کالمز

میری ڈائری کے اوراق سے ——- برکولتی  کے نگینہ   کے   روبرو

تحریر : شمس الحق قمرؔ چترال

دورران ادئیگی ِ  فرائض منصبی  جہاں ہم  مدرّسین  ِسکو ل سے  ملتے ہیں ، اُن سے سیکھتے  ہیں  وہاں اُن بستیوں کے باسیوں  سے بھی   قصداً اورکبھی سہواً ملاقاتوں کا شرف  حاصل  ہوتا رہتا ہے ۔    مجھے جو لطف مختلف شخصیات  سے ملنے اور  اور اُ ن کے اندر کی  دنیا      کو  دریافت   کرنے میں  آتا ہے    وہ شاید کسی اور کام سے ممکن نہیں ۔   ہم دن میں سینکڑوں  لوگوں سے ملتے ہیں   اُن  میں دو قسم کی مقناطیست  کی حامل  شخصیات ہوتی  ہیں ایک وہ  جو آپ کو اپنے   آپ سے  دور پھینک دیتی ہیں اور ایک وہ جو     کوسوں دور سے آپ کو  اپنی طرف  کھینچتے  ہیں اور چپکا کے رکھ دیتے ہیں     ۔  یاسین برکولتی میں  آخر الذکر   قبیل  کی  ایک شخصیت سے  اتفاقی ملاقات ہوئی    اور  یوں اُن کی جاذبیت نے مجھے اپنے  دام میں ہمیشہ کے لئے  پھنسا کے رکھدیا۔    میں اُن کا اسیر سخن نہ ہوتا تو شاید    پوری زندگی   اپنی  محرومی   پرکفِ افسوس ملتا رہتا ۔

 یہ  15 اپریل،  2021کی دوپہر کا   2 بجکر  37 منٹ کا وقت تھا  جب  ہم برکولتی میں وارد ہوئے ۔  برکولتی  گاؤں میں  عجیب سا موسم تھا  ایک طرف خوبانیوں ، چیریوں اور باداموں کے درخت اُمید کے پھولوں سے اٹے دعوت  نطارہ دے  رہے تھے تو دوسری طرف خنکی کا زور اتنا  تھا کہ  یہاں کے باسیوں نے موسم سرما کے گرم لباس اب تک زیب تن کیے ہوئے تھے ۔  جس سکول میں میں دورے پر گیا  تھا اُسی  سے  مُتصل میرے ایک ہنس مکھ رفیقِ کار اسد للہ کا دولت کدہ   واقع تھا  جسکا مجھے  مطلقاً علم نہیں تھا  البتہ موصوف کو ہمارے برکولتی میں نازل ہونے کی خبر  پہلے سے ہوئی  تھی لہذا انہوں  نے اپنے گھر میں ہمارے لئے طعام  کا بندوست کیا ہوا تھا ۔ مجھے دعوت کی اطلاع ملی اور میں نے  چند اور دوستوں کی معیت   میں، جن میں  دینار شاہ ، سلیمان شاہ اور تاج عالم شامل تھے  موصوف کے دولت خانےکی راہ لی ، ہم جیسے ہی موصوف کے گھر کے قریب پہنچے  تو ایک  معمّر  مگر بے حد جاذب نظر شخصیت نے اپنے گھر کے داخلی  دروازے سے باہر آکر ہمارا پرتپاک استقبال کیا ۔ قریب قریب  6 فٹ طویل قد کاٹھ ، سنولی رنگت ، قدرے لمی ناک ، ہلکی سفید ریش ، اُبھرے اُبھرے  گالوں پر مروّر زمانہ کے آثار نمایاں ، پُر نور آنکھوں پر خلوص سے بھر پور خمدار آبرو ، ( میں اپنی زندگی میں جن جن لوگوں سے ملا ہوں میرا یہ تجربہ رہا ہے کہ جن کی آبرو خمدار ہوتی ہیں وہ لوگ اتنے ہی  شریف النفس ، پر خلوص اور انسان دوست ہوتے ہیں)  تنا ہوا سینہ ، منحنی چہرہ  داہنے ہاتھ میں لکڑی کی بنی چھڑی  پکڑے اپنی بیٹھک کی جانب ہماری راہنمائی فرمائی یہ  اسدللہ کے والد محترم بلبل نذرخان صاحب تھے جو ایک مدّت سے باہر ہمارا منتظر تھے  اس وقت آپ ماشا اللہ    زندگی کی  93  ویں بہارں سے گزر کر     94  ویں    میں قدم  رکھ  چکے ہیں ۔اُن کی چال سے معلوم ہوتا تھا کہ جیسے اُن کے گھٹنے اُن سے روٹھ گئے ہوں   پھر بھی   بڑھاپے کو  موصوف نے اپنی  مظبوط  وقوّت    ارادی سے  یکسر زیر کیا  ہوا تھا   ، ایسے شان سے    ہمارے آگے چل  رہے تھے جیسے    کوئی  تند و تیز  فوجی جوان  اپنے  چاق و چوبند دستے کی  قیادت کرتے ہوئے چبوترے کے سامنے سے گزر  رہا ہو   ۔ بعد میں معلوم ہوا کہ  وہ واقعی  پاک آرمی کے جری    فوج کا ایک سپاہی  بھی گزرے  تھے  ۔ وضع داری ، ادب   اور رکھ رکھاؤ کا یہ عالم  تھا کہ  آپ اُس وقت تک تشریف نہیں رکھے جب تک کہ ہم اپنی نشستوں پر نہ بیٹھے ۔ مجھے آپ جناب کے استقبالی مصافحے سے لیکر  وداعی معانقے  تک    اُن کے ملنے کے طور طریقوں  سے خوب اندازہ ہو چکا تھا  کہ میں ایک عام عمر رسیدہ  آدمی سےنہیں بلکہ  علاقے کے  ایک   نگینےسے  متعارف ہونے کا شرف حاصل کر رہا ہوں  جنہوں نے اپنی پوری زندگی  قوم کی تعلیم اور صحت کے لئے  جدو جہد کرتے  گزاری تھی۔    ہم جیسے ہی بیٹھے  تو میں نے   قدرے قریب جاکر   استفسار کیا "محترم  کتنی اونچی آواز  میں سن سکتے ہیں؟”  اس سوال کی وجہ یہ تھی کہ      اس عمر میں   انسان کے سننے کی صلاحیت  عموماً کمزور پڑ جاتی ہے   ۔میں سوچ رہا  تھا کہ    اگر موصوف  کی سماعت درست  ہے  تو میرا بلا وجہ  اُونچا بولنا    خلاف  ادب  عمل ہوگا  ۔ انہوں نے  جواب میں انتہائی شائستگی سے فرمایا ”   جوانی کی طرح  سماعت  تیز نہیں ہے   ”   ۔ یہ سننے کے بعد  ہم  نے  موصوف  کی سمعی استعداد  کے  عین مطابق  بات چیت شروع کی۔ آپ  کا لہجہ   عالم لوگوں کا نہیں تھا کیوں کہ  آپ جملوں  کو   زبان کی کسوٹی میں  پر تول تول کر پیش کرتے  تھے  ۔ موصوف کی نشست و برخواست سے  یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ  موصوف      جہاں دیدہ  شخص   ہیں       ۔

1927 میں پیدا ہوئے، 1950 میں نارتھرن سکاؤٹ میں ملازمت اختیار کی اور 1964 کے اوآخر میں حوالدار رینک میں سبکدوش ہوئے، 1965 میں جب ملکی حالات  دوبارمخدوش ہوئے  اور بھارت نے لاہور میں ناشتے کا  پروگرام  بنا لیا    تو ملک کے دوسرے اور ریٹائرڈ فوجیوں کی طرح پاک آرمی کو  بلبل نذر خان جیسے محب وطن سپاہی  کی خدمات کی   بھی ضرورت پیش آئی  ۔ موصوف نے  واپس  محاز  جنگ کا رخ کیا  یوں مزید     دو سالوں  تک محاز جنگ میں رہے ۔ 1967 کی شروعات میں ملک میں امن قائم ہوا تو بلبل نذرصاحب دوبارہ  گھر آئے ۔

ہم نے    جب محترم  بلبل نظر صاحب سے  اُ ن کی زندگی  کے   مدو جزر  پر  مختصر سی   گفتگو کی  کوشش   کی تو ہمیں  یہ  جان کر  خوشگوار حیرت ہوئی کہ محترم   بلبل نذر صاحب   فوجی سپاہی  ہی نہیں تھے  بلکہ ملازمت سے سبدوش ہونے  کے بعد ایک سماجی کارکن کی حیثیت سے  اپنی زندگی   قوم  کے لئے  قربان  والے   یاسین کے گنے  چنے  لوگوں میں سے ایک تھے       ۔  آپ 1967 سےسن   2000  کے پہلے دو عشروں تک سماجی کاموں میں بڑی حد تک  متحرک نظر  آتے ہیں ۔ اُس وقت حکومت وقت کی نظر میں   آپ  ایک قابل  اعتماد    شخص تھے  کیوں  زمانہ سپاہ گری  سے ہی اُن کی ہشیاری  کی کہانیاں  حکومت کی کانوں تک پہنچ چکی تھیں       ۔  ایوب خان نے   1959 ء میں  نئی حکومتی اصلاحات میں  ایک پروگرام متعارف کروایا تھا  جسے  Basic Democracy   (BD)  کہا جاتا تھا اس  پروگرام کے تحت  کسی ضلعے  میں قانون کی  عملداری   کے لئے  ضلعی  افیسر    کے ساتھ  غیر سرکاری طور پر  ایک  کمیٹی بنائی جاتی تھی جس میں با اعتماد  اور دانشمند  افراد کو ذمہ داری سونپی جاتی تھی تاکہ وہ   علاقائی اثرو رسوخ کے بل بوتے  پر   قانوں کے نفاذ میں  حکومت کے شانہ بشانہ  کام  کرتے ہوئے    عوام کے مسائل    ایوان بالا تک پہنچا سکیں    ۔ موصوف  اسی کونسل  کی متعدد بار  ممبر اور پھر   چئرمن  رہے ۔ بلبل نذر  کا ایک قصہ  یاسین  میں زبان زد خاص و عام ہے۔   صدر ایوب  خان  نے عنان  حکومت  اپنے  ہاتھ میں لینے کے بعد جمہوریت  کا ڈھونگ  رچاتے  ہوئے     مختلف  علاقوں میں ڈپٹی کمشنروں کے بھیس میں اپنے نمائندے بھیجے   ۔  بلبل نذر صاحب  ابھی ابھی    ( بی- ڈی) کے ممبر بنے تھے تو ایک    نئے ڈپٹی کمشنر  کی یاسین تقرّری ہوئی۔    اُس وقت کا ڈپٹی کمشنر آج کے چیف سکریٹری سے زیادہ    با اختیار تھے       ۔ انتظامی و استقبالی  کمیٹی  میں  موصوف  کے علاوہ   علاقے کے اور بھی شرفاء     یاسین کے ہیڈ کورٹر  ( طاؤس )   میں   ڈپٹی کمشنر کے منتظر تھے ۔ سرکار  نے   دن کے ایک بجے انتظامی کمیٹی سے ملنے کا وعدہ کیا ہوا تھا  (یاد رہے کہ  ڈپٹی کمشنر صاحب  گزشتہ دنوں  یاسین پہنچے تھے اور رنگ رلیوں میں مصروف تھے  ۔    شاید  کوئی  اوارہ  دوشیزہ ہم رکاب  تھی جسکے بارے میں  بلبل نذرصاحب کو پہلے سے علم تھا) ۔  صاحب بہادر ایوب خان کا  نمائندہ تھے اور    اپنے آ پ کو ہر سپید سیاہ کا مالک سمجھ رہے تھے  ۔صبح  آنے میں بہت دیر کی  جیسے   جیسے گھڑی کی سوئی ایک  بجا نے کے بعد اوپر ہونے لگی ویسے ویسے ویسے     وقت    کے پابند افواج پاکستان کے  بہادر سپاہی  کا پارہ  بھی اوپر  چڑھنے   لگا ۔  ڈپٹی کمشنر صاحب  دن کے دو بجے کچھ سرکاری  پیادوں کے ساتھ وار د ہوئے  تواستقبالی جماعت میں شامل بہت سوں نے  تعظیماً   سر جھکائے  رکھا       ایک  بلبل نظر  خان تھے جو کہ   سینہ تان کے کھڑے رہے  ۔  ڈپٹی کمشنر  کےلئے  سپاسنامہ   پیش ہوا   جس میں  بلبل نذر کے ایما ء پر      کچھ ضروری نکات شامل کئے گئے تھے  ۔ سپاسنامے کے  نکات پر  ڈپٹی کمشنر صاحب نے بجائے   ہامی بھرنے کے   کچھ  کرخت لہجے میں  بولا ” تم نے  جو سپاسنامہ پیش کیا  ہے   اس سے لگتا ہے کہ یہ تمہارے الفاظ نہیں ہیں  بلکہ کسی سیانے   کی کارستانی ہے ”     ۔   ڈپنی  کمشنر  کا ترش لہجہ  اور   یاسین کے لوگوں کی ذہانت پر   انگلی  اٹھا نے کی یہ ہمت    بلبل نذر خان  پر بہت گران گزری۔وزیر زادہ   فرزندِ مراد اتلیق اور  گاؤں  سندی کے   ڈاکٹر فیض اللہ   آپ کے شانہ بشانہ بیٹھے ہوئے تھے     موصوف  نے  ساتھیوں کی طرف معنی خیز نگاہوں سے  دیکھا         اور اپنی نشست سے کھڑے ہوکر   بھری محفل میں    ڈپٹی کمشنر صاحب  کی آنکھوں  میں آنکھیں ڈال کر گویا ہوئے   ” ڈپٹی صاحب  حکومت  نے آپ کو یہاں  لوگوں کے مسائل کے حل کے لئے بھیجا ہے    ۔  مجھے بہت افسوس ہے کہ آپ کو آپ کے فرائض  کا علم  نہیں ہے ۔ آپ نے  ہمیں آج  صبح  ملاقات کا وقت  دیا تھا  اور آپ  4 گھنٹے    تاخیر سے آئے  ۔    ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ  آپ لیٹ کیوں ہوئے  ۔   ہمارے جائز   مطالبات    پر اپنی کمزوری   اور نااہلی کا   نزلہ  یاسین  کے  غیرت مند  عوام پر نہ گرائیں ہم آپ جیسے افسروں کو  برداشت کرنے کے متحمل   نہیں ہیں  ”    بلبل نذر کا    نپا تلا جواب    تیر بدف ہوا تو  ڈپٹی کمشنر  نے  بھری محفل میں  وادی  یاسین  سے معافی مانگی  اور  بلبل نذر صاحب کے ساتھ    ایک مخصوص نشست کی درخواست  کی لیکن بلبل نذر نے   اسے بھی قبول نہیں کیا ۔

 صاحب موصوف کے اس دلیرانہ  قدم نے    یاسین کے باسیوں   کا دل  جیت لیا  ۔  زمانے کے لوگوں نے  اُنہیں  اپنا نجات دہندہ  قرار دیا  اور اُن سے محبت  کی  یوں   تین مرتبہ یونین کونسل  کے چئیرمن منتخب ہوئے ۔ علاقے  میں کئی ایک  سکولوں کی بنیاد رکھی  اور اُنہیں  چلانے کےلئے   شعبہ  تعلیم کا    درو دیوار کھٹکھٹاتے رہے ۔  یاسین میں کئی ایک گورنمنٹ  اور ڈی جے     سکولوں کے قیام کے لیے     اُن کی کوششیں  قابل ذکر ہیں ۔  برکولتی  میں سن 1960 کی دہائی کی    ڈسپنسری اور  ڈی جے ہائی سکول آپ کے   مرہوں ِ منت ہیں ۔ آپ کی ایک  آرزو  جو  آپ اپنی  زندگی میں  شرمندہ تعبیری  دیکھنا چاہتے ہیں وہ   آپ ہی کی  پروردہ ڈی جے ہائی سکول  کی ہائیر سیکنڈری   کے درجے تک  ترقی ہے ۔      محترم  بلبل نذر صاحب!   اللہ تبارک وتعالی ٰ  آپ کی ہر  نیک خواہش  پوری کرے  اور آپ  کو عمر نوح عطا فرمائے ۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button