کالمز

عالمگیریت، ثقافت اور شناخت

تحریر: سید شفا جان 

گوگل، فیس بک  اور الیکٹرونک میڈیا سے متعلق دیگر  بہت سی چیزوں نے بہت ساری ثقافتوں ، مذاہب اور برادریوں کو  ایسے انداز میں باہم ملا دیا ہے جس کی ماضی میں کوئی مثال ڈھونڈنا مشکل ہے۔ اس عمل نے جدید علوم  ، اطلاعا ت اور انٹرٹینمنٹ   کے ساتھ ساتھ  ایسے ذرائع  بھی مہیا کیے ہیں جو پوری دنیا میں معیارِ زندگی کو بہتر بنانے کا سبب بنے ہیں اور لوگوں میں ثقافتوں اور روایات کی تعدد اور  تنوع  کی اہمیت   کے احساس کو  اُجاگر کیا ہے۔  اسکالرز نے اس  ٹرانسفارمیشن کو عالمگیریت  (Globalization) کا نام دیا ہے۔ ٹیکنالوجی نے  ترقی یافتہ انڈسٹریل سوسائٹی میں سامان کی بے تحاشہ فراوانی کو یقینی     بنا کر   ناقابل ادراک کنزومر چوائس  سامنے لایا ہے جو عالمگیریت کیلیے ایک طرح سے عامل ( catalyst)  کا کردار ادا  کررہی ہے۔ اس لیے کسی نے عالمگیریت کوکس  خوبصورت انداز سے بیان کیا ہے، ملاحظہ فرمائیں۔ایک آدمی  ایک ہی وقت میں  ہانک کانگ کا لباس پہن کر،  فرانس کی خوشبو لگا کر ، میگڈونلڈ کا کھانا کھا  کر،   غرب الہند کی موسیقی ( reggae) سنتے ہوئے، جاپان کی  لینڈ کروزر میں افریقہ میں چائینہ کیمرے سے ہاتھیوں کی فلم  بندی کے لیے گھوم رہا ہوتا ہے.

عالمگیریت  کے بارے میں کئی قسم کے مقاماتِ نظر (vantage points) ہیں۔ کچھ لوگ اسے ایک ترقی پسند اور آزادی بخش (emancipating)  قوت سمجھتے ہیں اور اس کے حق میں دلائل کا انبار لگا دیتے ہیں  جب کہ لوگوں کا ایک بڑا گروہ  اسے ایک  تخریب کار اور  روایات اور    مقامی ثقافتوں اور اقدار کو کمزور کردینے والا عمل گردانتے  ہیں۔  ثانی الذکر گروہ کے مطابق عالمگیریت  نے مغربی ثقافت اور اقدار کو وسیع پیمانے پر پھیلانے (dispersion)  اور مغربیت انگیزی (Occidentalization ) کو پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔ عالمگیریت کا عملی   اثر روایتی اقدار کی فرسودگی(Erosion)  اور نئی اقدار کا  معاشروں    پر بہ زور طاقت اطلاق  ہے۔ اس موقف کے مطابق  عقیدے  پر مبنی     روایات  کے لیے اس کے اثرات ہمیشہ ناپسندیدہ  رہے ہیں ۔ یہ روایات  کے استقلال  اور دوام کو نہیں مانتی  اور  ان   کے تبدیل ہوتے رہنےکو ناگزیر سمجھتی  ہے اور اسی  تبدیلی کو تواتر بخشتی ہے ۔  جس کے نتیجے میں پھیلنے والی مغربیت پسندی روایات کے تقدس کے لنگر کو اکھاڑ (subverts) دیتی ہے  اور معاشرے  میں احساس بیگانگی اور کھوکھلاپن پیدا کر تی ہے۔

 نقطہ نظر  موافق ہو یا مخالف  عالم گیریت کے تعمل کو سمجھنا بڑا  آسان  ہے ۔وہ یہ کہ یہ ایک  پروموٹر ہے جو   کرونا کی وبا، فیشن کے سٹائلز  (چاہے ان کا تعلق لباس سے ہو یا طعام و قیام سے)اور میوزک ( مغربی ہو یا مشرقی)    کے سروں  کو ایک   ہی رفتار سے دنیا بھر میں  پھیلاتی ہے۔  ظاہر ہے اس کے نتائج کچھ  معاشروں کے لیے پسندیدہ  ہوں گے اور کچھ کے لیے نا پسندیدہ ۔  عالمگیریت کے اس پھیلاو میں بہت سے عناصر کا کردار ہے مگر یہاں  مضمون کی  طوالت سے بچنے کے لیے  صرف دو عناصر  کو زیر بحث لانے کی کوشش کی گئی ہے۔ قطع نظر اس فلسفیانہ    پہلو  کے کہ کیا  فی الحقیقت صارفیت اور   میڈیا عالمگیریت کے سہولت کا ر ہیں   یا نہیں یہ مضمون عام مفہوم میں  ان دونوں کو سہولت کار کے طور پر پیش کرتا ہے :۔

اگر آپ ایک عام آدمی ہیں  اور آپ  کے پاس ایک سمارٹ   فون  ہے اور وہ انٹرنیٹ سے مربوط ہے تو آپ کسی غلط فہمی میں نہ رہیں ، اب  آپ ایک عام آدمی بالکل بھی نہیں ہیں۔اس فون کے استعمال  کے بعد  آپ  کی حیثیت عالم گیر   ہو چکی ہے۔آپ براہ راست اطلاعات، علم  اور انٹرٹینمنٹ خرید رہے ہیں یعنی آپ گوگل، فیس بک اور  یوٹیوب وغیرہ کے صارف ہیں  اور یوں    آپ ایک عالمی صارف  بن  چکے ہیں۔ سمارٹ فون کاتقریباً ستر فیصد حصہ آپ کے لیے  بے کار  ہونے کے باوجود آپ ایک پیچیدہ اور زیادہ سے زیادہ اوپشنز  کے حامل موبائل فون کے بغیر اپنے آپ کو احساس کمتری میں مبتلا پائیں گے۔ آپ متمول اور ماڈرن  لوگوں کی محفل میں  ایک پُرانے چھوٹے سائز کے’ نوکیا ‘ فون کو جیب    سےنکالنے کی غلطی نہیں کریں گے   یا اس کےایک  ہزار   ایک  جواز پیش کریں گے کہ اس پرانے اور دقیانوسی فون کے فوائد کیا ہیں۔اسٹار ہوٹلوں کی رہائش ، میگڈونلڈز کے کھانوں  اور برانڈ کے جوتوں اور کپڑوں کی خریداری   کی نسبت سادہ اور فٹ پاتھی زندگی میں سکون ہی سکون ہونے کے باوجود  وہ  کبھی بھی آپ کی ترجیح ٍ  نہیں ہوگی۔پیدل چلنے کے سینکڑوں فوائد سہی مگر تھوڑی سی  دولت سمیٹنے کے بعد چمچماتی گاڑ ی   کی اپنی اولین    ترجیح  کو آپ کیسے نظرانداز  کر پائیں گے۔ یہ صارفیت consumerism) کی چند سادہ مثالیں ہیں جو عالمگیریت   کے لیے ایجنٹ کا کام کرتی ہے۔ اس نے آپ کے ساتھ ساتھ  غریب، ترقی پزیر  اور غیر پیداواری ملکوں کے تمام  باشندوں  کو  بھی  پیداواری اور تخلیق کار ممالک   کے پروڈکشنز   کا صارف بنایا ہے۔ اگر  بات یہاں رکتی تو چنداں مضائقہ نہ تھا ۔ مسئلہ یہ ہے کہ اصل  معاملہ   یہی  سے  شروع ہوتا ہے۔ ایک  بین الاقوامی صارف ( consumer) بن جانے کے بعد    بظاہر آزاد ہوتے ہوئے بھی آپ آزاد نہیں ہیں۔کیونکہ اگر آپ یہ کہیں گے کہ ہاں میں آزاد ہوں تو سوال پیدا ہوگا  کہ  آپ کس چیز کے لیے آزاد ہیں؟   کمزور اور ترقی پزیر ممالک  کی  اپنی مرضی کی   سیاست  یا  حکومت سازی   میں بے بسی  کو نظرانداز کر بھی  دیا جائے  توشخصی حیثیت میں     آپ کی آزادی اور خود مختاری پر سوالات پھر بھی اٹھتے رہیں گے کہ بالآخر آپ کیسے آزاد ہیں؟ جو کپڑے آپ نے پہنے ہیں، جو کھانا آپ کھا رہے ہیں، جس زبان میں آپ بات کر رہے ہیں، جس ڈیزائن کے گھر میں آپ رہتے ہیں، جو تعلیم آپ نے حاصل کی ہے، ان سب میں آپ کا اپنا کیا ہے؟ کیا  آپ  اپنی ذات کے لیے بیگانہ  نہیں بن رہے ہیں؟  کیا ایسا نہیں کہ   آپ قسطوں میں  کسی اور کے قیدی بنتے   جارہے ہیں ؟ کیا  آپ کا اختیار، آپ کی شناخت، آپ کی اقدار اور  آپ کی ثقافت و روایات  آپ کے ہاتھ سے نہیں  نکل   رہی ہیں   ؟ کیا  آپ ایک طرف سے  نئی نئی چیزیں پا  کر دوسری طرف سے  پرانی چیزیں  کھو نہیں  رہے ہیں ؟ اگر کھو رہے ہیں تو کیا اس میں آپ کی مرضی شامل ہے؟  ان سوالات کے جوابات ہمیشہ ہاں یا ناں کی صور ت میں   کھلے رہیں گے۔مگر اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ آپ کی روایت و ثقافت سے جو چیز ایک بار  کٹ کے الگ ہو جائے اس کو پھر سے پانا ممکن نہیں۔ ایک لمحہ رک کر آپ اپنی زندگی میں یا اپنے معاشرے میں ترک شدہ اشیاء اور روایات کی فہرست بنانا شروع کر لیں   تو  شاید اس نتیجے پر پہنچنا بعید از قیاس نہیں   کہ بے شمار چیزیں ہمیشہ کے لیے  ناپید ہو چکی ہیں۔  طرز بود باش اور کھانے پینے سے لے کر موسیقی  تک  بہت کچھ یا تو متروک ہو چکی  ہے   یا آمیزش سے خالی نہیں ۔ یہاں تک کہ بعض اوقات   آپ کے معاشرے کی عکاسی کرنے والا  روایتی ادب بھی وقت کے لحاظ سے بے محل اور  غیرمتعلق(irrelevant )   ہو  کر  اپنی  شناخت  کھو دیتا ہے  بلکہ اس کے بعض حسین پہلو ہمیشہ کے لیے معدوم ہوجاتےہیں۔

آئیے ذرا یہ دیکھتے ہیں کہ ادب کس طرح   معدوم  ہو جاتا ہےاور اس میں صارفیت کا کیا کردار ہے۔اس کے لیے  مقامی ادب  پارے سے رومانس  کا ایک تمثیلی پہلو  پیش کرنے کے لیے  یاسین کی قدیم بروشسکی شاعری کے ایک بند کا استعمال کیا جا سکتا ہے ؛  اس بند میں شاعر نے  گاؤں کی  ایک کاشتکار  رومانوی زندگی   میں محبت کی مجبوریوں کو بیان  کیا ہے جہاں  اس زمانے میں عاشق و معشوق کا کھلے عام ملنا بے ادبی اور معیوب  تھا    ۔ اس  ثقافت میں  محبوب ( معشوق)کے کھیت میں گوڑی کرتے رہنے اور شام تک عاشق کی طرف ایک جھلک بھی   نہ دیکھ پانے اور عاشق کے  ایک صبر آزما انتظار  سے گزر کر  مایوس   گھر لوٹنے کی کیفیت کی منظر کشی کی  گئی ہے۔” موقےچم چے بَلیش کھیتہ غانا دوردانہ  !عمر کم مایم دوا” عاشق انتہائی مایوسی کے عالم میں  گلہ کرتے ہوئے کہتا ہے  کہ ــــــ  اے میرے محبوب ! آگ لگ جائے اس زمین کو، کب تک تم اس کو  کھودتے رہوگے، کئی دن اور شامیں گزر گئیں،   تم نے سر تک نہیں اٹھا یا ،تیری دید کے انتظار میں  میری تو عمر  گھس گھس کے  ختم ہوتی جارہی ہے، خدا را  !   ایک جھلک  میری طرف تو دیکھ لو     ــــــ   یہ پورا دلکش  ادبی منظرمواصلاتی  سہولت کی عدم موجودگی کی وجہ سے تخلیق ہوا تھا۔ فرض کریں ان دونوں (عاشق و معشوق )کے پاس موبائل  فون کی سہولت ہوتی تو رومانس کا یہ سارا  خوب صورت منظر، اس کا ادبی بیان  اور اس  سے متعلق تمام اخلاقی اقدار مثلاً صبر، انتظار ، امید اور باہمی  گلے شکوے وغیرہ کب کے ختم ہو چکے  ہوتے۔ ایک مسیج یا   کال رومانس کی دنیا کے آداب اور اس کے نتیجے میں تخلیق ہونے والے ادب کو اجاڑ کر رکھ دیتی۔ جیساکہ سکائپ، زؤم اور ویڈیو کال نے   چودہویں کے چاند کے نکلنے  منظر کو دیکھ کر محبوب کو یاد کرنے سے متعلق تمام ادبی تمثیلی روایات   کا تہس نہس کر دیا ہے۔ اب محبوب کی  وہ  ماورائیت    باقی رہی اور نہ ہی عاشق  کی رومانوی کیفیت، کہ چاند نظر آتے ہی خیالات کی دنیا میں اسے   محبوب کا  حسین چہرہ  بھی دکھائی  دے۔ اب تو سب کچھ لیپ ٹاپ یا موبائل کی اسکرین پر براہ راست دکھائی دیتا ہے۔ ایسے میں عشق کی  اس تمثیلی روایت سے متعلق تمام اقدار  کا زمانے کے ساتھ پنپنا اور ترقی کرنا  کارے دارد۔ گویا آپ نے فون پایا  اور عشق کی لذّتِ انتظار اور اس کے نتیجے میں تخلیق ہونے والے ادب   اور اقدار کو کھو دیا۔ وہ لطیف احساسات ختم ہو گئے جو دیدار کے شوق اور امید میں عاشق کے دل میں پیدا ہوتے تھے اور وہ  انتظار کے اس  کرب کو  وصل کی لذت  سے زیادہ  خوشگوار سمجھتا تھا۔

ایسا ہی  معاملہ تیز رفتار گاڑیوں اور ہوائی جہازوں میں سفر کے ساتھ ہے۔ سعدی شیرزای کی بوستان اور گلستان کے تمام علمی و اخلاقی  پیغامات اور حکایات کے پیچھے ان کے پیدل سفر کرنے کے  بے پناہ علمی  تجربات کو  نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔مارکوپولو جہاز میں  افغانستان، ایران اور ترکی  تک جاتے یا ناصر خسرو براہ راست بلخ سے  یوریشلم  اور مصرمیں اترتے  تو شاید ان کے سفرناموں  کی موجودہ نوعیت ہوتی نہ وہ   شہرتِ دوام ۔ آج اگر غالبؔ زندہ ہوتے تو    اپنی جدت پسندی کی وجہ سے  خط نہیں ای میل لکھتےیا  واٹس ایپ پر براہ راست  وائس مسیج کرتے  اور شاید انھیں یہ لکھنے  کی ضرورت ہی نہ پڑتی کہ:

مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کیے ہوئے :  جوشِ قدح سے بزم چراغاں کیے ہوئے

کرتا ہوں جمع پھر جگرِ لخت لخت کو           :   عرصہ ہوا ہے دعوتِ مژگاں کیے ہوئے

               
اس تناظر میں  شاید ہم پورے یقین کے ساتھ یہ کہنے کی پوزیشن میں ہیں کہ اگر آج    منٹو اور جوش ملیح آبادی  زندہ ہوتے تو ان  کے لب لہجے میں  کمپیوٹر اور انٹرنیٹ   کے مستعار الفاط  شامل ہوتے اور یوں  وہ بھی  ایک صارفی ادب تخلیق کر جاتےاور  مستنصر  حسین تارڈ بھی اپنی ‘شمشال بے مثال’ میں گاؤں کی ریڑھیوں کو گننے کے بجائے  موبائل فون کے ٹاورز اور  انٹرنیٹ کی سہولت کا ذکر فرماتے۔

      جب  صارفیت کی وجہ سے عالمی اثرات مقامی اقدار کے ساتھ متصادم ہوتے ہیں تو  ایک نیا  آمیزہ  تیار ہوتا ہے جس سے  لوگ   خلفشار کا شکار ہوتے ہیں ۔یا تو وہ   اپنی پرانی شناخت کی تلاش میں ہوتے ہیں یا  پھر نئے شناخت بنانے کی جستجو میں۔ لہذا ہر  اس دعوت کی طرف دوڑ پڑتے ہیں جو ان کو    پر کشش   لگے ۔ فرض کریں  ایک  انگریزی زبان کے مقرر،   پینٹ شرٹ میں ملبوس  اور ٹائی بند برصغیری  عالم دین،   اور  ہندوستان  کے   مونکوں سے  سیکھا ہوا  کوئی انگریز       یوگا  گزار ( Yoga practitioner)      میڈیا  کے ذریعے     اپنی اپنی دعوت  چلانے لگیں   تو  آپ دیکھیں گے کہ   دونوں جگہ لوگوں کے بڑے بڑۓ  ہجوم  ہوں گے ۔ لوگوں کی یہ شرکت درحقیقت  حصول شناخت کی ایک جستجو ہے۔  جب کہ ان دونوں کی دعوت ایسی ہے جیسے  پرانی یونانی  جڑی بوٹیوں کے سفوف کو ایلو پیتھی کی  نئی کیپسول میں پیک کرکے بیچا جائے۔لیکن  اگر آپ    ان  دعوتوں   پر ایک تنقیدی نگاہ رکھتے  ہوں  تو اچھی طرح جان  لیں گے  کہ فی الحقیقت  اس کے پیچھے صارفیت  کی کرشمہ سازی ہے جو  اس طرح کے  ماحول  میں  اپنے لیے راستہ تلاش کر رہی ہوتی ہے۔ اس کا حدف  مادّیت کو تقویت   پہنچانا ہوتا ہے  نہ کہ روحانیت  کو ترقی دینا۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہنا چاہیے کہ   صارفیت  ان دونوں ( تقریر اور یوگا  پریکٹس )  کو اپنا  مَصرَف  بنا دیتی ہے   اور  نتیجتاً ان کے سامعین صارف بن جاتے ہیں   ۔ مزید گہرائی سے جائزہ لینے پر پتہ چلتا ہے کہ صارفیت  اس  جدید کیپسولی طریقے سے   مغربی   چیزوں کو مشرقیوں اور مشرقی چیزوں کو مغربیوں  کے لیے قابل قبول بناکر  پیش کرتی ہے اور  ان   دو انتہاؤں کے درمیان  ‘اعتدال ‘ کا ایک  درمیانی تصور  سامنے لانے کی کوشش کرتی ہے۔ تاکہ اس کے اپنے  طویل المیعاد مقاصد حاصل ہو سکیں۔ مگر اس کا افسوسناک پہلو یہ ہے  کہ  اس سیاق میں ‘اعتدال’ اپنے عمومی معنی کھو دیتا ہے،  یہاں اس کے نئے  معنی بنتے  ہیں  اور وہ ہیں، اپنی روایات سے بتدریج دستبردار ہونا  ، یہاں تک کہ وہ بے مصرف ہوکر معدوم ہو جائیں ۔اس کی مثال ایسی ہے جیسے ٹمپریچر کی کمی  کو سرد اور ٹمپریچر کی زیادتی کو گرم کہا جاتا ہے۔ ان دونوں کے درمیان کچھ نہیں ہوتا۔جاننا صرف  یہ ہے کہ آپ کا رخ کس طرف ہے ،آگ کی طرف یا برف کی طرف؟  زمانوی حقیقت یہ ہے کہ  صارفیت میں’ اعتدال’ کا    جھکاؤ قطعی طور پر  مادّیت کی طرف ہوتا ہے نہ کہ روحانیت کی طرف۔ ہاں مستقبل میں اگر   روحانی صارفیت یا صارفی روحانیت کا کوئی نیا تصور ابھرتا ہے تو الگ بات ہے۔

عالم گیریت کا دوسرا سب سے بڑا عنصر میڈیا  ہے۔وہ اپنی سرمایہ دارانہ طاقت کا استعمال کرکے روایتی معاشروں کی    جدت کی طرف ذہن سازی کرتا رہتا ہےاور  عالمگیریت کے رجحانات کو یک رنگی  (homogenize) بخشنے میں کلیدی کردار ادکرتا ہے۔ اس لیے سرمایہ داری کو تقویت دینے والے (bourgeoning)  انٹرنیشنل میڈیا  سے روایت پسند معاشرے جو صدیوں سے  ایک   خاص عمرانی  معاہدے کے تحت چل رہے ہوتے  ہیں، ہمیشہ خطرہ محسوس کرتے ہیں۔  کیونکہ  یہ صارفیت کا استعمال کرکے  ذاتیت، انفرادی  تعیش،انا پرستی ، فوری سُرور اور دولت کی طمع کی پرورش کرتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے اندر مخصوص مذہبی اقدار اور روایات جو ذاتیت پر اجتماعیت،انفرادی  تعیش پر قومی کامیابی، انا پرستی پر قوم کے لیے قربانی، فوری سرور پر دائمی سکون  اور دولت کی طمع پر انسانی فلاح کو ترجیح دیتی ہیں؛ کے لئے ایک بڑا  چیلنج موجود ہے۔  

 بعض  مفکرین  کی  رائے  کے مطابق  عالم گیریت کا   ایک مغربیت انگیز اپروچ  بھی ہوتا ہے جو غیر مغربی ثقافتوں اور نظریات کو پسماندہ، غیر عقلی اور جدید طریقہ ہائے زندگی کے ساتھ مقابلہ کرنےکے لئے نا اہل سمجھتا ہے۔ اس کی نظر میں یہ  روایات یک ثقافتی دنیا(mono-cultural world) کی  راہ میں حائل ہیں  ۔ یہ  اپروچ  دوسری ثقافتوں اور ان کے اقدار کو عقل پر مبنی اصولِ اخلاق  کے مقابلے میں قنوطی، رُجعت پسندی  پر مبنی اور محرومی کا شکار بنا کر پیش کرتا ہے۔ عوامی سطح پر اس اپروچ کو مغربی روایات کا ایجنٹ سمجھا جاتا ہے اور یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ  غیرمغربی اقدار کو  مغربی اقدار کے ذریعے مغلوب بنایا جاتا ہے۔   جب کہ حقیقت اس سے  مختلف ہے۔مغربی ثقافت و اقدار    کسی بھی لحاظ سے غیر  مغربی ثقافت واقدار سے برتر نہیں اور نہ ہی ایسا کوئی موازنہ درست ہے۔دونوں کا اپنا اپنا رنگ اور اپنی اپنی نزاکتیں ہیں۔ جو چیز سمجھنے کی ہے وہ یہ کہ جدید انسانی  معاشرہ ایک ایسا غیر روایت پسند معاشرہ (de-traditionalized) بنتا جا رہا ہے جہاں روایت   دن بدن معدومیت کی طرف  جارہی ہوتی ہے، چاہے وہ مغربی روایت ہی کیوں نہ ہو۔ غیر روایت پسند معاشروں میں ہر چیز، بشمول  اخلاقی اصول اور ثقافتی عبادات و اعمال (practices) وغیرہ جو ماضی میں اپنے تقدس کی وجہ سے  دائرہ ِبحث   سے باہر تھیں، اب  بحث کے لئے کھلی رہتی ہیں۔  ماضی میں زندگی کے لئے نظام اور سہارے کا کام  دینے والی ان روایات کو   اب سائنسی عقلّیت   اور ذاتی آزادی کے اُن اصولوں پر پرکھا جاتا ہے جو باطنی اور غیر مادّی طریقہ ہائے بحث وتمحیص اور تصوّرِ حیات کو تسلیم ہی نہیں کرتے۔

   عالمگیریت کا   ایک اور   منفی پہلو   یہ   ہے کہ  یہ میڈیا کی مدد سے   ثقافتی انتشار(cultural decentering) کو جنم دیتی ہے۔ عالمگیریت میں   صارفیت کی جال(nexus) اور میڈیا  باہم مل کر جب  کسی ایک  زمان و مکان کی  انسانی اقدار کو حاشیے سے لگا (marginalizes)  دیتےہیں تو  نتیجے کے طور پرخود انسان بھی ایک دوسرے سے  جدا  بلکہ بعض اوقات  ایک دوسرے کے مخالف بن جاتے  ہیں کیونکہ  میڈیا کے پھیلاؤ (Proliferation) نے مارکیٹ سے ماخوذ معاشی نظام (Market driven economy)  سامنے لایا ہے  جس نے روایتی اقدار کو  اضافیت ( Relativity) کی نذر کر دی ہے  اور  ذاتی آزادی کو انسانی حقوق کا حصہ  بنا کر  پرانی ، روایتی اور موروثی اور اجتماعی اور ایگریکلچر سماج کے عطا کردہ   اقدار   کوتبدیل  یا ناقابل عمل بنا کے رکھ دیا ہے ۔   میڈیا  ایک  طاقتور آلہ ہے جو نوجوان ذہنوں کو   عالمگیر صارفی  ثقافت (Global consumer culture ) کو اپنانے کی طرف راغب کر تا ہے جس کا مقصد ایجادات کو ضرورت کی ماں  بنا کر اس طرح  قابل فروخت (commoditization) بنانا ہے جس کو خریدے بغیر فرد یا ادارہ خود کو  غیر مکمل محسوس کرے۔جس کی ایک بہترین مثال لاوڈ اسپیکر اورفوٹو گرافی کا شروع شروع میں حرام ہونا اور وقت کے ساتھ ساتھ حلال کے  دائرے  میں داخل ہونا ہے۔اب    یہ  دونوں  دو قدم آگے بڑھ کر مواقع میں تبدیل ہو چکے ہیں جن  کی ترقی یافتہ صورت ویڈیو گرافی  ہے  جس  کو مختلف چینلوں پر نشر کر کے کم و بیش ہر مسلک و مذہب استفادہ  کرتا ہے۔اس کی دوسری مثال  وہ آن لائن گیمز ہیں جن کا  مقصد ذہن کے لیے ایک  خوش کن مشغلہ  پیدا کرنا ہےجیساکہ بچوں اور نوجوانوں کے لیے  بلیو ویل اور  پب جی    اور بزرگوں کے لیے آن لائین شطرنج وغیرہ۔

 تاہم بعض مفکرین نے میڈیا کے ناظرین کو اس حد تک  مجہول ماننے سے انکار کیا ہے ۔وہ انھیں فعال اور دفاعی پوزیشن کا حامل  قرار دے کر اس نظریے کی سرے سے  تردید کرتے ہیں ۔جیساکہ فائر وال ماڈل اپروچ (Firewall model approach)  یہ تسلیم کرتا ہے کہ میڈیا اقدار کو متاثر کرتا  ہےلیکن ہر معاملے میں یہ اثرات مرتب نہیں ہوتے۔ ناظرین کی طرف سے  قومی، مذہبی اور مقامی  ثقافتی مواد میں اضافے کا ڈیمانڈ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ٹیلی ویژن کے ناظرین ان پروگراموں کو دیکھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں جن کی بنیادیں ان کی اپنی  مقامی روایات میں پیوست ہوں۔لوگ یو ٹیوب میں اپنے علاقے کی ثقافتی سرگرمیوں کو دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں  اور  اپنی مقامی زبان میں میوزک سننے کو ترجیح دیتے ہیں۔ مثال کے طور  پر نیچے دیے گئے سلمان پارس کے نغمے” کرے کرے” کےصرف ایک ورژن  کو آج کے دن تک تقریباً بارہ لاکھ مرتبہ   یو ٹیوپ پردیکھا  گیا ہے۔  ظاہر ہے یہ سارے ناظرین مقامی ہیں چاہے امریکہ میں رہتے ہوں یا  ڈومینیکا کے چھوٹے سے جزیرے میں۔

عالم گیریت کے کئی مثبت  پہلو ؤں میں سے  ایک  اس کا   کثیر الجہت  ہونا  ہے۔اس  میں مشرقیوں کے لیے  مغربی مصنوعات، موسیقی اور فیشن کو تلاش کر نے کی گنجائش کے ساتھ ساتھ مغربیوں کے لیے  مشرقی  روایات اور مصنوعات (artifacts)  کو عالمگیر بنانے کی توقعات بھی موجود ہیں ۔اس  پس منظر میں اگر ہم اپنے معاشرے کی بات کریں تو عالم گیریت نے  جہاں    ایک طرف  انگریزی زبان کو گھر گھر پہنچایا ،  ہمارے کھانے پینے کے طریقے  بدل دیے،مکانات کی ساخت کو تبدیل کیا ، یہاں تک کہ جینز  کی  پتلون اور ٹی شرٹ  کو ہماری بچیوں کے لباس کا حصہ بنایا ،   وہاں  دوسری طرف ہمارے ہنزہ کے  ” بوگیم جا گورے پھوک” اور ظفر وقار تاجؔ کے لکھے ہوئے اور سلمان پارس کے گائے ہوئے شینا  گانے ‘ ہیپھا تشار بومُس مہ خوشان  کارے کارے” کو گلگت بلتستان سے اٹھا کر  امریکہ اور  یورپ تک  پہنچایا۔ ( فیس بک اور یوٹیوب میں یہ مناظر دیکھے جا سکتے ہیں )۔   اسی طرح نگر میں کاہن (دینل) نچانے سے لے کر سندھ میں   ناگن رقص تک مشرقی  روایات میں مغربیوں کے لیے ایک کشش کی موجودگی کو نظر انداز کیسے کیا جاسکتا ہے۔ یہ  خبریں ہم آئے روز پڑھتے ہیں کہ مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی ہجرت  کی وجہ سے  یورپ کے کئی ممالک کی ڈیموگرافی تبدیل  ہوئی ہے ۔ ایشیائی ممالک میں   بین الاقوامی  مہم جوئی مثلا   پہاڑوں کی چوٹیوں کو سر کرنے اور عام  ٹوریزم انڈسٹری کو فروغ دینے میں بھی عالمگیریت کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ان سب کے ذریعے عالمگیریت نے انسانوں کے لیے بے شمار  مالی فوائد  مہیا کیے ہیں۔

 اوپر  کی پوری تفصیل  کو   اگر ہم مستقبل کے تناظر میں دیکھیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایک بہت  بڑی ٹیکنو سائنٹفک سولائزئشن(   Techno scientific civilization)نے پورے گلوب کو گھیرنا شروع کیا ہے جہاں سماجی طاقت کا پیمانہ پچھلی  ایک صدی سے   قدرتی سائنس  اور ٹیکنالوجی کے حق میں تبدیل ہو رہا ہے۔ یعنی ٹیکنو سائنس انسانی تہذیب   کے مرکز و محور بننے  کی طرف آہستہ آہستہ بڑھ رہی ہے۔ سادہ زبان میں یہ کہنا چاہیے کہ  اب  دنیا  بہت ساری مقامی ثقافتوں کے ساتھ ایک عالمی (Global ) سولائزیشن  بنتی جارہی ہے ۔اس سیاق میں  جو قومیں سائنسی طور پر آگے ہیں سماجی طاقت کا سرچشمہ بھی  وہی ہیں ۔  قدیم تاریخی  طرز پر  سمیری، بابلی آشوری   یا ما بعد کے زمانے کی مسلم تہذیب کے نام  سے کسی سولائزیشن کی قطعی  شناخت کو حتمی طور بیان کرنا   اب شاید زیادہ آسان نہیں رہا ۔ہاں البتہ چھوٹی چھوٹی مقامی ثقافتوں کی حیثیت  اور پہچان آج بھی نمایاں اور تسلیم شدہ  ہے ۔ مگر اب ان     کا کردار  عالمی ٹیکنو سائنٹفک سولائزیشن کے ڈھانچے  میں گوشت اور ہڈیوں کا ہے ۔ ایسی  دنیا میں تہذیبوں کے تصادم  کے کسی تصور کا  موجود رہنا امکان سے بعید تر  محسوس ہوتا  ہے  کیونکہ  مستقبل کی اولین ترجیح ٹیکنالوجی ہے اورٹیکنالوجی  استعمال کرنے والی  قومیں ، ممالک یا افراد  سبھی  اس  ایک ہی تہذیبی عمارت کی اینٹیں ہیں۔امیر خسرو کا یہ فارسی شعر اگرچہ تصوف میں’ ہمہ اوستی نظریے( Mono-realism)’  کی ترجمانی کرتا ہے,  تاہم میں ان کی روح سے معذرت کرکے اس کو  عالمی  ٹیکنو سائنٹفک تہذیب کے ماحول کی عکاسی کے لیے  استعمال کرنے کی اجازت چاہتا ہوں جو ایک طرح سے  مستقبل کی کنزیومر چوائس  بنتی جا رہی ہے :

من تو شدم تو من شدی ، من تن شدم تو جان شدی

تا کس     نہ گوید    بعد   ازین ، من   دیگرم   تو   دیگری ! !

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button