کالمز

کلہاڑی

تحریر: فہیم اختر

قصہ اتنا بھی مختصر نہیں ہے کہ وزیراعلیٰ گلگت بلتستان خالد خورشید ایک پریس کانفرنس کرے اور اختتام پر صوبائی وزیر اطلاعات کھڑے ہوکر کہے کہ ہمیں اجڑا ہوا چمن ملا ہے جس کو سدھارنے پر لگے ہوئے ہیں۔ قصہ اتنا مختصر بھی نہیں ہے کہ سابق وزیراعلیٰ حافظ حفیظ الرحمن کسی چینل میں بیٹھ کر داؤپیچ کو سامنے لائے۔ یہ بھی نہیں کہا جاسکتا ہے کہ اپوزیشن لیڈر امجد حسین ایڈوکیٹ اسمبلی میں بھاری آواز میں جو کچھ کہہ گزرتے ہیں وہی حقیقت ہے۔

یہ مرحوم ملک مسکین کے دور کی بات ہے کہ اس دور کی اسمبلی میں ایک قرارداد پیش ہوئی جس میں مطالبہ کیا گیا کہ گلگت بلتستان کا کوٹہ فاٹا سے الگ کیا جائے، فاٹا والے ہمارے کوٹہ پر ڈاکہ ڈالتے ہیں، مرحوم ملک مسکین اس وقت کی اسمبلی کے سپیکر تھے اور اب تک کے سپیکرز میں ان کا کوئی ثانی نہیں رہا ہے۔ قرارداد منظور ہوئی اور اسمبلی کے کچھ آفیسران کے ہاتھ میں تھمادی گئی اور ہدایت کی گئی کہ یہ قرارداد لیکر اسلام آباد جائیں اور جہاں جہاں اس کو پیش کیا جاسکتا ہے پیش کریں اور گلگت بلتستان(اس وقت شمالی علاقہ جات تھا) کا کوٹہ الگ کراکر ہی واپس آئیں۔ آفیسران کے مذکورہ وفد میں موجودہ سیکریٹری جی بی اسمبلی عبدالرزاق صاحب بھی موجود تھے، وفد دستی قرار داد کو لیکر اسلام آباد گیا اور تمام متعلقہ مقامات پہنچ کر استدعا پیش کی کہ جی بی کی اسمبلی نے فاٹا سے کوٹہ الگ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ جب یہ قرارداد ایف پی ایس سی کے اس وقت کے ایک ڈائریکٹر صاحب کے پاس پہنچی تو انہوں نے وفد کو طلب کیا اور انہیں خاکہ پیش کیا کہ میرے بچو!اگر چار فیصد مجموعی کوٹہ سے جی بی کو الگ کریں گے تو یہ ایک فیصد میں آئے گا اور فاٹا کو 3فیصد ملے گا۔ اس وقت چار فیصد مجموعی ہونے کا نقصان تو فاٹا کو زیادہ ہے جی بی کو کم ہے کیونکہ ان کے 3 فیصد کوٹے پر خطرہ ہے کہ جی بی کا کوئی امیدوار جیت نہ جائے جبکہ جی بی کا صرف ایک فیصد داؤ پہ ہے جبکہ چار فیصد پورا کا پورا جیتنے کا بھی امکان ہے۔المختصر ڈائریکٹر صاحب نے آج کا خاکہ 2006-07میں پیش کردیا۔ پھر اسمبلی کی ٹیم نے ملک صاحب کو صورتحال سے آگاہ کردیا تو ملک صاحب نے وفد کو واپس بلایا اور کہا کہ ہم بعض اوقات خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارتے ہیں۔

یہی جواب گلگت کے عوام اور خواص کو کشروٹ کے غلام محمد غون اور عاقل خان نے اس وقت دیا جب گلگت میں بظاہر بین المسلکی اتحاد نما مظاہرہ ہوا۔ یہ کہانی 70کے دہائی کی ہے جب ایک فوجی کپتان نے نے گلگت میں زمین خریدی تو غلام محمد غون مرحوم نے اس دور کے ریذیڈنٹ کو درخواست دیدی کہ سٹیٹ سبجیکٹ رول کی موجودگی میں کوئی بھی غیر مقامی یہاں زمین نہیں خرید سکتا ہے۔ غلام محمد غون کے اس درخواست کے خلاف گلگت میں مظاہرہ ہوا، راوین کے مطابق مظاہرے میں مسلکی تفریق کے بغیر لوگوں نے شرکت کی اور نوبت یہاں تک آگئی کہ سکول کے بچوں کو بھی لیکر احتجاجی مظاہرے شروع کئے گئے۔ دلچسپ امر یہ تھا کہ سکول کے بچے غلام محمد مردہ باد کے نعرے لگارہے تھے۔ جب باہر کی صورتحال دیکھی تو ریذیڈنٹ صاحب نے غلام محمد غون کو درخواست واپس تھماتے ہوئے کہا کہ آپ کی پوری قوم آپ کی مخالفت میں ہے تو میں درخواست کو آگے کیسے بڑھاسکتا ہوں۔ اس مظاہرے میں بڑے بڑے پردہ نشیں و معتبرین کا نام بھی ہے جو اب اس دنیا میں نہیں تاہم وہ سکول کے بچے ضرور ہوں گے۔ غلام محمد غون نے اپنی واپس کی ہوئی درخواست لی اور قوم سے مخاطب ہوا کہ گلیتے سوس توم پائے اکی چراپیگت شو(گلگتیو! تم نے اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی ماری ہے)۔

گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بنانے کے حوالے سے وزیراعلیٰ گلگت بلتستان خالد خورشید نے فروری کو نیک شگون قرار دیا ہے۔ اب تک عبوری صوبہ کے متعلق جو تفصیلات سامنے آئی ہیں اس کے مطابق گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بنانے کے لئے آئین پاکستان کے 11آرٹیکلز میں ترمیم درکار ہے جس میں آرٹیکل 1شامل نہیں ہے۔ مذکورہ 11 آرٹیکلز میں آرٹیکل 51جو قومی اسمبلی کے متعلق ہے، آرٹیکل 59جو سینیٹ آف پاکستان کے متعلق ہے، آرٹیکل 106جو صوبائی اسمبلیوں کے متعلق ہے، آرٹیکل 175اور175Aجو صوبائی عدلیہ کے متعلق ہے،آرٹیکل 198صوبائی عدلیہ یعنی ہائیکورٹ کے پرنسپل سیٹ یا عدالتی مقام سے متعلق ہے، آرٹیکل 218الیکشن کمیشن آف پاکستان سے متعلق ہے، آرٹیکل 240آسامیوں کی تقسیم کے فارمولے سے متعلق ہے، آرٹیکل 242صوبائی پبلک سروس کمیشن سے متعلق ہے، آرٹیکل 258میں اضافی زیلی آرٹیکل شامل ہوگا جو عبوری حیثیت سے متعلق ہے، شامل ہیں۔

وزیراعلیٰ گلگت بلتستان خالد خورشید نے عبوری صوبے کے لئے فروری کو نیک شگون قرار دیا ہے۔سینیٹ میں نشستوں میں اضافہ کرنے کے لئے جی بی اسمبلی سے ایک اور متفقہ قرارداد منظور کی جائے گی جسے وفاق میں پیش کریں گے اور اس قرارداد میں 8نشستوں کا مطالبہ رکھا جارہا ہے، قرارداد کو اسمبلی میں پیش کرنے سے قبل اپوزیشن جماعتوں سے مشاورت بھی ہونی ہے۔جس طرح اس سے پہلے کی قرارداد میں تمام جماعتیں اکھٹی تھیں اسی طرح امکان یہی ہے کہ ساری جماعتیں دوبارہ اکھٹی ہوں گی اور قرارداد کو متفقہ منظور کریں گے۔ زیادہ امکان یہی ہے کہ اس بار گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بناکر ہی دم لیا جائے گا۔ یہاں تک لانے میں یقینی طور پر سیاسی جماعتوں کو اپنا کردار موجود ہے۔ اس صورتحال میں پیپلزپارٹی کے 2009 کے صدارتی آرڈر کا کردار کبھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے جس نے صوبائی حیثیت دیدی اور ماضی کے مقابلے میں نیا رخ پیش کردیا، اس میں 2018کے اس آرڈر کا بھی کردار موجود ہے جس کے خلاف شدید عوامی ردعمل آیا لیکن اس آرڈر کے نتیجے میں مزید اختیارات جی بی اسمبلی منتقل کردئے گئے اور پاکستان تحریک انصاف تو اس صورتحال میں مدعی ہے اور ڈرائیونگ سیٹ پر ہے جسے کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اس خوشنما تبدیلی کو آگے تو بڑھایا گیا ہے لیکن تبدیلی کے عام آدمی کے صحت پر پڑنے والے اثرات کا زکر اب تک کوئی نہیں کررہا ہے۔ ہر حکومت سیٹ سنبھالتے ہی عوام کی غلطیاں گنوانا شروع ہوتی ہے اور جی بی کو وفاق پر بوجھ قرار دیتی رہتی ہے، جس میں وسائل سے لیکر ملازمتوں اور سبسڈی جیسی چیزیں شامل ہوتی ہیں، کیا اس کے بعد یہ صورتحال تبدیل ہوگی؟ کیا وفاق سے آنے والا پیسہ یا حکومت کے اکاؤنٹ میں جمع عوامی پیسہ واقعتا عوام پر ہی خرچ ہوگا، یہاں کے لوگوں کا معیار پہلے سے بہتر ہوگا؟ سینکڑوں سوالوں کے جوابات کی طرف کوئی آنے کو تیار ہی نہیں ہے۔ اگر صوبائی حیثیت ملنے سے لیکر اب تک یعنی 2009سے اب تک وزیراعلیٰ سیکریٹریٹ، گورنر سیکریٹریٹ کے اخراجات ہی حساب کریں تو اندازہ ہوتا ہے کہ جی بی کے بالائی طبقے کا ڈیمانڈ اپنے لئے تو درست ہے لیکن عوام کے لئے زیادہ مفید نہیں ہے۔ سالانہ 35،40کروڑ روپے کے تو محض ایک سیکریٹریٹ کے تحفے ہوتے ہیں، اور مجموعی فضول اخراجات اربوں میں ہیں۔ حکومت عام عوام کے لئے پڑنے والے اثرات پر بھی لب کشاہی کرے۔

سینگل کے عوام کے پر امن دھرنے کے مظاہرین پر انسداد دہشتگردی دفعات لگانے کے خلاف حلقے کے ممبر نذیر ایڈوکیٹ نے جس طرح کا کردار ادا کیا ہے وہ قابل ستائش ہی نہیں بلکہ دیگرا راکین اسمبلی کے لئے ایک مثال بھی ہے، امید ہے اراکین اپنے حلقوں پر اسی طرح نظر رکھیں گے۔

آپ کی رائے

comments

فہیم اختر

فہیم اختر پاکستان فیڈرل کونسل آف کالمسٹ گلگت بلتستان کے صدر ہیں اور مقامی اخبارات میں صدائے گلگت کے نام سے کالم لکھتے ہیں۔۔۔۔۔۔ پامیر ٹائمز کے مستقل کالم نگار ہیں۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button