واقعہ مباہلہ کب، کیوں اور کیسے رونما ہوا؟
تحریر: شیخ اجمل حسین قاسمی
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مدینہ میں اسلامی حکومت قائم کرنے کے چند سال بعد دیگر ممالک و مذاہب کے سربراہان کے نام خطوط لکھے۔ جن میں سے چھ خطوط مشہور ہیں جو خسرو پرویز کسرا ایران کے بادشاہ، ہرکیولس روم شرقی کے قیصر، نجاشی حبشہ کے بادشاہ، مقوقس اسکندریہ کے بادشاہ، حارث بن ابی شمر غسانی شام کے بادشاہ اور ہوذہ بن علی حنفی یمامہ کے بادشاہ کو بھیجے گئے۔
ایرانی بادشاہ خسرو پرویز نے اس غصے میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا خط پھاڑ کر پھینک دیا کہ اس کے زیر سیطرہ سرزمین سے ایک عرب نے اسے نئے دین کی جانب دعوت دی ہے۔ اس کے ساتھ انہوں نے باذان جو کہ یمن میں خسرو پرویز کا کٹھ پتلی حاکم تھا کو خط لکھا۔ جس میں تحریر تھا کہ مکہ میں نبوت کا ادعا کرنے والے قریشی شخص کو توبہ کرنے پہ مجبور کرے۔ توبہ نہ کرنے کی صورت میں اس کا سر اسے بھیج دے۔ باذان اپنے نمائندوں کو ایک خط کے ساتھ مدینہ بھیجتا ہے جو باذان کا خط پیغمبراکرم (ص) کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔ رسول خدا (ص) فرماتے ہیں کہ آپ لوگ آج چلے جائیں، میں کل خط کا جواب دوں گا۔ دوسرے دن پیغمبر اسلام (ص) خط کے جواب میں فرماتے ہیں کہ: اپنے امیر باذان کو بتادیں کہ گزشتہ رات میرے پروردگار نے خسرو پر اس کے بیٹے شیرویہ کو مسلط کیا ہے اور اس نے اپنے باپ کو قتل کردیا ہے۔ باذان کے نمائندے جب یہ خبر اس تک پہنچاتے ہیں تو وہ حیران رہ جاتا ہے۔ بعد میں جب پیغمبراسلام (ص) کی جانب سے دی جانے والی خبر کی تصدیق ہوجاتی ہے تو باذان اور یمن میں موجود ایرانی اسلام قبول کرتے ہیں۔
ایک اور خط پیغمبر اسلام (ص) کی جانب سے نو ہجری کو حج? الوداع سے پہلے نجران کے مسیحیوں کے لئے بھیجا گیا۔ ظہور اسلام سے پہلے پورا جزیر? العرب بت پرست تھا سوائے نجران کے جو عیسائی نشین علاقہ تھا۔ پیغمبراسلام (ص) کی جانب سے نجران کے عیسائیوں کو بھی خط بھیج کر اسلام کی دعوت دی گئی۔ نجران کے بشپ ابوحارثہ آپ کے خط کو غور سے پڑھنے کے بعد مختلف علمی و مذہبی شخصیات پر مشتمل کمیٹی تشکیل دیتا ہے۔ کمیٹی غور و خوص کے بعد فیصلہ کرتی ہے کہ نجران سے ایک وفد مدینہ بھیجا جائے گا جو محمد کے نبوت کے دلائل کی قریب سے جانچ پڑتال کرے گا۔
نجران کا وفد پیغمبر اسلام سے گفتگو و مذاکرہ کیلئے مدینہ آتا ہے۔ جب پیغمبر اکرم (ص) سے حضرت عیسی کے بارے میں سوال کیا جاتا ہے تو آپ فرماتے ہیں کہ: وہ خدا کی مخلوق اور رسول ہیں۔ خداوند نے اسے حضرت مریم کے بطن میں رکھا۔ میں آپ لوگوں کو توحید پرستی، ایک خدا کی عبادت اور اس کے احکامات کے سامنے تسلیم ہونے کی دعوت دیتا ہوں۔ عیسائی وفد جواب دیتا ہے کہ اگر اسلام کا مقصد ایک خدا پر ایمان ہے تو ہم اس سے قبل ایمان لاچکے ہیں اور اس کے احکام کی پیروی کررہے ہیں۔ پیغمبر اسلام (ص) فرماتے ہیں کہ: اسلام کی کچھ نشانیاں ہیں، آپ کے بعض اعمال سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ لوگ حقیقی اسلام نہیں لائے۔ ایک خدا کی عبادت کا دعوی کرتے ہو لیکن صلیب کی عبادت کرتے ہو، سور کا گوشت کھانے سے پرہیز نہیں کرتے اور خدا کے لئے اولاد کے قائل ہو۔ نجران کا وفد کہتا ہے کہ کیونکہ حضرت عیسی نے مردوں کو زندہ کیا، بیماروں کو شفا دی اور مٹی سے ایک پرندہ بنایا اور اسے پرواز کی طاقت عطا کی۔ یہ سب اعمال اس بات کی دلیل ہیں کہ حضرت عیسی خدا ہے۔ جبکہ اس کی ماں حضرت مریم نے کسی کے ساتھ شادی کئے بغیر اسے پیدا کیا۔ پس یا وہ خود خدا ہے یا پھر خدا کا بیٹا ہے اور ہم سب تثلیث کے قائل ہیں۔ یعنی تین خداوں کے قائل ہیں باپ، بیٹا اور روح القدس۔ اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی۔ ترجمہ: عیسی کی مثال آدم کی طرح ہے کہ خدا نے اسے مٹی سے پیدا کیا، خدا نے کہا موجود ہو تو وہ فورا وجود میں آیا۔ پیغمبر اکرم (ص) نے یہ آیت ان کو سنائی اور فرمایا: اگر باپ نہ ہونا اس بات کی دلیل ہو کہ وہ خدا کا بیٹا ہے تو حضرت آدم اس منصب کے زیادہ لائق ہیں کیونکہ ان کا نہ باپ ہے اور نہ ہی ماں۔
نجران کے وفد میں موجود عیسائی مذہبی پیشوا اور دانشمند اپنے سر کچھ دیر جھکانے کے بعد کہنے لگے کہ: ہم آپ کی باتوں سے مطمئن نہیں ہوئے۔ اب ہمارے پاس حقانیت کو ثابت کرنے کے لئے صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ ہم مباہلہ کریں اور خداوند سے دعا کریں کہ جو جھوٹا ہے عذاب میں مبتلا ہو۔ اسی وقت آیہ مباہلہ نازل ہوتی ہے جس کے بعد پیغمبر اسلام (ص) مباہلے کے لئے آمادگی کا اظہار کرتے ہیں۔ مباہلے کا معنی یہ ہے کہ دو آدمی یا دو گروہ ایک جگہ جمع ہوں اور ایک دوسرے کو بد دعا کریں اور خداوند سے دوسرے فریق کے لئے عذاب طلب کریں۔ جس پر خدا کا عذاب نازل ہوگا وہ باطل اور جھوٹا ہوگا۔
اگلے دن صبح مدینے کے باہر صحرا میں نجران کے عیسائی مذہبی پیشوا اور دانشمندوں کا وفد پیغمبر اکرم (ص) کا انتظار کرتا ہے اس سوچ کے ساتھ کہ وہ اپنے اصحاب کے جمع غفیر کے ساتھ آئیں گے۔ جبکہ مسلمان بھی بڑی تعداد میں مدینے سے باہر مباہلے کا منظر دیکھنے کے لئے موجود تھے۔ پیغمبر اسلام (ص) صرف چار افراد کے ساتھ مدینہ کے دروازے سے باہر نکلتے ہیں اور مخصوص انداز میں مباہلے کی جگہ کی طرف قدم بڑھاتے ہیں۔ دائیں ہاتھ سے ایک بچے کی انگلیاں اور بائیں ہاتھ سے دوسرے بچے کی انگلیوں کو پکڑا ہوا ہے جبکہ ان کے پیچھے صرف ایک مرد و عورت ہیں۔ عیسائی اس منظر کو دیکھنے کے بعد وہاں موجود مسلمانوں سے پوچھتے ہیں کہ یہ کون کون ہیں؟ انہیں بتایا جاتا ہے کہ یہ پیغمبر کا چچا زاد بھائی، داماد اور ان کے نزدیک لوگوں میں سب سے زیادہ مقبول و پسندیدہ شخص ہیں، یہ عورت پیغمبر کی بیٹی فاطمہ ہے جو پیغمبر کے لئے سب لوگوں سے زیادہ پیاری ہے اور یہ دو بچے علی کے فرزند اور ان کے نواسے ہیں۔ پیغمبر اسلام (ص) نے خدا کے حکم کی بعینہ تعمیل کرتے ہوئے جہاں اپنے بیٹوں کو لانے کا حکم ہوا وہی امام حسن و حسین علیہم السلام کو لائے، جہاں اپنی عورتوں کو لانے کا حکم ہوا وہاں حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کو لائے اور جہاں اپنی جان کو لانے کا حکم ہوا وہاں حضرت علی علیہ السلام کو لائے ہیں۔
یہ منظر دیکھ کر عیسائی پادری اور دانشمند کانپنے لگے کہ پیغمبر اسلام (ص) اپنے بزرگوں اور اصحاب کے بجائے اپنے معصوم بچوں، اکلوتی بیٹی اور جانشین کے ساتھ مباہلے کیلئے تشریف لائے ہیں۔ جو اس بات کی دلیل ہے کہ اسے اپنی دعا پر کامل اعتقاد و ایمان ہے۔ پیغمبر (ص) مباہلے کی جگہ پہنچنے کے بعد اپنی عبا کو کھولتے ہیں اور پانچوں افراد عبا کے نیچے جاتے ہیں۔ یہ منظر دیکھ کر ابوحارثہ جو عیسائی وفد کا سربراہ تھا کہتا ہے کہ اس وقت مباہلہ کرنا ہمارے لئے مناسب نہیں ہے۔ امکان ہے خدا کا عذاب ہم پر نازل ہو۔ وہ ایک پتھر کے اوپر کھڑا ہوکر کہتا ہے کہ میں پانچ ایسے نورانی چہرے دیکھ رہا ہوں جو دعا کے لئے ہاتھ اٹھائیں تو پہاڑ زمین سے اکھڑ جائیں۔ مباہلہ کرنے کی صورت میں ہماری نابودی یقینی ہے، مباہلہ نہ کریں ورنہ ہلاک ہوجاوگے۔ اس کے بعد وہ لرزتے ہاتھوں اور کانپتے پاوں کے ساتھ پیغمبر اکرم (ص) کے قریب آنے کے بعد کہتا ہے کہ: اے اباالقاسم ہمیں مباہلے سے معاف کریں، ہمارے ساتھ مصالحت کریں۔ آپ کی جو بھی شرط ہوگی وہ ہمیں قبول ہے۔
بیدم یہی تو پانچ ہیں مقصود کائنات
خیرالنساء، حسن و حسین، مصطفی، علی