کالمز

گندم سبسڈی، حقداروں کا حق

تحریر: غلام الدین (جی ڈی)

گلگت بلتستان خوراک کی پیداوار کے لحاظ سے خودکفیل نہیں، وسائل بے پناہ ہیں، اخیتار کوئی نہیں۔ آئین کی شق۔9 اور تمام بین الاقومی قوانین "زندگی کا حق” جس میں خوراک اور تحفظ شامل ہے، ہر شہری کو فراہم کرنا ریاست کی اولین ذمہ داری ہے۔ گلگت بلتستان کے عوام کو 70 کی دہائی سے گندم کی سبسڈی بوریوں کی شکل میں دی جاتی رہی ہے اور آبادی میں اضافے کے ساتھ ساتھ سبسڈی میں اضافہ کیا جاتا رہا۔ وزارت نیشنل فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ کی اعداد و شمار کے مطابق رواں برس ربیع کی پیداوار کے لیے 32.2 ملین ٹن گندم کا ہدف رکھا گیا ہے جو کہ ملکی طلب سے زیادہ ہے۔ وفاق کی جانب سے ہر تھوڑے عرصے بعد گندم کی سبسڈی میں کٹوتی، قیمت میں اضافہ اور ریشنلائزیشن کے اعلانات کیے جاتے ہیں جس کے رد عمل میں عوامی ایکشن کمیٹی اور گلگت بلتستان کے عوام مزاہمت کرتے ہیں یوں جیت عوام کی ہوتی ہے۔ 2016 میں حافظ حفیظ الرحمن کی کابینہ نے گندم سبسڈی بوریوں کے بجائے پیسوں کردی اور 6 ارب روپے بطور سبسڈی مختص کیے ۔ پی ٹی آئی دور میں 2 ارب اضافے کے ساتھ سبسڈی 8 ارب کردی گئی، مارچ 2023 میں مذکورہ سبسڈی کا بجٹ ختم ہونے پر حکومت گلگت بلتستان نے وفاق سے رجوع کیا تو اکنامک کوارٖڈینشن کمیٹی برائے کابینہ نے 2.9 ارب اضافی بجٹ کی منظوری دی، ساتھ ہی کمیٹی نے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آئی ایم ایف کی سخت شرائط کے باعث سبسڈی میں کمی لانے اور اسے ریشنلائز کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ تاہم کمیٹی نے وزارت امور کشمیر کو ہدایت دی کہ حکومت گلگت بلتستان کے ساتھ جلد اس معاملے پر بات چیت کرکے سبسڈی کو ریشنلائز کریں۔

گلگت بلتستان کو گندم کی فراہمی کے حوالے سے سیکریٹری امور کشمیر نے رواں ماہ 14 نومبر کو نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ سے ملاقات کی۔ وزیراعظم نے ہدایت کی کہ گلگت بلتستان ایک حساس خطہ ہے اور گندم کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔چونکہ سبسڈی کی ریشنلائزیشن کے حوالے سے وفاق کی جانب سے حکومت گلگت بلتستان پر دباو ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط پر سبسڈی ریشنلائز کی جائےاور صرف حقدار کو ملنی چاہیے۔ تاہم گلگت بلتستان کابینہ نے حالیہ اجلاس میں آٹے پر سبسڈی 20روپے فی کلو سےبڑھا کر 52 روپے کرنے کی تجویز دی اور ساتھ ہی گریڈ 17سے اوپر کے ملازمین، دیگر اداروں اور مراعات یافتہ طبقے کو دی جانے والی سبسڈی ختم کرنے اور اسے بائیو میٹرک کے ذریعے حقدار طبقے میں تقسیم کرنے کی بھی تجویز دی گئی۔

ڈائریکٹر فوڈ گلگت بلتستان اکرام محمد کے مطابق بائیو میٹرک سسٹم متعارف کرانے میں 2 سے 3 ماہ کا وقت لگ سکتا ہے۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق گلگت بلتستان کو سالانہ 1 لاکھ 60 ہزار ٹن گندم فراہم کی جارہی ہے جس کے لیے 9.5 ارب روپے مختص ہیں۔ ڈائریکٹرفوڈ گلگت بلتستان کے مطابق 2016 میں گلگت بلتستان کو 15 لاکھ بوریاں، 2020 میں 16لاکھ،2022 میں 12لاکھ 18 ہزار 765 فراہم کی گئیں اور حالات یہی رہے تو جون 2024 تک 14لاکھ 40 ہزار گندم کی بوریاں ملنے کا امکان ہے۔ گندم سبسڈی کی فی کلو قیمت میں اضافہ اور ریشنلائزیشن کے خلاف عوامی ایکشن کمیٹی گلگت بلتستان سراپا احتجاج کررہی ہے، جسے متحدہ اپوزیشن سمیت تمام انجمنوں کی حمایت حاصل ہے۔ حالات کی نزاکت کو مدنظر رکھتے ہوئے وزیرخوراک غلام محمد کی زیر صدارت حکومتی مذاکراتی کمیٹی نے ایکشن کمیٹی کے سامنے تجاویز پیشں کیں، جس میں سبسڈی کی کلومجوزہ قیمت کو 52 روپے سے کم کرکے 42 روپے کرنے کی پیش کش کی گئی جسے ایکشن کمیٹی نے یکسر مسترد کیا اور ڈیڈلاک برقرار ہے۔ 24

نومبر کو ایکشن کمیٹی کی کال پر گلگت بلتستان بھر میں علامتی دھرنے دیے گئے اور ایکشن کمیٹی کی طرف سے الٹی میٹم دیا گیا ہے کہ ایک ہفتے میں مطالبات تسلیم نہ کرنے کی صورت میں گلگت کی جانب مارچ کیا جائے گا۔ دوسری جانب متحدہ اپوزیشن نے سبسڈی کی فی کلوقیمت میں اضافے کی تجویز کو مسترد کرتے ہوئے اپنا چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کیا ہے، جس میں مقامی وسائل پر مقامی عوام کا اختیار اور آئینی اداروں میں نمائندگی شامل ہے۔ اس وقت گلگت بلتستان کے باسیوں کو فی کس 3 کلو ماہانہ آٹا فراہم کیا جارہا ہے اور گزشتہ ایک برس سے 40کلو کے بجائے 20 کلو کے تھیلے تقسیم کیے جارہے ہیں۔

حکومت وقت کو چاہیے کہ گریڈ 16 سے اوپر کے تمام افسران، دیگر محکموں، بڑے تاجروں، بڑے ہوٹل مالکان، ٹھیکدار اور تمام صاحب ثروت گھرانوں کو دی جانے والی سبسڈی ختم کرے اور فی کلو قیمت میں اضافے کے بجائے، BISP کا ڈیٹا مزید بہتر کرکے بائیو میٹرک سسٹم کے ذریعے 85 فیصد حقداروں میں سبسڈی تقسیم کرنے کا ایک مربوط نظام بنائے تاکہ حقدار کو پہلے سے زیادہ آٹا ملے۔ وفاق اور حکومت گلگت بلتستان خوراک کی پیداوار بڑھانے کے لیے بنجرزمینوں کو فارمنگ کے لیے مختص کرے، زرعی ترقیاتی بینک، ایفاد اور دیگر ادارے کاشتکاروں کو جدید کاشتکاری کی تربیت فراہم کرے، فارمنگ کے لیے مختص زمینوں پر تعمیرات پر قانون سازی کے ذریعے پابندی عائد کرے تاکہ مقامی پیداوار میں اضافہ ہوسکے۔ اس کے علاوہ گلگت بلتستان کی متنازعہ حیثیت کا اقوام متحدہ کی قرار دادوں کی روشنی تعین کرتے ہوئے مقامی وسائل پر مقامیوں کے حق کو تسلیم کرے تاکہ پانی، بجلی، معدنیات، سیاحت، جنگلات، زراعت، مواصلات اور آئی ٹی کے شعبوں میں سرمایہ کاری سے مقامی افراد مستفید ہوں اور خطے میں ترقی و خوشحالی کے نئے سفر کا آغاز ہوسکے۔گندم سبسڈی کے معاملے پر وقت ضائع کرنے کے بجائے حکومت غیر ترقیاتی اخراجات میں خاطرخواہ کمی کرے، جس میں سرکاری افسران کے مراعات، چمچماتی گاڑیاں، پروٹوکول اور دیگر غیر ضروری اخراجات پر نصب فیصد کٹ لگا کر حقدار اور مفلوک الحال طبقے کو پہلے سے زیادہ گندم اور دیگر اشیا پر سبسڈی دے تاکہ سماجی انصاف اور مساوات کا عملی مظاہرہ ہوسکے۔ آج پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہی یہی ہے کہ غریبوں پر بھاری ٹیکس کا بوجھ ڈال کر امیر طبقے کو نوازا جاتا ہے، اس روش کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ دنیا بھر میں امیر طبقے سے زیادہ ٹیکس وصول کرکے غریب کو مراعات دی جاتی ہیں جبکہ پاکستان اور گلگت بلتستان کا معاملہ اس کے برعکس ہے۔

ان حالات پر ساحر لدھیانوی فرماتے ہیں

مفلسی حس لطافت کو مٹا دیتی ہے
بھوک آداب کے سانچوں میں نہیں ڈھل سکتی

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button