کالمز

دوسرا کارڈ چل گیا

تحریر: محمد علی عالم

ڈسٹرکٹ ہیڈکورٹر ہسپتال خپلو میں گائناکالوجسٹ کی تعیناتی اورضلع میں صحت عامہ کی بگڑتے مسائل کے حل کے لئے عوام نے پیر کے روز احتجاج کیا۔ خپلو بازار میں لوگ جمع ہو گئے جہاں ضلع کے مخلتف علاقوں سے سرکردہ گان نے آ کر خطاب کیا اور احتجاج کی حمایت کا اعلان کیا۔ بعد ازاں احتجاجی ریلی خپلو بازار سے ڈپٹی کمشنر آفس کی طرف روانہ ہوا اور اسسٹنٹ کمشنر آفس کے سامنے دھرنا دیا جہاں ضلعی انتظامیہ کے سربراہان آئے مزاکرات کرنے کی کوشش کی مگر ناکام لوٹ گئے۔

انتظامیہ کے نمائندے چلے گئے مگر مقررین بدستور وہاں موجود رہے پھر اعلان کیا گیا کہ دھرنے کے حوالے سے آئندہ کا لائحہ کل طے کیا جائے گا اور شرکاء پرامن طریقے سے گھروں کو واپس جانے لگے لیکن سید نذر کاظمی اور غلام علی نے اعلان کیا ہم گھر نہیں برس پڑی پر جا کے دھرنا دیں گے۔ وہاں لوگ جمع ہو گئے دھرنا رات بھر جاری رہا۔ اگلے روز صبح شٹر ڈاؤن کی کال دی بازار کمیٹی نے بھی فیصلہ پر لبیک کہا۔ ضلع کے مختلف علاقوں میں احتجاج کیا گیا۔ سکردو سے سول سوسائٹی اور ایکشن کمیٹی کے رہنما دھرنے میں شرکت کے لئے آئے اور خطاب کیا۔

اسلام آباد میں بھی ایڈوکیٹ محمد علی یار کی سربراہی میں احتجاج کیا گیا اور دھرنا دیا گیا۔ خپلو میں مظاہرین نے دوپہر کا کھانا کھایا وہاں صوبائی حکومت کی ہدایت پر محکمہ ہیلتھ نے بھی یکم جولائی کو ہونے والے آرڈر کے تحت ریجنل ہسپتال سکردو سے ایک گائناکالوجسٹ کو دس دن کی روٹیشن پرخپلو بھیج دیا اور وہ شام کو پہنچ گئی مگر دھرنا کے شرکاء مستقل بنیادوں پر گائناکالوجسٹ کی تعیناتی کا مطالبہ پر بضد رہے۔ اور دس دن کے گائناکالوجسٹ کی تعیناتی کے حکم نامے کو مسترد کیا۔

سید نذر کاظمی و دیگر نے اعلان کیا کہ مستقل بنیادوں پر گائناکالوجسٹ کی تعیناتی تک دھرنا اور شٹر ڈاؤن ہڑتال بھی جاری رہے گا۔ ساتھ ہی چھوربٹ اور غواڑی میں بھی دھرنا دینے کا اعلان کیا۔ دوسری طرف انتظامیہ نے بھی کمر کس لی اور مظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے مکمل حکمت عملی تیار کر لی۔ اطلاعات کے مطابق انتظامیہ بوا رستم علی کے پاس گئے اور کہا کہ گائناکالوجسٹ پہنچ گئی ہے مستقل بنیاد پر گائناکالوجسٹ کی تعیناتی کے لئے تین دن کا ٹائم دیں جس پر بوا رستم علی نے انتظامیہ کو بتایا کہ تین دن نہیں پانچ دن کا ٹائم لیں پھر بھی مطالبات حل نہیں ہوئے تو میں خود احتجاج کو لیڈ کروں گا، جس پر انتظامیہ نے ہامی بھری اورچلے گئے۔ اس طرح دھرنے کو ختم کرنے کی ذمہ داری بوا رستم علی کو سونپ دی گئی جس کے بعد مولانا رستم علی نے دھرنے کے منتظمین کو جن میں قطب الدین ایڈوکیٹ، آصف ایڈوکیٹ، غلام علی، عالم خان، ذوہیر اسدی، امان اللہ خان، عتیق الرحمن اور دیگر کو اپنے گھر بلایا اور انتظامیہ کے ساتھ ہونے والی تمام باتوں کو ان کے سامنے رکھا اور کہا کہ میں گارنٹی لیتا ہوں دھرنے کو ختم کریں جس پر تمام منتظمین نے ہاں کر دیا اور دھرنے کو ختم کرنے کا متفقہ فیصلہ کیا۔

تاہم سید نذر عباس کاظمی ڈٹ گئے اس فیصلے کو ماننے سے انکار کیا اور رات 10 بجے تک این وائی ایف کے ذمہ دارانہیں مناتے رہے۔ یہاں دھرنے ختم کرنے کے لئے کوئی اعلان کرنے کو تیار نہیں ہوا اسی دوران کچھ لوگوں کو خبر مل گئی کہ کوئی خفیہ ڈیل ہوئی ہے چہ میگوئیاں شروع ہوئی جس کے بعد بہت سارے لڑکے گھروں کو چلے گئے کچھ کو خصوصی طور پر گھروں کو بلایا گیا اتنے میں ہمت کر کے عالم خان و دیگر نے پنڈال میں لوگوں کو جمع کرنا شروع کر دیا اور پری پلان طریقے سے خطابات کا سلسلہ شروع کیا عالم خان نے اپنے انداز میں خطاب کیا مگر اصل بات کہہ نہ سکے پھر غلام علی کو مائیک دیا خطاب کے دوران الطاف بگٹی کھڑا ہوا اور خدشات کا اظہار کیا اتنے میں ذوہیر اسدی نے مائیک سنبھالا اور جذباتی ہو گئے اور کہا کہ کوئی ڈیل کے حوالے سے خبر کس نے بریک کی ہے اپنے روایتی انداز میں گالم گلوج شروع کیا۔ وہ خبر میں نے بریک کیا تھا۔

منتظمین کاغصہ اپنی جگہ درست تھا کیونکہ میں نے انکے خفیہ ڈیل کو عوام کے سامنے لایا تھا۔ دھرنے کے شرکاء نے نذر کاظمی کو بلایا تو ذوہیر پھر اپے سے باہر ہو گئے اور جذباتی ہو کر کہا کہ اس احتجاج کو میں اور عالم خان نے شروع کیا ہے نذر کاظمی اور دیگر تو بعد میں آئے تھے۔ پھر امان اللہ نے خطاب کر رہے تھے کہ اتنے میں سید نذر کاظمی دھرنے میں پہنچ گئے اور خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں ذاتی طور پر دھرنے کے شرکاء کے ساتھ ہوں شرکاء جو فیصلہ کریں گے میں اس پر عمل کروں گا اور کہا کہ انتظامیہ والے کہتے ہیں کہ دس دن کے لئے گائناکالوجسٹ پہنچ گئی ہے پانچ دن بعد مستقل بنیاد پر تعینات ہو گا اگر آپ لوگ کہتے ہیں تو میں مذاکرات کے لئے جاوں گا۔ شرکاء نے اجازت دی اور وہ چلے گئے مگر مذاکرات ناکام ہو گئے۔

سید نذر کاظمی دھرنے میں واپس آئے اور انتظامیہ سے مزاکرات کی ناکامی سے آگاہ کیا اور کہا کہ دھرنا جاری رہے گا جو دیگر ممبران پر ناگوار گزری جنہوں نے بوا رستم سے دھرنا ختم کروانے کا وعدہ کیا تھا۔ پھر بعض ممبران دھرنے سے چلے گئے جبکہ سید نذر کاظمی ڈٹے رہے۔

اسی دوران دھرنے کے اکثر شرکاء کو دھرنا ختم کرنے کے لئے کی جانی والی خفیہ ڈیل والی خبر پر یقین ہو گیا کچھ لمحے بعد بعض ممبران واپس آ کر دھرنے کو دوبارہ جوائن کیا۔ اسی دوران احتجاجی دھرنے کے حوالے سے این وائی ایف کا ایک پریس ریلیز بھی آ گیا جو سوشل میڈیا پر موجود ہے۔ صبح تاج محل ہوٹل میں سول سوسائٹی کے عہدیداران کے لئے ناشتے کا اہتمام تھا وہاں سب جمع ہو گئے اور لمبی بحث کے بعد دوبارہ اتفاق ہو گیا کہ دھرنے میں سب مل کر بیٹھیں گے اور مطالبات کی منظوری تک دھرنا جاری رہے گا۔

اعلان کے مطابق سب ڈویژن چھوربٹ میں طاہر علی ثانی اور غواڑی میں رضاالحق مدنی کی قیادت میں دھرنا دیا گیا۔ اس کے علاوہ ضلع کے مختلف علاقوں میں بھی احتجاجی دھرنا اور ضلع میں شٹر ڈاؤن جاری رہا صبح انتظامیہ نے پھر سے کاوشیں شروع کر دی اس بار انتظامیہ نے فلاحی کمیٹی کو آزمایا جس میں سید حمایت حسین، شیخ غلام حسین، مولانا رحمت اللہ، مولانا عبدالسلام، حاجی یعقوب اور مولانا محسن شامل ہے ان کے ساتھ طویل گفت وشنید کے بعد یہ فیصلہ ہوا اور ایک سادہ کاغذ پر ضلعی انتظامیہ کے ساتھ معاہدہ کیا گیا جس میں لکھا ہے کہ ایک گائناکالوجسٹ خپلو ہسپتال میں دس دنوں کی روٹیشن بیس پر آ گئی ہے اس کے علاوہ ایک اور گائناکالوجسٹ چند روز میں آ جائے گی اور مستقل بنیاد پر گائناکالوجسٹ کی تعیناتی کے لئے تین دن کا ڈیڈ لائن دیا جائے گا یہ فریق اول یعنی ضلعی انتظامیہ نے ذمہ داری اٹھائی اور فریق دوئم یعنی فلاحی کمیٹی کی ذمہ داری ہو گی کہ وہ دھرنے کو ختم کریں گے اس کو لے کے فریق دوئم دھرنے میں گیا اور ان معاہدے کی روشنی میں شرکاء کو آگاہ کیا اور دھرنا ختم کرنے کا اعلان کیا۔اس طرح ضلعی انتظامیہ کا پہلا کارڈ ناکام جبکہ دوسرا کارڈ چل گیا شرکاء گھروں کو واپس لوٹ گئے۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button