کالمز

نیا قانون:  منگو کوچوان اور عبوری صوبہ 

تحریر ۔ اشفاق احمد ایڈوکیٹ

1857 کی جنگ آزادی ہند کو کچلنے کے بعد تاج برطانیہ نے مغلیہ سلطنت کے آخری بادشاہ بہادر شاہ ظفر کو رنگون کے ایک جیل میں مرتے دم تک قید کر دیا –

رنگوں کے اس زندان  میں مرنے سے قبل بہادر شاہ ظفر نے انسانی روح کو ہلا دینے والی شاعری کے زریعے اپنی بے بسی اور بدنصیبی کا زکر ان الفاظ میں کیا.

کتنا ہے بدنصیب ظفر دفن کے لیے

دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں،

یعنی انسان پر جب برا وقت آتا ہے تو اس کے اثرات ناقابل یقین ہوتے ہیں اور وسیع عریض سلطنت کے حامل بادشاہوں کو بھی اپنے ملک میں قبر کے لئے دو گز  زمین تک میسر نہیں ہوتی ہے.

انڈیا میں تعینات انگریز سیکریٹری آف سٹیٹ فار  انڈیا Earl Stanley نے برطانوی پارلیمنٹ کو جنگ آزادی ہند کے اس واقعے کے بارے میں رپورٹنگ کرتے ہوۓ اسے بغاوت کا نام دیا –

 اس کے بعد برطانوی لکھاریوں نے اسی اصطلاح کا استعمال کیا جبکہ دوسری طرف مشہور فلسفی کارل مارکس نے اسے جنگ آزادی ہند کا نام دیا اس کے بعد ہندوستان کےمقامی تاریخ دانوں اور دانشوروں نے اس واقعہ کو جنگ آزادی ہند کہا حالانکہ اس جنگ میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے جنگ میں شامل ہندوستانیوں کو بری طرح شکست دیکر بہادر شاہ ظفر کی حکومت کا خاتمہ کردیا تھا –

اس جنگ کے بعد اگست 1858 میں برطانوی پارلیمنٹ نے اعلان ملکہ وکٹوریہ کے ذریعے ایسٹ انڈیا کمپنی کا خاتمہ کیا اور ہندوستان کو براہ راست تاج برطانیہ کے سپرد کردیا.

 کہا جاتا ہے کہ جنگ آزادی ہند میں قتل عام کے بعد باقی زندہ بچ جانے والے مغلیہ سلطنت کے شہزادوں کو بہت زیادہ سختیاں اور  تکالیف جھیلنی پڑی اور انہیں زندہ رہنے کیلے محنت مزدوری کرنی پڑی۔

منگو کوچوان بھی مغلیہ سلطنت کا ایک شہزادہ تھا لیکن جب تقدیر نے پلٹا کھایا تو وہ ایک شہزادے سے کوچوان بن گیا اس لئے منگو دل ہی دل میں انگریزوں سے سخت نفرت کرتا تھا کیونکہ انگریزوں نے اس کے ملک پر قبضہ کر لیا تھا.

مشہور ترقی پسند لکھاری سعادت حسن منٹو اپنے افسانے نیا قانون میں لکھتے ہیں کہ” ایک روز کچہری( عدالت) سے دو سواریاں استاد منگو کی ٹانگہ گاڑی میں سوار ہوۓ اور ان کی گفتگو سے منگو کو پتہ چلا کہ ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہیں رہی-

منگو کوچوان  ہر دن اپنے دیگر تانگے والے دوستوں سے اس نئے قانون پر تبادلہ خیال کرکے بہت خوشی محسوس کرتا تھا ۔ جس طرح گزشتہ چند سالوں سے گلگت بلتستان میں کچھ لوگ سرتاج عزیز کمیٹی رپورٹ میں تجویز کردہ نام نہاد عبوری صوبہ کا راگ الاپتے ہوۓ خوشی محسوس کرتے ہیں.

نئے قانون کے نفاذ سے کیا ہر چیز بدل جائے گی؟-

ان سواریوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابل  بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔ –

منگو نے اپنے دوستوں کو بتایا کہ میں نے سنا ہے پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔

پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا چونکہ  وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو یقین تھا کہ اس کی آمد پر جو چیزیں نظر آئیں گی ان سے اس کی آنکھوں کو ضرور ٹھنڈک پہنچے گی۔

انتظار کی گھڑیاں بلا آخر ختم ہوئی اور ایک دن منگو کوچوان کو کسی سے پتہ چلا کہ نیا قانون آگیا ہے ۔ جو کہ انڈین ایکٹ 1935کہلاتاہے۔

پہلی اپریل کو صبح سویرے استاد منگو اٹھا اور اصطبل میں جاکر تانگہ تیار کیا اور باہر نکل گیا، اس کی طبعیت آج غیر معمولی طور پر مسرور تھی، وہ نئے قانون کو دیکھنے والا تھا۔ادھر ادھر گھومتے ہوئے کافی دیر ہوگئی مگر منگو کو کچھ نیا نہیں دیکھائی دیا ۔ پھر اسے ایک سواری چھاؤنی کی ملی اس نے اندازہ لگایا کہ وہاں سے نئے قانون کا کچھ پتہ چل جائیگا۔

 چھاؤنی سے اسے ایک گورے نے اشارے سے اپنی طرف بلایا – منگو کو گوروں سے نفرت تھی اس لئے پہلے تو منگو نے سوچا کہ گورے کو صاف منع کرے پھر سوچا آج  گوروں سے اچھے پیسے لیکر رہوں گا ،چونکہ نیا قانون آنے کے بعد گوروں کی حکومت ختم ھونی ہے۔

 صاحب بہادر کہاں جانا مانگتا ہے؟منگو نے طنزیہ انداز میں پوچھا۔  گورے نے کرایہ پوچھا تو منگو نے زیادہ کرایا مانگا، گورے نے منگو کو  برا بھلا کہا اور تلخ کلامی ہوئی تو گورے نے اپنی چھڑی سے منگو کو تانگہ سے نیچے اترنے کا اشارہ کیا اور چھڑی سے منگو پر وار کیا-

 پھر کیا تھا منگو کا گھونسہ کمان میں سے تیر کی طرح اوپر اٹھا اور گورے کی ٹھڈی کے نیچے جم گیا۔ دھکا دے کر منگو نے گورے کو پیچھے ہٹایا اور دھڑا دھڑ پیٹنا شروع کردیا۔

گورے نے زور زور سے چلانا شروع کیا ۔اس چیخ و پکار نے استاد منگو کی بانہوں کا کام تیز کردیا۔ وہ گورے کو جی بھر کر پیٹ رہا تھا اور ساتھ ساتھ یہ کہتا جاتا تھا؛پہلی اپریل کو بھی وہی اکڑفوں۔۔پہلی اپریل کو بھی وہی اکڑفوں۔۔۔اب ہمارا راج ہے بچہ .

وہ دن گزر گئے جب خلیل خاں فاختہ اڑایا کرتے تھے۔

اب نیا قانون ہے میاں ۔نیا قانون ! شور شرابا سن کر پولیس نے  منگو کوچوان کو گرفتار کرکے تھانے لے گئے۔

راستے میں اور تھانے کے اندر کمرے میں منگو کوچوان نیا قانون  نیاقانون چلاتا رہا مگر کسی نے ایک نہ سنی۔

 نیا قانون نیا قانون کیا بک رہے ہو؟ پولیس نے منگو کو  ڈنڈے سے مارتے ہوئے کہا شور مت مچاؤ۔ قانون وہی ہے پرانا۔اور استاد منگو کو حوالات میں بند کردیا گیا.

دوسری طرف عبوری صوبہ کے نام پر گذشتہ چند سالوں سےگلگت بلتستان کے کچھ  سیاسی کارکنوں کی کفیت بھی منگو کوچوان جیسی ہوگئی ہے –

اس لئے  وہ دن رات سرکاری بیانیہ پر مبنی عبوری صوبہ کا راگ الاپ رہے ہیں حالانکہ  سرتاج عزیر کمیٹی رپورٹ  یا تجویز فروغ نسیم براۓ عبوری صوبہ کے متعلق وہ صریحاً غلط فہمی کا شکار ہیں جس طرح منگو کوچوان انڈین ایکٹ 1935 کے بارے میں غلط فہمی کا شکار ہوا تھا مگر منگو کوچوان کی غلط فہمی اس وقت دور ہوئی جب پولیس نے  ڈنڈے سے پیٹتے ہوۓ  اس سے یاد دلایا کہ چلاؤ مت قانون وہی پرانا ہے-

عبوری صوبہ سے مجھ جارج ارویل کی کتاب 1984 کا وہ مشہور  مقولہ یاد آرہا ہے  کہ "ونسٹن سمتھ دوسروں کو بھی اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کر رہا کہ دو جمع دو پانچ ہوتے ہیں کیونکہ ایسا بڑے بھائی نے کہا ہے”.

 یہی صورتحال گلگت بلتستان میں عبوری صوبہ کا مطالبہ کرنے والوں کا ہے وہ ہر روز نئی تاویل پیش کرتے ہیں کہ عبوری صوبہ بن گیا تو گلگت بلتستان میں دودھ اور شہد کی نہریں بہنا شروع ہونگی حالانکہ بلوچستان اور خیبر پختون خواہ اصلی صوبہ ہیں  مگر اس کے باوجود گوادر سے لیکر وزیرستان تک کوہستان سے چترال تک لوگ اپنے بنیادی حقوق  کیلئے ترس رہے ہیں تو ایسی صورتحال میں ایک نام نہاد عبوری صوبہ کی کیا حالت ہوگی اس کا اندازہ قارئین بخوبی لگا سکتے ہیں –

دلچسپ بات یہ ہے کہ گذشتہ دنوں گلگت بلتستان اسمبلی کے کچھ سادہ لوح ممبران نے عبوری صوبہ کی رام کہانی سنا کر بلتستان سکردو میں عوام کو ٹھٹھرتی سردی میں جمع  کیا تھا کہ وزیر اعظم  عبوری کا اعلان کر رہا ہے چونکہ یہ بڑے بھائی نے کہا ہے مگر عبوری صوبہ کا اعلان تو دور کی بات وزیر اعظم نے بنیادی حقوق تک کا زکر تک نہیں کیا – اس کے بعد عبوری صوبہ کی رام کہانی پر ایمان لانے والے افراد کی حالت بھی منگو کوچوان جیسی ہوگئی ہے –

 حقیقت تو یہ ہے کہ گلگت بلتستان اسمبلی کے اکثریتی ممبران کو یہ بھی معلوم نہیں کہ بنیادی طور پر گلگت بلتستان کے لئے تجویز کردہ عبوری صوبہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 258 کے تحت بنانے کی  سفارش کی گئی ہے جو درحقیقت ایک صدارتی حکم نامہ ہی ہے جس طرح ماضی کے دیگر آرڈرز  تھے بس اس بار  صرف نام عبوری صوبہ ہوگا مگر قانون اور ڈنڈا وہی پرانا ہی ہے –

اگر ببن اقوامی قانون کی نقط نظر سے عبوری صوبہ کی تشکیل کا قانونی جواز دیکھا جاۓ تو بنیادی طور پر عبوری صوبہ کا مطالبہ ہی غلط ہے کیونکہ نیا صوبہ تو صرف  پاکستان کے جغرافیائی حدود میں ہی بن سکتا ہے جبکہ گلگت بلتستان اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے تحت بین الاقوامی سطح پر ایک تسلیم شدہ متنازعہ علاقہ ہے اور پاکستان کے زیر انتظام ہے اور یہ علاقہ پاکستان کے جغرافیائی حدود سے باہر واقع ہے اور متنازعہ ریاست جموں و کشمیر کا حصہ ہے جس کا اعتراف نہ صرف پاکستان کے سپریم کورٹ نے اپنے حالیہ فیصلہ سول ایوی ایشن اتھارٹی بنام سپریم اپیلٹ کورٹ گلگت بلتستان وغیرہ میں کیا ہے  بلکہ  آئین پاکستان کا آرٹیکل 257 بھی ریاست جموں و کشمیر کے بارے میں ہے اور  گذشتہ ستر سالوں سے پاکستان کی دفتر خارجہ کا یہی موقف ہے-

چنانچہ تا تصفیہ مسئلہ کشمیر  گلگت بلتستان کو  آرٹیکل 258 کے تحت ایک صدارتی حکم نامے کے تحت عبوری صوبہ بنانا  مسئلہ کا حل نہیں چونکہ انٹرنیشنل لآ کے تحت گلگت بلتستان پاکستان کے زیر انتظام علاقہ ہے جو صوبہ نہیں بن سکتا ہے اسی تلخ حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے پاکستان کے وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم نے حالیہ دنوں  وزیر اعظم پاکستان کو لکھے گئے خط میں کہا کہ گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کے لئے پاکستان کے آئین کے  آرٹیکل 1 میں ترمیم کرنے سے حکومت پاکستان کی دفتر خارجہ اور نشنل سکیورٹی کونسل نے صاف طور پر منغ کی ہے.

اس کے باوجود بھی اگر گلگت بلتستان کو صوبہ بنایا گیا تو اس سے عالمی سطح پر قبولیت ملنا نہ صرف مشکل ہے بلکہ اس صورت میں اقوام متحدہ کے چارٹر کا آرٹیکل 2 سیکشن 4 کے تحت ایک نیا مسئلہ جنم لے سکتا ہے جس کا ادراک بین الاقوامی قانون کو سمجھنے والے افراد ہی کرسکتے ہیں –

 اس لئے ان حقائق کی بنیاد پر اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا  کہ عبوری صوبہ کا مطالبہ نہ صرف غلط بلکہ غیر حقیقی ہے اس لئے از خود باطل اور ناقابل عمل ہونے کی وجہ سے غیر موثر ہے –

  جبکہ اس مسئلہ کا واحد حل یہ ہے کہ تاتصفیہ کشمیر آئین پاکستان کے ارٹیکل 257 کے تحت آزاد جموں و کشمیر طرز کا نظام گلگت بلتستان میں قائم ہےجو کہ لوکل اتھارٹی کہلاتا ہے چونکہ عبوری صوبہ ایک دھوکہ ہے- ایکسپریس ٹرابیون کے سابق ایگزیٹو ایڈیٹر   Ziauddin  نے 25 دسمبر 2020کو اپنے ایک ارٹیکل میں عبوری صوبے کی حقیقت کے بارے میں درست طور پر لکھا ہے کہ-

And mind you, there is no such thing as “provisional provincial status”. Those soliciting the political support of G-B’s people by selling them such dubious notions are only indulging in deception.

 یعنی عبوری صوبہ کے نام پر گلگت بلتستان کے عوام کے ساتھ دھوکہ کیا جارہا ہے –

یعنی جب تک آئین پاکستان کے آرٹیکل 1 میں ترمیم کر کے گلگت بلتستان کی 28 ہزار مربع میل سرزمین کو پاکستان کی جغرافیائی حدود میں شامل نہیں کیا جاتا ہے تب تک گلگت بلتستان صوبہ نہیں بن سکتا اور یہی تلخ حقیقت ہے-

گذشتہ دنوں گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا شمیم نے بھی اسی بنیاد پر اسلام آباد ہائی کورٹ میں توہین عدالت کیس میں اپنے تحریری جواب میں لکھا کہ سابق چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار کے ساتھ اس کی گفتگو گلگت بلتستان میں ہوئی تھی جو پاکستان کی جغرافیائی حدود سے باہر واقع ہے اس لئے ان پر توہین عدالت کا مقدمہ نہیں چلایا جاسکتا ہے.

رانا شمیم کی دلیل کی بنیاد اس قانونی نقطہ پر ہے کہ وہ علاقہ جس کا پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 1 میں ذکر نہیں غیر ملک کہلاۓ گا.PLD 1966 SC page 88

لہذا ان حقائق کی روشنی میں عبوری صوبہ کا راگ آلاپنے والوں  سے گزارش ہے کہ دو جمع دو  درحقیقت چار ہوتے ہیں نہ کہ پانچ لہذا بڑے بھائی کے کہنے پر عبوری صوبہ کو سمجھنے میں منگو کوچوان جیسی غلطی ہرگز نہ کرنا  اور یہ بات زہن نشین کریں کہ مجوزہ عبوری صوبہ کے نام پر لاگو ہونے  والے آرڈر کے ساتھ ڈنڈا بھی پرانا ہی ہے لہٰذا وقت کا تقاضا ہے کہ نام نہاد عبوری صوبہ کی چکر میں پڑنے کی بجائے گلگت بلتستان میں آزاد کشمیر طرز پر لوکل اتھارٹی کی قیام کے ساتھ سٹیٹ سبجیکٹ رول کی بحالی کا مطالبہ کرنا چاہئے تاکہ ہماری آنے والی نسلوں کی حالت سلطنت مغلیہ کے شہزادے منگو کوچوان یا فلسطینیوں جیسی نہ بن جائے –

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button