گمشدہ فوکر طیارہ
تحریر: عارف حسین عارف
۵۲ اگست ۹۸۹۱ کی صبح گلگت سے اسلام آباد کے لیے اڑان بھرنے والا فوکر طیارہ پی کے 404 واقعی میں بدقسمت ٹھہرا کہ جو اپنے آغوش میں سمیٹے 49 افراد سمیت ایسے لاپتہ ہوا کہ آج بتیس سال بعد بھی کہیں سے کوئی سراغ نہیں مل سکا۔
جہاز کے پائلٹ کے بارے میں ان دنوں یہی مشہور تھا کہ وہ متجسس مزاج کے حامل تھے اور نئے راستوں کو دریافت کرنے کے متمنی رہتے تھے۔
مجھے یاد ہے جب میرے گھر سے پانچ افراد، جنہیں اسلام آباد جانا مقصود تھا سویرے گھر سے ایرپورٹ کے لیے نکلے۔ میرے چجا نصیر الدین جو مردان میں اسسٹنٹ کمشنر تعنیات تھے ترقی پا کر ڈپٹی کمشنر بنے تھے اور ان کی وفاقی دارلحکومت اسلام آباد میں تعیناتی عمل میں آئی تھی۔صبح سویرے موسم کا بغور جائزہ لیا جو اس دن بدقسمتی سے مکمل صاف تھا۔ کمال الدین اور سعدیہ نصیرالدین بہت عرصہ بعد جوٹیال آئے تھے جنہوں نے کچھ اور دن اپنے آبائی وطن میں رہنے کی حسرت لیے رختِ سفر باندھا تھا اور میری چاچی شہوار نصیرالدین ایک نئی منزل پہ خوشیوں سے مزین زندگی کے کچھ سال بتانے کے خواب لیے اپنی اولاد اور سہاگ کے ہمراہ محو سفر ہو گئیں۔ میری چچا زاد پھوپھی شمیم اسلام آباد کے ایف سیون ٹو کالج فار وومین میں زیر ِ تعلیم تھیں اور چھٹیوں کے اختتام پرحصولِ علم کے عمل کو آگے بڑھانے کے لیے اپنے بھائی کے ساتھ سفر کی حامی بھر لی۔
صبح سویرے جہاز اسلام آباد کے لیے روانہ ہو گیا البتہ دس منٹ کے بعد پائلٹ کا ٹاور کے ساتھ رابطہ منقطع ہوگیا۔
وہ دن اور آج کا دن اس جہاز اور اس میں سوار افراد کے بارے میں سب لاعلم ہیں۔ حکومتِ وقت نے کافی کوشش کی کہ کہیں سے اس کا سراغ مل سکے لیکن تلاش کے لیے کی جانے والے کاوشیں جلد ہی دم توڑنے لگیں ۔
لواحقین آج بھی اس بات کے منتظر ہیں کہ یہ جہاز اور ان کے پیارے جن بھی حالات سے دوچار ہوئے اس کا انہیں پتہ چل جائے۔
ہمیں ازبر ہے وہ دن ہم نے کھویا تھا وہ فوکر تھا
بہائے اشک سب نے تھے جو مانگا تھا وہ رو کر تھا
سجائے خواب سب نے تھے نئی منزل کی خواہش تھی
مگر سب ٹوٹ کر بکھرا عجب قسمت کا ٹھوکر تھا