ایک کتاب ہزاروں نئے افکار دے سکتی ہے
تحریر: وسیم اکرم
اقرا، بسمہ ربی!
پڑھ اپنے رب کے نام سے جس تمہے جمے ہوے خون سے پیدا کیا ہے۔
اللّه تعالیٰ نے انسان کو تمام مخلوقات میں سب سے افضل پیدا کیا ہے اوراسی ناطے انسان کو اشرف المخوقات ہونے کا شرف حاصل ہے ۔ انسان کی سوچ ہی ہے جو اسے تمام جانوروں سے افضل کرتی ہے۔ اللّہ تعالیٰ نے انسان کو سوچنے ،سمجھنے کی عظیم طاقت عطاء فرمائی ہے۔ اگر ہم انسان کی ارتقا کی طرف نظر ڈالے تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ انسان کس طرح ذہنی ارتقا سے گزر موجودہ جدید دور میں پونچھا ہے اور سفر ابھی باقی ہے ۔ مسلسل ارتقائی عمل میں چند ہی ایسے لوگ ہیں جو کتاب پڑھتے ہیں اور اپنی سوچ کو اور سوچنے کے انداز کو بدل دیتے ہیں۔ جدید ترین دور میں انسان دن بہ دن اکیلا جارہا ہے اور وقت کی رفتار تیز سے تیز تر ہوتی جارہی ہے۔ کتاب ہی وہ دوست اور ہمسفر جو ہمیشہ ساتھ دیتی ہے اور زندگی کے ہر موڈ میں رہنمائی کرتی ہے۔ کتاب دوستی ہی وہ واحد عمل ہے جس سے ہم علم کا قطرہ قطرہ اپنے اندر سما سکتے ہیں اور قطرہ قطرہ ہی سے سمندر وجود میں آتا ہے۔ انسان کی فطرت ہے کہ وہ جاننا چاہتا ہے اور ہمیشہ اسطراب میں رہتا ہے۔ کتابیں اپنے اندر علم کا خزانہ چھپائے ہوے کہی پڑے ہوے ہیں بس ہمیں صرف کھول کے پڑھنے کی ضرورت ہیں ۔ صرف ایک کتاب ہزاروں نئے سوچوں کو جنم دیتی ہے اور انسان کی ذہنی نشونما کرتی ہے ۔ موجودہ دور ہم سے تقاضا کرتی ہے کہ ہم شعوری اور ذہنی طور پر ترقی کرے اور کتاب بینی کو اپنے زندگی کا حصہ بناۓ۔ جدید ٹیکنالوجی کی وجہ سے ہم نہ چاھتے ہوے بھی اپنے ثقافت سے دور ہورہے ہیں لیکن ہم اپنے ثقافت میں کتاب پڑھنے کی اداد کا اضافہ کر سکتے ہیں اگر ہم خود سے یہ عظیم کام شروع کرے تو ہم معاشرے میں نالج سوسائٹی کا بنیاد رکھ سکتے ہیں ۔ دنیا میں لاکھوں کتابیں چھبتے ہیں اور کہی ایسے شہکار کتابیں لکھی گئی ہیں جنکا کہی زبانوں میں ترجمہ کیا گیا ہیں تا کہ علم کے متلاشی کتابوں چھپی علم سے فائدہ اٹھا سکے۔ انسان کی سوچ ہی وہ واحد چیز ہے جسکی بنا پر اسے پرکھا جا سکتا ہے اور جسکے پاس زیادہ علم ہوگا اسی سے لوگ متاثر ہونگے اور اسی کی رقبت حاصل کرنا چاہئنگے۔
کتاب ایک امید اور ایک سوچ دیتی ہے ۔ موجودہ دور میں ہم ہر چیز انٹرنیٹ میں پڑھتے ، دیکھتے اور سنتے ہیں اور عادی ہوتے جارہے ہیں اور کتاب دور ہوتے جارہے ہیں لیکن جب ہم جدید سوسائٹی کی بات کرے تو وہاں کتاب بینی انکی روز مرہ زندگی کا حصہ ہے اور ہمیشہ کتاب اپنے ساتھ رکھتے ہیں اور جب بھی وقت ملے کتاب کھول کے پڑھنا شروع کرتے ہیں لیکن بد قسمتی سے ہمارے معاشرے میں کچھ ہی ایسے لوگ ہیں جو باقاعدگی سے کتاب پڑھتے ہیں جو کہ ہمارے ذہنی پستی اور زوال کا سبب بن سکتی ہے ۔ ہمیں اپنے روئیے، اقدار اور علم کو زندہ رکھنا ہوگا ورنہ شاید ہم نالج سوسائٹی میں زیادہ دیر تک اپنا وجود برقرار نہیں رکھ پاینگے۔ ہمے دانشور ، فلسفر ، رائیٹر ، شاعر ، تھیورسٹ ، بننا ہیں تو ہمے انکو پڑھنا ہوگا۔ کتاب انسان کو ایک سوچ دیتی ہے اور سوچ کو کوئی بھی ماتھ نہیں دیں سکتا ہے۔ کتاب انسان کو سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔ پڑھیے،سوچئے اور خود کو حقیقی مانوں میں اشرف المخلوقات میں شامل کرے۔۔
ابھی تو عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں