کالمز

یوم وفات نواب وقار الملک ۔ رہنماء تحریک پاکستان

تحریر: امیرجان حقانیؔ

لیکچرار: پوسٹ گریجویٹ کالج مناور گلگت
ریسرچ اسکالر و کالمسٹ

ٓ ۷۲ جنوری تحریک پاکستان کے نامور رہنماء نواب وقار الملک کا یوم وفات ہے۔نواب وقار الملک درست معنوں میں قدیم اور جدید علوم کے حسین امتزاج تھے۔ آل انڈیا مسلم لیگ کے نامور رہنما نواب وقار الملک کا اصل نام مولوی مشتاق حسین تھا۔ وہ 24 مارچ1841 کو ریاست اترپردیش کے علاقہ امروہہ میں فضل حسین کمبوہ کے دولت کدے میں پیدا ہوئے۔

نواب وقار الملک نے ابتدائی تعلیم دینی مکتب سے حاصل کی۔عربی زبان و گرائمر، علوم حدیث اور فقہ اسلامی کی تعلیم مولوی راحت علی امروہی سے حاصل کی۔نواب صاحب نے صرف دینی علوم کے تحصیل پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ جدید عصری علوم وفنون کی طرف بھی متوجہ ہوئے اور انجینئرنگ کی تعلیم انجینئرنگ کالج روکی سے پائی اور ڈگری حاصل کی۔

قدیم وجدید علوم سے بحرور ہونے کے بعد نواب مرحوم نے عملی سیاست میں قدم رکھا تب آپ کی عمر صرف پچیس سال تھی۔ نواب وقارالملک سرسید احمدخان کی تحریک سے حد درجہ متاثر تھے اور ان کے بے حد مداح بھی تھے۔نواب وقارالملک سمجھتے تھے کہ مسلمانوں کو قدیم علوم کیساتھ جدید علوم سے بھی آراستہ ہونا چاہیے۔سرسید احمد خان کی طرح نواب وقار الملک بھی مسلمانوں کی ترقی جدید علوم میں پنہاں دیکھ رہے تھے اس لیے ان کی تحریک میں شامل ہوئے اور رفیق خاص بن گئے۔سرسید احمدخان کی ہی سفارش پر ریاست حیدر آباد دکن میں ”ناظم دیوانی“ کے عہدے پر فائز ہوئے۔آپ نظم و ضبط کے بہت ہی پابندتھے۔آپ کی صلاحیتوں اور ایمانداری سے متاثر ہوکر وزیراعظم حیدر آباد دکن نے اپنا سیکرٹری منتخب کیا اور بعد میں نواب وقارالملک ریاست حیدرآباد کے نائب وزیراعظم بھی بنے۔سترہ سال بعد ریاست حیدر آباد سے باعزت ریٹائرڈ ہوئے اور پنشن لی۔

پھر ایم اے او کالج جوائن کیا اور آخر دم تک اسی کی ترقی و تعمیر میں اپنی زندگی صرف کی۔جب ایم اے او کالج علی گڑھ کو ”مسلم یونیورسٹی“ بنایا گیا تو آپ نے اس کے لیے چندہ کی مہم کا بھی اسٹارٹ لیا۔اسی زمانے میں ساڑھے سات لاکھ روپے جمع کرکے کالج کے فنڈ میں جمع کرادی۔ایک روایت کے مطابق یہ رقم تیس لاکھ تھی جو نواب وقارالملک کی نگرانی اور کوششوں سے ڈیڑھ سال میں جمع ہوئی تھی۔ یقینا آج یہ رقم اربوں میں ہوگی۔

نواب وقار الملک کوذہانت اور فطانت ودیعت میں ملی تھی۔1870کو مضمون نویسی کے مقابلے میں دوسری پوزیشن حاصل کی۔آپ کے علمی اور فکری مضامین و مقالات رسالہ تہذیب الاخلاق میں شائع ہوتے رہے۔

آپ ایک بہترین خطیب بھی تھے لکھنو سمیت کئی بڑے شہروں میں مسلمانوں کے جلسے منعقد کرتے اور انہیں علوم کی اہمیت کے ساتھ آزادی ہند کا درس بھی دیتے۔آپ نے اپنی تقاریر اور خطبات کے ذریعے پورے ہندوستان میں آل انڈیا مسلم لیگ کو فعال بنایا اور قومی معاملات اور امور میں مکمل بے باکی سے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

نواب وقارالملک آل انڈیا مسلم لیگ کے اولین رہنماوں اور بانیوں میں شامل تھے۔30 دسمبر 1906 کو نواب وقا رالملک،سرآغاخان، سر شفیع اور نواب سلیم اللہ خان آف ڈھاکہ نے ملکر ڈھاکہ میں آل انڈیا محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس منعقد کیا۔اس کانفرنس میں نواب سلیم کی طرف سے آل انڈیا مسلم لیگ کے نام سے جماعت قائم کرنے کی تجویز سامنے آئی۔اس اجلاس کی صدرات نواب وقارالملک نے کی۔یوں آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام عمل میں لایا گیا۔ سرآغاخان پہلے صدر منتخب ہوئے اور نواب وقا رالملک کو یہ اعزاز حاصل ہواکہ آپ آل انڈنا مسلم لیگ کے پہلے جنرل سیکریٹری منتخب ہوئے۔یہی وجہ ہے کہ آپ کو مسلم لیگ اور پاکستان کا باپ بھی کہا جاتا ہے۔

نواب وقا رالملک کا مذہب کی طرف بھی خوب میلان تھا۔نواب وقا رالملک طالب علموں کو دینی تعلیم و تربیت پر خوب توجہ دیتے۔کالج میں طلبہ کو نمازپنجگانہ کی نہ صرف تلقین کرتے بلکہ خود نگرانی بھی فرماتے۔نواب وقا رالملک کے دینی جذبات اور محبت کو حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی، مولانا عبدالباری اور دیگر جید علماء کرام پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے۔

نواب وقارالملک بہت ہی بااصول انسان تھے۔آپ کی اصول پسندی کو دیکھ کر 1908 کو حکومت نے ”نواب“ کے لقب سے نوازا۔بہترین انتظامی صلاحیتوں کی بنا پر ریاست حیدرآباد کی طرف سے آپ کو ”نواب الدولہ“ اور ”وقارالملک“ جیسے بہترین القابات سے نوازا گیا۔یہی تمام صفات نواب کی باکمال شخصیت کا آئینہ دار ہیں اور بہتری عکاسی کرتی ہیں۔

نواب محسن الملک کے بعد نواب وقار الملک علی گڑھ کالج کے سیکریٹری منتخب ہوئے تھے۔ پھر طویل عرصہ اس عہدے پر متمکن رہے بالآخر 1912کو بوجہ خرابی صحت نواب وقارالملک نے علی گڑھ کالج کی سیکریٹری شپ سے استعفیٰ دیا۔

تحریک پاکستان کا یہ عظیم رہنماء اور درخشاں ستارہ نے اپنی زندگی کی حسین بہاریں مسلمانان ہند کی خدمت میں صرف کی۔طالبان علوم کی رہنمائی اور معاونت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا۔اور ہندوستان کے مسلمانوں کی فلاح و بہبود اور تعمیر و ترقی کے لیے تادم مرگ کوشش کرتا رہا۔بالآخر اسلامیان ہند کا یہ عظیم رہنماء جناب نواب وقار الملک نے27 جنوری 1917 کو امروہہ میں داعی اجل کو لبیک کہا اور وہاں گئے جہاں ہم سب نے جانا ہے۔اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ اللہ ان کی مساعی جمیلہ کو قبول و منظور فرمادے اور اپنے بارگاہ میں ا نہیں مقام خاص سے نوازے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلامیان ہند کے ان عظیم رہنماوں اور بانیان پاکستان کی ان لازوال کوششوں اور قربانیوں کو نوجوان قوم کے سامنے بلاکم و کاست پیش کیا جائے تاکہ نوجوانان ملت کو اندازہ ہوجائے گا کہ ان کے اسلاف نے کتنی محنتوں اور مشکلات کے بعد آزادی حاصل کی ہے اور مملکت خدادا پاکستان حاصل کیا ہے۔اور انہیں اس کی اہمیت کا اندازہ ہوجائے گا۔

نوٹ: یہ تحریر ریڈیوپاکستان کے قومی پروگرام ”صبح پاکستان“ کے لئے خصوصی لکھی گئی ہے۔جنوری 2020 کو ریڈیو پاکستان گلگت کے پروڈیوسر واجد علی یاسینی کی نگرانی میں ریکارڈ کروایا گیا۔حقانی

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button