نظام تعلیم کا انتخاب اور والدین کا کردار
تحر یر: حسُن کریم جان
گلگت بلتستا ن میں جہاں حصول تعلیم کا ر جحان بڑھ رہا ہےوہیں الدین کو مختلف قسم کی مشکلا ت کا بھی سا منا کر ناپڑ ر ہا ہے۔ و الد ین کو در پیش مسا ئل میں سب سے بڑا مسلہ اپنے بچوں کےلیے منا سب سکو ل کا ا نتخا ب کرنا ہے۔
ا گر گلگت بلتستا ن کی مو جو دہ صو ر ت حا ل کا جایزہ لیا جا ئے تو معلوم ہوتا ہے کہ مختلف ادارے مختلف تعلیمی نظاموں کومتعا رف کر انے میں سر گر م عمل ہیں۔ا یک طرف بین الاقوامی بیکلو ریٹ نظا م تعلیم کو متعا ر ف کیا جا رہا ہے تو دوسر ی طر ف ا کیسوی صدی کی مہا رتو ں کا چرچا چل رہا ہے۔ کچھ ادارےبشمو ل سر کا ری محکمہ تعلیم یکسا ں نظام تعلیم کو فر و غ دینےکےخوا ہاں ہیں ۔
یہ با ت خو ش آیند ہے کہ ہمیں کثیر النوع تعلیمی نظاموں تک رسائی کے مو اقعے حا صل ہیں لیکن ان حالات میں والد ین کے سامنے یہ معاملہ درپیش ہےکہ کونسا نظام تعلیم منتخب کیاجائے اور کیوں!
منطقی طور پر سوچا جائے تو بیمار پڑنے کی صورت میں ہم ڈا کٹر سے اور اگر گا ڑی خر اب ہو تو میکینک سے مشورہ کر تے ہیں۔ا سی طر ح تعلیم بھی ایک اہم شعبہ ہےجہاں فیصلے لینے کے لئے ما ہرانہ راے کی ضر ورت ہو تی ہے۔ تاہم، عمومی طور پر تعلیم کے معا ملے میں و الد ین خو د کو ما ہر سمجھتےہو ے کسی سے مشو رہ کئے بغیر ہی فیصلے کرتے ہیں اور اس گہما گہمی میں کو ئی وقتی فیصلہ کر لیتے ہیں۔ یہ فیصلہ عموماً یا تو ظا ہری چمک دمک دیکھ کر ہو تاہے یا پھر اس نظام سے جڑی سماجی حیثیت کو دیکھ کر۔
حصول تعلیم ا یک صبرآزماعمل ہے۔ تعلیم کے نتا ئج دنوں ،مہینوں اور سا لو ں پر محیط نہیں ہو تی، بلکہ اس کے ثمرات حاصل کرنے میں دہائیاں لگ سکتی ہیں۔ اس لئے والدین کو چاہیے کہ اپنے بچوں کی تعلیم کے معاملے میں سوچ بچار سے کام لیں اور ماہرانِ تعلیم سے مشورہ ضرور کریں، کیو نکہ اگرآپ ایک د فعہ فیصلہ کرلیتے ہیں تو در میا ن میں وا پسی کارا ستہ نہیں ہو تا ہے،مثلا اگرآپ یہ ا ستطا عت رکھتے ہیں اورسوچ ر کھتے ہیں کہ آپ کے بچے جد ید خطو ط پر تعلیم حا صل کر یں تویہ ضروری ہے کہ آ پکو پتہ ہو کہ کس راستے سے اور کن کن مراحل سے گزر کر آپ کےبچے بین ا لاقو امی سطح پر پہنچ جا ئیں گے۔ یعنی مکمل راستہ اور مر ا حل کا ادراک آپ کو ضرور ہو نا چا ہیے، اس کے بغیریہ خطرہ ہمیشہ رہتا ہے کہ بچے اس مقا م تک پہنچ نہیں پا تےہیں،اور دو سر ی طر ف قو می دھا رے میں شا مل ہو نے میں بھی مشکلات کا سامنا کر نا پڑتا ہے۔
دوسرا را ستہ یہ ہے کہ آپ ا پنے بچو ں کو قو می سطح پر تیا ر کر نے کی کو شش کر تے ہیں تا کہ و ہ ملک کا کا رآمدشہری بن کر اپنا اور خاندان کا نا م روشن کر یں۔ اس راستے میں بھی آپ کو صر ف منزل کا تعین ضروری نہیں ہے بلکہ ہر مر حلے کا بھی ادراک ہو نا چاہیے اور ہر مر حلے میں حائل رکا وٹوں اور ان کو عبُو ر کرنے کے طر یقوں کی بھی مکمل اگاہی حا صل ہو۔ اسطرح آپ کے بچےا ایک کا میا ب زندگی گزارنے کے قا بل ہو سکتے ہیں ۔اس راستے میں بھی اگر بہتر منصوبہ بندی نہ کیا جا ے تو بچے پو ری زند گی مشکلا ت کا شکا ر رہتے ہیں۔
ا لغرض کو ئی بھی نظا م تعلیم یاطر یقہ تعلیم اچھا یا بُر انہیں ہو تا ہے ،بلکہ ہم ہی اسے اچھا یا بُراکر لیتے ہیں۔ ہم اپنے بچوں کے لیے بہت بڑے بڑے مقا صد یا وژ ن کا تعین تو کرتے ہیں لیکن اس مقصد تک پہنچنے کے لو ا زما ت تک رسائی کی سبیلیں نہیں نکالتے اور محنت نہیں کر تے ہیں اور نا کا می کا دوشی ہم نظا م تعلیم کو ٹھرا تے ہیں۔
اپنے بچوں کے لیے و ژن نہیں رکھنا اور انہیں آگے بڑھنے کے لئے قدم قدم پر سہارا نہیں دینا بلکل ا یسا ہے کہ جیسے ہم ان کو ایک ایسی کشتی میں سوار کرتے ہیں جس میں نہ چپو ہے اور نہ ا نجن ہے۔ اب دریا کی مر ضی ہے کہ وہ انہیں جہاں تک لے جا ئے۔ اور اگر آپ وژن رکھتے ہیں مگر راستو ں کا ادراک نہیں کرتے اور اس وژن کو عالم خیال سے عالم وجود میں لانے کے لئے بچوں کے ساتھ مل کر محنت نہیں کرتے ہیں تو پھر ایسے ویژن کی حیثیت شیخ چلی کے رنگین خیا لا ت سے زیادہ نہیں ہے۔