کالمز

مرد بصیرت – سر سلطان محمد شاہ آغا خان سوئم

سید شفا جان گلگت

سالہا باید تایک سنگ اصلی زِ آفتاب
لعل گرو در بدخشان یا عقیق اندر یمن

(ایک قیمتی پتھر کو لعل بدخشان یا عقیق یمن بننے میں سالہاسال کی ضرورت ہے)

جدید مسلم ہندوستان کی تاریخ میں آغا خان (سوئم) ایک ایسا مقام رکھتے ہیں جو بلا مبالغہ ہر لحاظ سے منفرد و ممتاز ہے۔ یہ انفرادیت کئی قسم کے عوامل و عناصر کے ایک خوشگوار امتزاج سے پھوٹتی ہے ان میں سے کچھ فطری خوش اخلاقی کا مورثی تحفہ ہیں اور کچھ کو حالات و واقعات کے مدو جذر نے اُن پر تھوپا ہے۔ کچھ محض ذاتی قابلیت اور شدید محنت کی تخلیق کردہ ہیں اور کچھ وقت کے تقاضوں کا یلغار۔ وہ مقام جو انھیں عوامی زندگی کی سطح پر حاصل ہے، وہ پارٹیاں اور تنطیمیں جن کا وہ رہنما ہیں اور سرپرستی کرتے ہیں، وہ لمبی اننگز جو انھوں نے تاریخ کے وسیع میدان میں کھیلی ہے، حالات کی وہ بوقلمونیت جب انھیں عمل کے لئے پُکارا گیا تھا، وہ سلسلہ ہائے مسائل جن کا اُن کو سامنا تھا اور حل نکالنا تھا، عزم و حوصلے اور مصروفیات کے وہ دائرہ ہائے کار جنھوں نے انھیں شدّتِ حیات کی طرف کھینچا، وہ بھاری ذمہ داریاں جنھیں انھوں نے کامیابی سے ہمکنار کیا، مقاصد و اہداف کی وہ گونا گونی جن کے حصول کی انھوں نے جدو جہد کی، وہ اعلیٰ ترین حد تک مستعد زندگی جو انھوں نے آخری لمحے تک گزاری، ان سب عوامل و عناصر نے مل کر ان کی شخصیت کو تمام ہم عصروں کے مقابلے میں دیو قامت بنا دیا ہے۔ یاد رہے کہ اُن کے ہم عصر بھی کوئی بونے نہیں تھے۔ (KK Aziz 1998 : I)

سر سلطان محمد شاہ آغا خان سوئم نے ایسے دور میں سر زمین ہندوستان میں آنکھ کھولی جب مجموعی طور پر پورا ہندوستان اور منتخب حیثیت میں مسلم قوم آزادی کی نعمت سے محروم اور علم و دانش سے کوسوں دور کشمکش حیات سے دوچار تھی۔ دوسری طرف پوری دنیا کی مسلم قومیت بھی رو بہ ترقی ہوئی تھی اور نہ ہی ان میں ہندوستانی مسلمانوں کی مدد کا شعور و احساس اُجاگر ہوا تھا، اب کسی محمد بن قاسم، محمود غزنوی اور احمد شاہ ابدالی کے آنے کے لئے حالات بھی موافق نہ تھے، اندرونی طور پرٹیکنالوجی، معاشی طاقت، سفارتی قوت، معاشی استحکام اور عسکری طاقت سے محروم ہندوستانی مسلمان 1857ء کی بلا منصوبہ ناکام جنگ آزادی لڑکر منقار زیر پر لگا کے خاموش ہو چکے تھے اور کسی طویل المدتی منصوبے کے حامل تھے اور نہ ہی اس پر سوچ سکتے تھے۔ برٹش کالونی ہونے کی وجہ سے احساسِ غلامی نے فرد فرد کو مایوس کیا ہوا تھا۔ آغا خان سوئم کی حیات ہی میں دنیا دو بار جنگ ہائے عظیم کا شکار ہوئی اور کروڑوں انسان لقمۂ اجل بن گئے جس سے ہندوستانیوں کا براہ راست یا بالواسطہ متاثر ہوئے بغیر بچے رہنا ممکن نہ تھا۔

قرآنِ حکیم نے عمرانی درجہ بندی کے حوالے سے اولی الالباب کا ذکر کیا ہے جس سے مراد وہ لیڈرز ہیں جو موجودہ حالات کے تناظر میں مستقبل کی پیش بندی کرتے ہیں، اپنی قوم کو چیلنجز سے نمٹنے کے گُر سکھاتے ہیں، حتمی کہ منزل اُن کی دوربین نگاہوں کے سامنے ہوتی ہے، وہ حصولِ منزل کے لئے طویل المدتی اہداف مقرر کرتے ہیں اور بالآخر اپنی قوم کو منزل مقصود تک پہنچاتے ہیں۔ انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے وسط تک کے ہندوستان کے سیاق میں اگر اولی الالباب کی کوئی فہرست مرتب ہو تو ہزہائنس سر سلطان محمد شاہ آغا خان سوئم کا نام اولین نمبر پر لکھا جائے گا۔

سر سلطان محمد شاہ کی باقاعدہ ذمہ داریوں کا آغاز اُس وقت ہوا جب وہ اپنے والد کی وفات پر کچھ کم آٹھ سال کی عمر میں دنیا بھر کی اسماعیلی مسلم کمیونٹی کے اڑتالیسویں موروثی امام کے طور تخت پر براجمان ہوئے۔ کمیونٹی ممبران نے کم عمری کو رہنمائی کی راہ میں حائل سمجھا تو آپ نے اپنی پہلی ہی تقریر میں اُن کی مایوسی کو حوصلے میں بدل دیا اور فرمایا کہ اے جماعتو ! مجھے چھوٹا مت سمجھنا، میں عمر میں اگرچہ چھوٹا ہوں تاہم فہم و فراست اور شعور و دانش کے اعتبار سے بہت بڑا ہوں۔ سر آغا خان نے امامت کی ذمہ داریاں سنبھالتے ہی مریدوں کی زندگی میں دو طرح سے تبدیلی لانے کی کوشش کی۔ پہلے مرحلے میں انھوں نے خوجہ ادب، روایات اور رسومات میں سے ہندو سیاق کی آمیزش کو نکال دیا اور یوں ہندوستان کے اسماعیلی اسلام کے ایک بڑے دھارے میں اپنی شناخت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ دوسرے مرحلے میں انھوں نے کمیونٹی ممبران کے اشتراک اور تعاون سے بہت سے فلاحی ادارے قائم کئے جن میں سکول، ہسپتال، ہاؤسنگ سوسائٹیز، بنک اور انشورنس کمپنیاں شامل تھیں۔ جبکہ رابطے کے تسلسل کو آگے بڑھا کر انھوں نے ایران، شام اور سنٹرل ایشیا کے دور اُفتادہ علاقوں میں بسنے والے اسماعیلیوں کے ساتھ مضبوط تعلقات استوار کئے۔ ہندوستان سے نقل مکانی کرنے والے اسماعیلی کمیونٹی کے ممبران کو یورپ، امریکہ، کنیڈا اور خاص طور پر افریقی ممالک میں بسانے میں اُن کی خدمات بھی قابل ذکر ہیں۔ بلا شک و شبہ ما بعد کے زمانے میں دنیا نے دیکھ لیا کہ انہی کے اقدامات نے آج اسماعیلی کمیونٹی کو محنت، دیانت، باہم محبت، رواداری، عام سطح پر تعلیم و صحت کے اداروں کے قیام اور سب سے بڑھ کر انسانی خدمت کے حوالے سے بین الاقوامی شناخت دی۔ انہی کی رہنمائی کا نتیجہ ہے کہ یہ کمیونٹی اب، تکثیریت و گوناگونی، انسان دوستی، نجی سطح پر شراکت داری، اور سول سوسائٹی کے قیام جیسے اعلیٰ اسلامی و انسانی اخلاقی صفات سے مزین ہوکر افریقہ کے صحراؤں سے لیکر افغانستان اور وسط ایشیا کے تمام ممالک میں جہالت و غربت کے خاتمے کے لئے مقامی، علاقائی اور گلوبل سطح کے منصوبے چلانے کی اہل ہو چکی ہے۔ کنیڈا کے پارلیمنٹ سے لیکر جرمنی اور پرتگال میں ایک مستقل نشست برائے امامت کا وجود فی الحقیقت سر سلطان محمد شاہ کے لگائے گئے شجر صندل کی ایک شاخِ پُر مہک ہی تو ہے۔

سر سلطان محمد شاہ آغاخان سوئم کسی قوم کی ترقی کے لئے جن عناصر کو سب سے زیادہ اہمیت دیتے تھے ان میں تعلیم سرِ فہرست ہے۔ وہ تعلیم کو قومی زندگی کی روح سمجھتے تھے، وہ جانتے تھے کہ مسلمانوں کی پسماندگی کی اگر کوئی ٹھوس وجہ ہو سکتی ہے تو وہ صرف ایک ہے اور وہ ہے جدید تعلیم سے اُن کی دوری اور نارسائی۔ وہ کسی چنگاری کی تلاش میں تھے تاکہ علم کا شمع روشن کیا جا سکے۔ یہ چنگاری انھیں اُس وقت ملی جب جب 1896 میں ان کی ملاقات ایک اسّی سال کے بزرگ رہنما سر سید احمد خان سے علی گڑھ میں ہوئی اور ساتھ ہی ساتھ انھوں نے نواب محسن الملک سے دوستی قائم کی۔ ان کی شدید خواہش تھی کہ ایم اے او کالج کو یونیورسٹی بنایا جائے۔ چنانچہ انھوں نے 1902ء میں دہلی میں آل انڈیا محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کی صدارت فرمائی۔ یہ عوامی سطح پر کسی سٹیج پر ان کی پہلی آمد تھی اور کے کے عزیز کے مطابق 1936ء میں رام پور میں اسی سلسلے میں وہ آخری بار روسٹرم پہ تشریف لائے۔ اُن کی پہلی اور آخری تعلیمی کانفرنس کے درمیان چونتیس سالہ کوششوں پر مبنی دورانیہ ہے اس لمبی مدّت کے دوران علی گڑھ کالج یونیورسٹی بن گیا اور آپ اس کے پہلے پرو چانسلر بن گئے۔ مگر یہ کامیابی کسی جادو کی چھڑی سے نہیں ملتی تھی۔ ہزہائنس کو اپنی ٹیم کے ساتھ گھرگھر، گلی گلی اور شہر شہر پیسے مانگنے پڑے۔ دوست تو دوست دشمنوں کے آگے بھی اپنی کلاہ کو کشکول بنا ڈالا۔ آپ ہندوستان کے مسلمانوں کی تعلیم کے اس سلسلے کو محض ایک یونیورسٹی کے قیام تک مکمل نہیں سمجھتے تھے بلکہ ان کی 4 ؍ دسمبر1911ء کی دھلی میں تقریر سے صاف طور پر عیاں ہے وہ چاہتے تھے کہ تعلیم کا ایک مکمل نظام قائم ہو، ملک کے گوشے گوشے میں پرائمری اور ثانوی سکولوں کے ساتھ کالجوں کا قیام بھی عمل میں لایا جائے اور انھیں علی گڑھ یونیورسٹی سے مربوط کیا جائے تاکہ بہت سارے مردانِ علم(men of learning) پیدا ہوں۔ آپ نے اپنی تقریروں میں سائنسی علوم کے حصول کا شدید الفاظ میں مطالبہ کیا اور فرمایا کہ اگر ہمارے لوگ سائنس کی تعلیم اُس کی حقیقی روح کے ساتھ حاصل کریں گے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک کا صنعتی اور معاشی مستقبل ہمارے ہاتھوں میں ہوگا۔ آپ نے تعلیم کی مذہبی اور سائنسی تقسیم کو یکجا کرنے پر زور دیا اور کہا کہ سائنس کا مطلب قوانینِ فطرت کی سمجھ حاصل کرنا ہے۔ اُن کا یہ موقف تاحیات جاری رہا۔ آپ نے پاکستانی یونیورسٹیوں کو مشورہ دیا کہ اعلیٰ ترین سطح پر مسلم فلسفہ اور سائنس کی مشترکہ ڈگری پروگرام سے طلبا کو گزار کر حقیقی معنوں میں علماء(Scholars) بنایا جائے۔ اگر دونوں گروہوں کی الگ الگ تعلیم ہوئی تو اس کی مثال روح اور جسم کی علٰحیدگی کی طرح ہوگی۔ یہ سلطان محمد شاہ کی شخصیت ہی تھی جس نے پہلی بار ہندوستا ن میں علی گڑھ یونیورسٹی کے لئے رقم کی فراہمی کے نام پر تعلیم کی اہمیت سے غریب اور کمزور و ناتواں طبقے کو آگاہ کیا اور ان میں یہ ذہنی تبدیلی لائی کہ تعلیم صرف امراء کا امتیاز نہیں غرباء کا حق بھی ہے۔

جب آپ تعلیم کی بات کرتے یا اُس کے لئے اقدامات کرتے تو مجموعی انسانی تعلیم کی ہدایت فرماتے جس میں تعلیم نسواں بھی شامل ہوتی۔ تعلیم نسواں کے معاملے پر آپ کسی قسم کے سمجھوتے کے لئے تیار نہ تھے۔ آپ نے فرمایا کہ ذاتی طور پر، اگر میرے دو بچے ہوتے اُن میں سے ایک لڑکا اور دوسری لڑکی ہوتی اور اگر میری مالی حیثیت اُن میں سے صرف ایک کو تعلیم دینے کی ہوتی تو میں اس بات میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتا کہ اپنی بچی کو اعلیٰ تعلیم دلاتا۔ اسی مقصد کے پیش نظر آپ کی امامت کے ڈائمنڈجوبلی فنڈ سے سندھ، گوادر، گلگت بلتستان اور چترال جیسے دور اُفتادہ علاقوں میں ڈائمنڈ جوبلی سکول قائم ہوئے جن کی پیداوار خواتین آج اکسفورڈ اور میساچوسٹ تک پہنچ چکی ہیں۔ انھوں نے فرمایا کہ حیاتیاتی طور پر مرد کی نسبت عورت انسانی نسل کے لئے بہت اہم ہے۔ ایک متوسط عورت اپنی روزی ایسے ہی کما سکتی ہے جیسے مرد مگر اضافہ یہ کہ وہ ایک نسل کی زندگی کی محافظ بھی ہوتی ہیں ۔۔۔ تجربات نے اس مضبوط امکان کو سامنے لایاہے کہ آزاد اور مساوات پر مبنی معاشرے میں عورت کا فعال اثر نہ صرف خانگی سطح پر عملی ترقی لاتا ہے بلکہ اُنہی کی وجہ سے پوری ریاست میں بھی ایک اعلیٰ اور باعزت نمونہ عمل سامنے آتا ہے ۔۔۔ اس حقیقت کو کوئی بھی ترقی پسند چیلنج نہیں کر سکتا کہ جس معاشرے میں مصنوعی رکاوٹوں اور تنگ نظر طے شدہ فیصلوں کے ذریعے خواتین کو ان کے مکمل اختیارات اور شہریت سے محروم نہ رکھا جائے وہاں قوموں کی ترقی فلاح و بہبود عظیم تر ہو جاتی ہے۔ (انڈیا ان ٹرانزیشن1918)

ہندوستانی خواتین کے سیاسی حقوق کے حصول کے لئے بھی آپ نے زور دار آواز اُٹھائی۔ آپ نے فرمایا، برطانیہ دوسری جنگ عظیم میں فتح یاب نہیں ہو سکتا تھا اور نہ ہی روس میں انقلاب برپا ہوتا جب تک کہ وہاں کی خواتین نے اپنا حصہ بھرپور طریقے سے ادا نہ کیا ہوتا۔ ہزہائنس نے ہندوستانی خواتین کو ووٹ کا حق دلانے کے لئے تقریری اور تحریری دونوں اعتبار سے بھر پور کوشش کی۔ ان کی نظر میں خواتین کی شرکت کے بغیر کسی اسمبلی کے وجود اور قانون سازی کا آگے بڑھنا یہاں تک کہ ملک کی بقا کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ہزہائنس سر سلطان محمد شاہ آغا خان سوئم نے فرمایا ہمیں کسی ایسے آزاد اور خود مختار ملک کی تعمیر نہیں کرنی چاہئیے جس کی بنیاد کمزور ہو اور یکطرفہ طور پر رکھی گئی ہو۔ مجھے یقین ہے کہ وہ اسمبلی جس کے انتخاب میں خواتین نے اپنا پورا پورا کردار کیا ہو، زندگی کے حقیقی مسائل کو حل کرنے میں مددگار ہو سکتی ہے بہ نسبت اُس اسمبلی کے جس کو یکطرفہ طور پر مردوں نے وجود میں لایا ہو۔ (جوہانبرگ تقریر 12 ؍ اگست 1945)

ہزہائنس سر سلطان محمد شاہ آغا خان سوئم کا قومی سیاست میں کردار کسی سے چھپا ہوا نہیں۔ انھوں نے آل انڈیا مسلم لیگ کے مستقل صدر کی حیثیت سے کئی سالوں تک قوم کی قیادت فرمائی۔ اپنی اس قیادت کے دوران آغا خان نے جو سب سے بڑی کامیابی حاصل کی وہ انگریز عوام کے دلوں میں ہندوستانی عوام کے لئے محبت پیدا کرنا تھا۔ اس مقصد کے لئے انھوں نے انگریز حکمرانوں کے خلاف علمی اور سفارتی میدان میں باقاعدہ جنگ لڑی، آپ نے ملک کے بڑے بڑے اخبارات میں مضامین لکھے، رائے عامہ کو ہموار کیا، اپنے ذاتی تعلقات اور دوستی کو استعمال کیا،یہاں تک حکومتِ برطانیہ اور وائسراے مجبور ہوئے کہ ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے علٰحیدہ انتخابی حق کو تسلیم کریں۔ آل انڈیا مسلم کانفرنس کے بانی اور صدر رہے۔ لندن مسلم لیگ کے سرپرست کی حیثیت سے کام کیا۔ 1906ء میں شملہ وفد کی قیادت فرمائی۔ تین بار گول میز کانفرنسوں میں مسلمانوں کی قیادت فرمائی۔ اپنی سیاسی قیادت کے دوران وہ ابتدائی طور پر پوری ہندوستانی قوم کی آزادی کے حامی تھے اور ایک وفاقی اکائی کو تمام مسائل کا حل سمجھتے تھے لیکن جب ان کے اس نظریے کو مکمل پزیرائی حاصل نہ ہو سکی تو انھوں نے نہایت مدلل انداز میں دو قومی نظریے کو آگے بڑھایا۔ اب انھوں نے یہ اعتراف کر لیا تھا کہ دو قومی نظریہ ہی در حقیقت 1902ء کی ان کی اس خواہش، کہ حکومتِ برطانیہ مسلمانوں کے ایک آزاد سیاسی وجود کو تسلیم کرے، کی تکمیل کا راستہ تھا جس نے بالآخر پاکستان جیسے ملک کو سامنے لایا۔ 1950ء میں آپ پاکستان آئے آپ نے ملک کے سربراہان کو مشورہ دیا کہ انگریزی نہیں تو کم از کم عربی کو قومی زبان بنایا جائے۔ کیونکہ عربی اسلامی ممالک اور عرب مسلمانوں کے ساتھ تجارتی تعلقات میں مددگار ہوگی۔

انٹرنیشنل سطح پر آپ تمام مسلمان ملکوں کے باہمی تعلقات کے حامی تھے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے آپ نے کئی ملکوں کا دورہ کیا۔ ترکی کے حالات سے آپ کو کافی پریشانی ہوئی۔ ہز ہائنس کی خواہش تھی کہ عثمانی خلافت کا کم از کم علامتی وجود بحال رہے جو عالم اسلام کو مربوط رکھنے کا سبب بنے گی۔ آپ نے بین الاقوامی سطح پر تخفیف اسلحہ کے لئے بھی آواز اُٹھائی۔

سلطان محمد شاہ آغاخان سوئم بیک وقت ایک قوم پرست ہندوستانی ایک مسلمان لیڈر اور ایک بین الاقوامی شہری تھے۔ لِہٰذا جب وہ مسائل پر گفتگو کرتے، کوئی حل تجویز کرتے یا کوئی بیان جاری کرتے تو ان میں یہ تینوں عناصر موجود ہوتے۔ مثال کے طور پر ایک ہندوستانی کی حیثیت سے انھوں نے ہندؤں کے حقوق کے لئے آواز اُٹھائی، وہ چاہتے تھے کہ علی گڑھ کی طرز پر ایک ہندو یونیورسٹی بھی معرض وجود میں آئے۔ ہندوستان کی تاریخ میں کسی مسلمان کی طرف سے ہندؤں کے حق میں اُٹھائی جانے والی یہ پہلی طاقتور آواز تھی۔ بنارس کی ہندو یونیورسٹی کے وفد کو خوش آمدید کہتے ہوئے انھوں نے اس خیال کا اظہار فرمایا تھا کہ ہندوستان جیسے وسیع و عریض ملک میں ہر وہ تحریک جو عظیم تر دانشورانہ اور عقلی رنگا رنگی پھیلا سکتی ہو فی الحقیقت اس ملک کو علمی و عقلی گوناگونی کے لحاظ سے مزید قوت بخش بنانے کا سبب بنے گی۔ ایسے مراکزِ علوم (centres of learning) ہی وقت آنے پر ایک ایسے نئے ہندوستان کو جنم دیں گے جہاں انسانوں میں باہمی صبر و تحمل اور عزّت و احترام ہوگا۔ ہزہائنس نے ہندوستان میں اُچھوت ہندو قوم کی تعلیمی ترقی نہ ہونے پر شدید احتجاج کیا، انھوں نے اچھوت کہلانے کی بنیادی وجہ ہی غربت کو قرار دیا اور حکومتِ برطانیہ سے مطالبہ کیا کہ ماہرینِ زراعت کی خدمات ہندوستانی مزارعین کے لئے بھی ہمہ وقت حاصل ہونی چاہئیے تاکہ انھیں جدید زراعت کے طریقوں اور زرعی اجناس کے کاروبار کا گُر سکھایا جا سکے۔ اس مقصد کے لئے چھوٹے پیمانے کی مالی سوسائٹیاں قائم کرکے کمزور کاشتکاروں کی مالی معاونت کی جائے اور غریب طبقوں کو بہتر معیارِ زندگی کی طرف گامزن کیا جا سکے۔

ہز ہائنس سر سلطان محمد شاہ آغا خان سوئم نے جس ماحول میں زندگی گزاری اُس کا اگر مجموعی اسلامی نقطۂ نگاہ سے جائزہ لیا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ اسلامی فکر جدید خطوط پر استوار ہو رہی تھی۔ آپ کے ارد گرد جن نامور شخصیات کا مجموعہ تھا اُس میں شاہ ولی اللہ (1702 – 63) کا نام سرِ فہرست ہے اُن کے گزرے ہوئے ابھی پوری صدی بھی نہیں گزری تھی۔ وہ ایک روشن خیال سنی مفکر گزرے تھے۔ انھوں نے اپنے علمی جستجو کے ذریعے اجتہاد کے قرونِ وسطیٰ کے قدامت پسندوں کے ہاتھوں بند دروازے کو پھر سے کھولنے کی کوشش کی۔ ان کی نظر میں اسلام کا نظام عدل یہ تھا کہ مالی لحاظ سے مساوات پر مبنی معاشرہ قائم کیا جائے۔ شاہ ولی اللہ کی تعلیمات کی صدائے بازگشت ابھی مدہم نہیں ہوئی تھی کہ سرسید احمد خان (1819 – 98) کسی حد تک معتزلی تصورات سے فیضیاب ہو کے سامنے آئے اور اسلام کے تمام قوانین و تعلیمات کو فطری قوانین کے تابع بنا کر پیش کیا، سرسید کی موافقت، مخالفت میں دلائل کی سیاہی ابھی خشک نہیں ہو پائی تھی کہ سید امیر علی (1849 – 1928) ایک شیعہ اثناعشری مفکر سامنے آئے وہ ایک فقیہہ، جج اور مورخ تھے، انھوں نے مغربی مشنری پروپیگنڈے کا جواب ایک غیر روایتی اور جدید اسلامی تشریح کے ذریعے دی۔ بعد ازاں علامہ محمد اقبال ایک جدید مسلمان فلسفی کی حیثیت سے اُبھرے وہ ایک بڑے قومی شاعر بھی تھے جنھوں نے ایک کائناتی حرکت کے ساتھ انسانی انفرادی ترقی کو ہم آہنگ کرکے یہ نظریہ سامنے لایا کہ فرد اپنی روحانی ترقی کے ذریعے خالق حقیقی میں شامل ہو سکتا ہے۔

اس پورے پس منظر میں سر آغا خان کے اسلام کے بارے میں نظریات کا تعین کوئی زیادہ مشکل کام نہیں۔ آپ ایک لبرل اسلام کے حامی تھے جو معاشرے میں ہم آہنگی، انسان دوستی اور معاشی مساوات قائم کرنے میں مددگار ہو۔ ذاتی تلاش کے حوالے سے آپ مسلم تصوف پر پورا یقین رکھتے تھے کیونکہ ان کی ابتدائی تعلیم میں بھی جیساکہ انھوں نے اپنی آپ بیتی میں بیان کیا ہے، رومی اور حافظ کا اثر مادری وراثت میں ملا تھا۔ سر آغا خان دین اسلام کو دین فطرت سمجھتے تھے۔ ان کی نظر میں اسلام کے تمام قوانین فطرت سے ہم آہنگ ہیں اور یوں اسلام ایک عقلی دین بھی بن جاتا ہے کیونکہ اسلام کے سارے اصولوں میں عقل کی کارفرمائی کو نظر انداز نہیں کیا سکتا۔ تصوف کے حوالے سے وہ جب فرماتے ہیں کہ”In Him (God) we live and move and have our being … And God is the sustainer.” تو وحدت الوجودی تصوّف پوری جامعیت کے ساتھ سامنے آتی ہے۔ ان کے مطابق خدائی پیغام کا خلاصہ یہ ہے کہ اپنی روح کو قادر مطلق اور کل کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی جائے۔

ہزہائنس کو کامل یقین تھا کہ اسلام میں تحقیق و جستجو کا دروازہ کبھی بند نہیں ہو سکتا۔ لِہٰذا اجتہاد کا عمل رک نہیں سکتا، ہر دور کے لوگ اپنے زمانے کے حالات کے تناظر میں اجتہاد کر سکتے ہیں۔ تاہم آپ فرقہ واریت کے شدید مخالف تھے۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button