو تمام تر مسائل کا ممکنہ حل تسلیم کرتے ہیں۔ دور حاضر میں جمہوری نظام سیاست کو بلاشبہ ترقی، استحکام اور معاشرتی ارتقا یا افزائش کا ضامن سمجھا جاتا ہے۔ اسلامی جمہوریت میں بعداز الله تبارک و تعالیٰ حاکمیت اور اقتدار عوام کے منتخب کردہ نمائندوں کو حاصل ہوتے ہیں اور وہ نمائندے عوامی امنگوں کے عین مطابق ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے میں مصروف عمل رہتے ہیں۔ جمہوری نظام کی یہ خوبصورتی ہے کہ اس میں طاقت اور اختیارات کا مرکز و محور عوام ہوتے ہیں۔ جمہوریت عوام کو موقع فراہم کرتی ہےکہ وہ شعور مندی اور مستقبل بینی کے ساتھ خقِ رائے دہی کا استعمال کریں۔

عزیزانِ مٙن

پاکستان کا شمار بھی جمہوری ممالک میں ہوتا ہے تاہم صد افسوس ہمارا ملک ایک فلاحی ریاست نہیں ہے کیونکہ اس ملک میں عدم استحکام، طبقاتی استحصال، معاشی بحران، لوٹ کھسوٹ اور دیگر بے ضابطگیاں اپنے عروج پر ہیں، چند سیاسی ٹھگ کہیں دہائیوں سے نسل در نسل اس ملک کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں، یہ ملک ترقی کی دوڑ میں دیگر ہم عصر ممالک کی مقابلے میں بہت پیچھے ہے۔

فلاحی ریاست کے قیام میں ناکامی کے پیچھے کہیں محرکات کار فرما ہوسکتے ہیں مگر زیر نظر اقتباس میں ان بنیادی اسباب پر روشنی ڈالنے کی کوشیش کی گئی ہے جن کا تعلق براہ راست عوام سے ہے۔

عزیز القدر قارئین!

ریاستی نظام کو خوش اسلوبی سے چلانے کیلئے جامع قوانین کے ساتھ ساتھ اخلاقیات بھی ضروری ہوتے ہیں۔

پاکستان میں جمہوری نظام کی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ عوام کی اخلاقی معاشرت سے ناآشنائی ہے۔ جمہوری نظام ان معاشروں میں موثر ثابت ہوا ہے جہاں عوام کو سیاسی ، شہری اور سماجی فرائض کا ادراک ہوتاہے جبکہ ہمارا یہ حال ہے کہ ہم نے خود کو علم الاقوام سے کوسوں دور رکھا ہے نتیجتاً سیاسی امیدواروں کی فہم و فراست اور اہلیت کو ملحوظ نظر رکھے بغیر ہم چند خاندانوں کو حکومت سازی کا اختیار سونپ کر خود محکومانہ زندگی گزارتے ہیں اور بحران سے نکلنے کے لیے کسی آفاقی امداد کے احمقانہ انتظار میں وقت برباد کرتے ہیں۔

قارئین کرام

مغربی دنیا کی طرح ہمارا ملک بھی جمہوری نظام کے تحت چلایا جارہاہے۔ کیا کھبی آپ نے سوچا ہے کہ طرز حکومت میں مماثلت کے باوجود بھی آخر کیوں کر مغربی دنیا ہم سے ذیادہ خوشحال، مضبوط اور ثروت مند ہے؟

سوچیں۔۔۔۔۔

ذرا سوچیں۔۔۔۔۔

کہیں کوتاہی ہم میں تو نہیں؟؟

جی ہاں کوتاہی ہم میں ہی ہے کیونکہ ؛

(١) ہم فرض شناس ہونے کا دعویٰ تو کرتے ہیں مگر ہیں نہیں!

(٢)جھوٹ ہمارے دین میں حرام ہے مگر سب سے ذیادہ جھوٹ ہم بولتے ہیں۔

(٣) ہمارے حکمران چور، نااہل، اور بدکار ضرور ہیں مگر ان کو اقتدار میں لانے والے بھی ہم ہی ہیں۔

(٣) ہم عقل و خرد سے عاری لوگ ہیں کیونکہ دشمن عناصر مختلف تعصبات کو ہوا دیکر ہمیں تقسیم کرنے کی کوشیش کرتے ہیں اور ہم تقسیم ہوجاتے ہیں۔

(۴) ہمیں حقِ خوداردیت حاصل تو ہے مگر اس کا استعمال ہم غلط یا غیر سنجیدگی سے کرتے ہیں۔

(۵) تعلیم و تربیت ہماری ترجیحات میں شامل ہی نہیں۔

(٦) سفارش، چوری، رشوت اور استحصال بالجبر ہمارے خصائل بن چکے ہیں۔

(٧) مذہب کو آخرت کی اس کھیتی کی آبیاری کے لیے بروئے کار لانے کے بجائے ہم نفرت اور اشتعال انگیزی کی ترویج کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

(٨) دوسروں کے جذبات اور عقائد کو ٹھیس پہنچانا ہمارے مشاغل میں شامل ہے۔

(٩) سیاسی بیداری کے اعتبار سے دیکھا جائے تو ہم پتھر دور کے انسانوں سے بھی ابتر ہیں ۔

(١٠) کام چوری اور مکمکا میں ہم اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے ہیں۔

ہماری کوتاہیاں اتنی ذیادہ ہیں کہ ایک اقتباس میں ان کا خلاصہ کرنا کافی دشوار کام ہے۔

ہماری انہی کوتاہیوں کی وجہ سے اس ملک میں اسلامی جمہوریت کا پودا سوکھ رہا ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ یہاں اسلامی جمہوریت کا پودا خوب پھلیں پھولے تاکہ اُس کے سائے تلے ہماری زندگیاں سوکھ وچین کے ساتھ بسر ہو، تو ہمیں ادارہ جاتی سطح پر اصلاحات متعارف کرانے کے بجائے انفرادی/شخصی اصلاح پر زور دینا ہوگا کیونکہ ادارے چلانے والے ہم ہیں جب ہم ٹھیک طرح سے اپنے اپنے فرائض سرانجام دینگے تو ادارے خود بہ خود ٹھیک ہو جائینگے اور آخر کار معاشرتی انقلاب برپا ہوگا۔

شاعر مشرق حضرت علامہ اقبال نے معاشرتی عروج و زوال میں اس معاشرے میں رہنے والے افراد کے کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے کیا خوب فرمایا ہے کہ؛

افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر

ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ !!!!!

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button