‘عبوری آئینی سیٹ اپ اور تنازعہ کشمیر’، حقیقت کیا ہےِ؟
تحریر: فیض اللہ فراق
گلگت بلتستان کا آئینی مسلہ اس وقت سے پنڈولم کی طرح لٹکا ہوا ہے جب سے انڈیا اور پاکستان نے تنازعہ کشمیر پر اقوام متحدہ سے رجوع کیا جس میں گلگت بلتستان کو بھی اسی تنازعہ میں ڈالا گیا حالانکہ گلگت بلتستان کے باسیوں نے نومبر 1947 میں ڈوگرہ تسلط سے خود آزادی لیکر بائی چوائس پاکستان کا انتخاب کیا تھا، گلگت بلتستان کو شروع دن سے مس ہنڈلنگ کیا گیا ہے جس کی وجہ سے نوجوان نسل میں ایک محرومی کا پیدا ہونا ایک لازمی امر تھا، 1949 میں گلگت بلتستان کی نمائندگی کے بغیر معاہدہ کراچی کرنے والوں کو یہ سوچنا تھا کہ گلگت بلتستان کی عوام نے ایک نظریے کے تحت پاکستان کا انتخاب کیا ہے اسلئے اسی وقت یہی فیصلہ سامنے آنا چاہئے تھا کہ گلگت بلتستان پر انتظامی کنٹرول کے بجائے عبوری سہی آئینی رشتے کی بنیاد ڈالتےگر ایسا نہیں ہوا، جبکہ دوسری جانب گلگت بلتستان کی نوجوانوں نے کرگل سے لیکر وزیرستان و بلوچستان تک اپنے سینے پر گولیاں کھا کر اس ملک کے ساتھ نظریاتی رشتے کو خون کی سرخی سے زندہ رکھا ہے، وسائل سے مالامال،ریاست کے ماتھے کا جھومر اور اس ملک کے ساتھ ” سر دھڑ کا رشتہ” رکھنے والا اہم خطہ 74 برسوں سے تمام تر آئینی رکاوٹوں سے دوچار ہے، جب ایسے حالات میں کہ دنیا 2 بڑے بلاکس میں بٹنے جار رہی ہے اور گلگت بلتستان اس عالمی تقسیم کا مرکز ہے اور اب بھی اگر گلگت بلتستان کے آئینی مسلے کو سنجیدہ نہیں لیا گیا تو آنے والے حالات کے ذمہ دار وہ تمام قوتیں ہوں گی جو گلگت بلتستان کو قومی دھارے میں شامل نہیں دیکھنا چاہتی ہیں،
گلگت بلتستان اور تنازعہ کشمیر کا تعلق پرانا ہے اور یہ تعلق کشمیر کی آزادی تک قائم رہے گا مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا گلگت بلتستان کے حقوق بھی متنازعہ ہیں؟ یہ بات سب پر عیاں ہے گلگت بلتستان کشمیر کا حصہ نہیں بلکہ مسلہ کشمیر سے نتھی ہے اور یہ ممکن ہے کہ مسلہ کشمیر کے حل تک گلگت بلتستان کو عارضی طور پر ملک کے مقتدر ایوانوں میں نمائندگی دی جائے، اس میں تو کسی قسم کی کوئی رکاوٹ نہیں ہے اور نہ ہی اس سے مسلہ کشمیر پر کوئی فرق پڑتا ہے، اس میں دو رائے نہیں کہ گلگت بلتستان کے باسی پہلے ہی سے بعض دیگر صوبوں کے شہریوں سے زیادہ پڑھے لکھے، کامیاب اور بہتر حالت میں ہیں، مگر آئینی وابستگی کا سقم اور وفاقی مالیاتی اداروں سمیت مقننہ و دیگر اداروں میں مشروط نمائندگی وقت کی ضرورت ہے۔ تنازعہ کشمیر کی 3 اکائیز ہیں لیکن مودی ایک اکائی کو بذور طاقت وہاں کی متنازعہ حیثیت کو بھی ختم کر کے اپنے آئین کا مکمل حصہ بنا چکا ہے ، افسوس اس بات کا کہ اس عالمی دہشت گردی کا دنیا پر کوئی اثر نہیں پڑا، گلگت بلتستان کو دئے جانے والا مجوزہ سیٹ اپ مودی کے اقدام سے یکسر مختلف ہے، پاکستان گلگت بلتستان کی متنازعہ حیثیت کو برقرار رکھنے کیلئے آئین کے آرٹیکل( 1) میں ترمیم نہیں کر رہا بلکہ متنازعہ حیثیت کو برقرار رکھتے ہوئے وفاقی مالیاتی اداروں سمیت مقننہ میں مشروط نمائندگی دے رہا جس سے گلگت بلتستان کی نوجوان نسل میں پائی جانے والی محرومی کا بھی خاتمہ ہوگا اور مسلہ کشمیر پر بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ متوقع سیٹ اپ کے مخالف اور اس پر شور کرنے والے گلگت بلتستان کے مفاد میں نہیں ہیں، پاکستان کے سلامتی اداروں کی بھرپور کوششوں سے عبوری سیٹ اپ آخری مرحلے میں داخل ہوچکا ہے مگر اس کا کریڈٹ موجودہ سیاسی حکومت کو بھی ضرور جائے گا کیونکہ یہ فیصلہ بہت بڑا ہے، اگر تحریک انصاف عبوری صوبے کو پائیے تکمیل تک پہنچاتی ہے تو عمران خان ذولفقار علی بھٹو کے بعد دوسرا لیڈر ہوگا جو گلگت بلتستان کی عوام کے دلوں میں ہمشہ کیلئے زندہ رہے گا،
تف! ہے ان لوگوں اور بعض وزرا پر پہ جو ذاتی مراعات کی طوالت کیلئے مذکورہ سیٹ اپ کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں، گلگت بلتستان کی سیاسی تاریخ میں یہ ایک نیا موڑ ہے اور نئی تاریخ رقم ہونے جا رہی ہے اور مستقبل کا خوبصورت و با اختیار گلگت بلتستان اسی عبوری آئینی رشتے سے منسلک ہے۔ امید ہے جس 23 مارچ کو لاہور کے مقام پر قراداد پاکستان پیش کیا گیا تھا عین اسی طرح آنے والا 23 مارچ کو نریندر مودی کے مکروہ عزائم کو خاک میں ملاتے ہوئے ایک اور قراداد پیش ہوگی جس کے تحت گلگت بلتستان کی متنازعہ حیثیت بھی برقرار رہے گی، مسلہ کشمیر پر پاکستان کا سٹینڈ بھی قائم رہے گا اور نیا گلگت بلتستان بھی تعمیر ہوگا جس کا خواب 74 برسوں سے ہم نے دیکھا ہے۔