ڈی جی سول سروسز اکیڈمی عمر رسول کے نام کھلا خط
تہذیب حسین برچہ
امید ہے کہ اس سے قبل آپ کو پاکستان کے نامی گرامی افسر شاہی کے خطوط ہی موصول ہوئے ہوں گے اور ان میں آپ کی شخصیت، صلاحیتوں اور خدمات پر خوب روشنی ڈالی گئی ہوگی مگر ایک کم فہم قلمکار کے خط نے کبھی آپ کی بصارتوں سے گزرنے کا شرف حاصل کیا ہو گا یا نہیں اس حوالے سے کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہو گا۔ میں اس خط میں آنجناب کی شخصیت پر خوب روشنی ڈالتے ہوئے لفاظی کا سہارا لے کر توجہ مبذول کرنے کی کوشش کروں گا اور نہ ہی آپ کی صلاحیتوں اور خدمات کا بلا وجہ پوری قوم کو مقروض قرار دے کر من پسند آسامی پر تعینات ہونے کے لیے سر پر دست شفقت رکھنے کی گزارش کروں گا کیونکہ سوات کی دیودار کی لکڑی سے آراستہ دیواروں، چینی رولر بلائنڈز پردوں اور ایرانی قالینوں سے مزین آپ کے دفتر میں کینڈین ڈپلیکس کمپنی کی کرسی کے سامنے پڑی ہوئی ٹیبل کے دراز ایسے خطوط سے بھرے پڑے ہوں گے۔
گزشتہ دنوں سول سروسز اکیڈمی کی تقسیم انعامات کی تقریب میں آنجناب نے وزیر اعظم عمران خان کی موجودگی میں نوجوان افسران کو نہ صرف بیسٹ آف دی بیسٹ اور کریم آف دی نیشن بلکہ ارسطو ثانی تک قرار دیا اب راقم جیسا ایک کم علم قلمکار ان نوجوانوں کی فکری اڑان پر رشک، حسد یا تمنا ہی کر سکتا ہے مگر آپ کی طبیعت پر گراں نہ گزرے کچھ گزارشات کرنے کی جسارت کروں گا۔ جناب! تاریخ کے مضمون کا بنیادی مقصد ماضی کے جھروکوں میں جھانک کر اقوام کی خوبیوں اور خامیوں دونوں کا جائزہ لے کر مستقبل کی راہوں کا تعین کیا جاتا ہے مگر ہمارے دیس میں ایک بڑی مشکل ہے۔
من گھڑت اور من پسند تاریخ لکھوائی اور پڑھائی گئی جس کے سبب ہمارے بچے یہی من گھڑت تاریخی قصے رٹ رٹا کر روبوٹ کی طرح بن گئے ہیں۔ حضور! ہم تمام مصلحتوں سے بالاتر ہو کر تاریخ کے اوراق کو اٹھا کر دیکھیں تو برصغیر میں برٹش سول سروس جوائن کرنے والے جوانوں کو خاص طور پر باور کرایا جاتا کہ وہ حاکم ہیں اور محکوم قوم پر حکمرانی کے واسطے آئے ہیں ان کے دفاتر کی تزئین و آرائش اور بڑے بڑے میزوں پر براجمان برطانوی جھنڈا ریاست کی ہیبت کا عکاس ہوتا جو مقامی افراد پر رعب و دبدبہ قائم رکھنے کے لئے کافی ہوتا تھا۔
شاید آپ کی سول سروسز اکیڈمی آج بھی اسی ڈگر پر چل رہی ہے جس کے سبب آج آپ کے زیر تربیت رہنے والے کریم آف دی نیشن افسر ان کے حرکات و سکنات میں ان اثرات کو واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔ بڑی بڑی عالی شان گاڑیاں، عمدہ تزئین و آرائش سے آراستہ دفاتر و محلات اور محافظوں کی فوج رعب و دبدبہ اور شان و شوکت میں اضافہ تو ضرور کرتے ہیں لیکن سائل اپنے چھوٹے سے چھوٹے کام کو حل کرانے کے لئے در بدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
آپ سے عرض کرتا چلوں پاکستان کے معرض وجود میں 74 سال بعد آج ملک کے سرکاری ادارے تباہی کے دہانے پر ہیں اور ان کی کارکردگی شرمناک ہے، خارجہ پالیسی میں چین کے علاوہ کوئی ہمیں منہ نہیں لگاتا، بیڈ گورننس سے متعلق مسائل روز بہ روز بڑھ رہے ہیں اور کرپشن کے حوالے سے عالمی رینکنگ میں ہم 124 ویں نمبر پر ہیں اگر آپ سے گزارش کروں تو آپ کے بقول لائق، صدیق اور حق پرست افسر شاہی نے گزشتہ 74 سال میں صرف سرکاری اوراق سیاہ کر کے ملکی خزانے کو گدھ کی طرح نوچ کھانے کے علاوہ آ کر کون سا کارنامہ سر انجام دیا ہے؟ ملک کو تباہی کے دہانے پر پہنچانے میں ان کا بھی کردار ضرور شامل ہو گا کیونکہ اپنی نوکری بچانے کے چکر میں سیاستدانوں کے ہر جائز ناجائز عزم کو پورا کرنے میں یہ ان کے مددگار رہے ہوں گے اور ترقی و مراعات کے چکر میں چاپلوسی اور خوشامد کے تمام حدود پار ضرور کیے ہوں گے۔
حضرت کو میری باتیں اگر تلخ نہ لگیں تو ایک زاویے سے آپ کی بات پر غور کروں تو جن نوجوان افسر ان کو آپ نے ارسطو ثانی اور صدیقین قرار دیا بے شک وہ ملک کے بڑے بڑے اور اعلیٰ تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل ہوں گے۔ انگریزی زبان میں ان کی مہارت کا زمانہ معترف ہو گا۔ انگریزوں کے لہجے میں فن خطابت کے ہنر سے بھی خوب آشنا ہوں گے مگر عرض کرتا چلوں۔ انگریزی زبان میں مہارت رکھنے سے کوئی شیکسپئر بن سکتا ہے اور نہ ہی یونانی زبان بولنے اور لکھنے پر دسترس رکھنے پر کوئی ارسطو بن سکتے ہیں۔
روسی زبان میں مہارت رکھنے سے لیو ٹالسٹائی بن سکتے ہیں اور نہ ہی جرمن زبان پر مہارت رکھنے سے کوئی فرانز کافکا بن سکتا ہے۔ یہ وہ تخلیقی اذہان تھے جنہوں نے نئے افق، نئے امکانات اور نئی منازل تلاش کیں جبکہ دوسری طرف نئے راستے تلاشنے کی صلاحیت سے محروم، بنے بنائے راستوں پر گامزن اور اے سی آر اور مراعات کی فکر میں سدا غرق رہنے والے اذہان سرکاری اوراق ضرور سیاہ کرتے ہیں مگر قوم کو تقلید سے نکال کر ترقی کی راہوں پہ گامزن کرنے، تبدیلی اور تغیر کو روبہ عمل لانے، نئے معاشرے کی تعمیر اور اخلاقی تربیت میں ان کا کوئی کردار نہیں ہوتا۔
آپ کی تقریر فن خطابت کے اعتبار سے اچھی تھی اور باڈی لینگوئج نے اس پر جیسے چار چاند لگا دیے۔ جبکہ آپ کی تقریر سن کر اقوام متحدہ میں اعتماد کے ساتھ تقریر کرنے والے غربت کے دلدل میں پھنسی قوم کے 69 سالہ ہینڈسم وزیر اعظم عمران خان نے بھی خوش ہو کر دل میں کہا ہو گا ”موگیمبو خوش ہوا“۔ نیز آپ نے اپنی تقریر میں عربی زبان میں روانی سے قرآن کی کچھ آیتوں کا حوالہ بھی دیا جس سے ایک لمحے کے لیے مجھے لگا جیسے میں کسی مدرسے کے خطیب کی وعظ سے فیض یاب ہو رہا ہوں مگر عرض کرتا چلوں کہ قرآنی آیتوں کی تلاوت سے آپ اس ملک میں ایک مذہبی اور صاحب ایمان شخصیات کی صف میں شامل ہوسکتے ہیں اور ترقی کی مزید راہیں بھی خوب ہموار ہوتی ہیں لیکن ان آیتوں کی تعلیمات کا اس قوم کی اخلاقیات پر کچھ اثر نہیں پڑتا جبکہ افسران کو بدعنوانی اور لقمہ حرام کے اثرات سے آگاہ کرنے لیے سی ایس ایس ٹیسٹ کورس میں اردو کے مضمون میں شامل بانو قدسیہ کا ”راجہ گدھ“ آج تک ان کا بال بھی بیکا نہیں کر سکا۔
یہاں ایک اور گزارش کرتے ہوئے اپنی باتوں کا رخ اختتام کی جانب موڑ لوں کہ آپ کی سول سروسز اکیڈمی میں تربیت حاصل کرنے کے بعد کریم آف دی نیشن جب کسی ادارے میں تعینات ہوتے ہیں تو مکمل طور پر خود کو مالک مختار تصور کرتے ہیں اور ایک لمحے کے لئے بھی یہ نہیں سوچتے کہ ریاست نے ان کو تمام سہولتیں عوامی خدمت کے لئے فراہم کی ہیں مگر یہ سرکاری امور کی انجام دہی اور عوام کے ساتھ رویے کے ذریعے سے اپنی اخلاقی گراوٹ اور تربیت سے عاری ہو نے کا پول کھول دیتے ہیں کہ ان کی گھریلو یا سول سروسز اکیڈمی تربیت میں ضرور کوئی کوتاہی برتی گئی ہو مگر جناب!
عمدہ سوچ کی توقعات فکری لحاظ سے بلوغت کے درجے پر پہنچے معاشرے سے وابستہ کی جا سکتی ہیں جبکہ ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ تعلیمی ادارے رنگی برنگی ڈگریاں تقسیم تو کر رہی ہیں اور لوگ کسی نہ کسی طرح روزگار کے حصول میں بھی کامیاب ہو رہے ہیں لیکن تعمیری سوچ اور اخلاقی تربیت کا سرے سے فقدان ہے اور ہم دور حاضر میں بھی تربیت کے ذریعے فکری جمود کے بتوں کو پاش پاش کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں۔ یہاں پر میں سول سروسز اکیڈمی میں آپ کی طرف سے متعارف کرائے گئے اقدام کا ضرور ذکر کروں گا جس میں اکیڈمی میں تربیت کے لیے آنے والے نئے افسر ان پہلے دو ہفتے میں اخوت فاؤنڈیشن کے غریب طلبا کے ساتھ کچھ وقت گزارتے ہیں یقیناً یہ نہایت خوش آئند اقدام ہے۔ مزید برآں، مستقبل میں سول سروسز اکیڈمی میں افسروں کو محض عوام پر حکمرانی کے گر سکھانے کی بجائے ان کی اخلاقی تربیت پر خاص توجہ دی جائے اور ان کی اس طرح تربیت ایسے کی جائے
کہ وہ عام جنتا کو انسان سمجھ کر ان سے انسانوں کی طرح ہی سلوک روا رکھ سکیں۔