کالمز

تعلیم نسواں تعلیماتِ نبویؐ کی روشنی میں

از قلم: ڈاکٹر نیک عالم راشدؔ

زیرِ نظر مقالے کا موضوع جتنا منفرد ہے افادیت کے اعتبار سے اتنا ہی اہم بھی ہے۔ بالعموم تمام انسانوں اور بالخصوص مسلمانوں کے لیے نبی آخر الزّماں حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبّہ مشعل راہ کی حیثیت رکھتی ہے کیونکہ آنحضورؐ کی زندگی دینِ اسلام اور قرآن پاک کی عملی تفسیر و تعبیرکا حکم رکھتی ہے اور بلاشبہ انسانی زندگی کے ہر شعبے میں آپ ؐکے اسوہ حسنہ سے رہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے۔ جیسا کہ ارشادِ ربّانی ہے کہ لَقَد کَانَ لَکُمْ فی رسول اللہ اُسوَۃ حَسَنَۃ(القرآن۔ ۳۳/۱۲)یعنی ”یقیناً تمہارے لیے اللہ کے رسول میں ایک اچھا نمونہ ہے“۔ اس لئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرتِ مبارکہ اور آپؐ کی حیات طیّبہ کو قرآن کی عملی تعبیر قرار دیا گیا ہے۔ اور یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ رسول ؐ کی حیات و تعلیمات میں انسانی زندگی کے تمام شعبوں میں عمل کے واضح خطوط موجود ہیں۔

ٓ اس مسلّمہ حقیقت کے بارے میں کسی کو کلام نہیں کہ قوموں کی تعمیر و ترقی کا دارومدار باصلاحیت افراد پر ہے اور افراد میں مرد اور خواتین سب شامل ہیں۔افراد اپنا فریضہ اسی وقت بہ احسن وخوبی ادا کرسکتے ہیں جب ان کو زیور علم سے آراستہ و پیراستہ کیا جائے اور اُن کی تعلیم و تربیت کا معقول بندوبست کیا جائے۔ اس اہمیت کے پیش نظر دنیا کے ہرمذہب، قوم ا ور معاشرے میں علم کو لازمی قراردیا گیاہے اور افراد کی تعلیم و تربیت کے لیے ہردور میں ہر قوم کو شاں رہی ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ جن قوموں نے تعلیم و تربیت کو مرکزِ توجّہ بنا لیا وہ کامیاب و کامران ہوئیں اور ترقّی و عروج حاصل کیا اور جن قوموں نے اس پہلو سے اغماز برتااور اسے پس پُشت ڈال دیا وہ ناکام و نامراد ہوئیں اور شکست و زوال ان کا مقدّر ہوا۔ انسانی تاریخ کے طویل ترین دورانیے میں اس کی لاتعداد مثالیں تلاش کی جا سکتی ہیں لیکن سرِ دست یہاں دینِ اسلام اور خاص طور پر پیغمبرِ اسلام حضرت محمّد ؐ کی تعلیمات کی روشنی میں تعلیمِ نسواں یعنی خواتین کی تعلیم کی اہمیّت و افادیّت پر گفتگو کرنا ہے۔

دینِ اسلام میں علم و دانش اور تعلیم و تربیت پر خصوصی توجّہ دی گئی اور اس کے پھیلاؤ پر بھی بہت زور دیا گیا۔ کیونکہ اسلام گویا سراپا علم بن کر آیا، اس لیے تعلیمی دنیا میں ایک ہمہ گیر انقلاب کا پیامبر ثابت ہوااور اس بنا پر اسلام کو ایک تعلیمی تحریک قرار دیا جاتا ہے۔ اسلام کی رو سے علم خدا کی صفت ہے اور اس لئے خداکا ایک صفاتی نام ”علیم“ بھی ہے۔ اس خدائے علیم نے ”آدم کو اشیا کے نام سکھائے“(البقرہ: ۱۳)،انہیں چیزوں کی حقیقت کا علم عطا کیا۔ یہی علم فرشتوں پر ان کی فضیلت کا سبب بنا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے فرستادہ نبی محمّد ﷺکو معلّم کا لقب عطا فرمایا۔ارشادِ ربّانی ہے کہ: وَ یُعَلِّمُھُمُ الکتٰبَ و الحکمۃ (البقرہ: ۹۲۱) یعنی ”اور وہ ]نبی محمّدؐ[لوگوں کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتے ہیں۔“ نیز اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے رسول کو علم میں اضافے کے لئے ہمہ وقت دعا کرنے کی تلقین کی اور فرمایا کہ:وَ قُلْ رَبِّ زِدْنِی علماً (طٰہٰ: ۴۱۱) یعنی ”اور ]اے رسولؐ[ کہہ دیجئے کہ اے پروردگار میرا علم بڑھا دے۔“ رسول کریم ؐﷺبھی معلّم اور طالب علم ہونے پر فخر محسوس کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ: اِنَّمَا بُعِثْتُ معلِّماً یعنی ”میں معلّم بنا کر بھیجا گیا ہوں۔‘‘ پس ان حقائق سے یہ بات ثابت ہوئی کہ اسلام میں علم، تعلیم، تعلّم،معلّم اور متعلّم یا طالبِ علم کے تصوّرات مرکز و محوّر کی حیثیت رکھتے ہیں۔اور بلاشبہ ان تصوّرات کی بنا پراسلامی تہذیب و تمدّن کی عظیم الشّان عمارت تعمیر ہوئی ہے۔

اسلام نے تمام انسانوں کی تعلیم کو ایک بنیادی ضرورت قرار دیا ہے۔ پیغمبرِ اسلام ؐنے تعلیم کے معاملے میں مرد اور عورت کے اس تخصیص اور فرق و امتیاز کو یکسر مٹادیا جو اسلام سے قبل دیگر مذاہب و ادیان میں روا رکھا جاتا تھا اور تمام انسانوں پر جن میں مرد و عورت سب شامل ہیں حصولِ تعلیم کے لیے یہ اعلان فرمایا کہ:طَلبُ العلم فریضہ علیٰ کل مسلم و مسلمہ (حدیث) یعنی” ہر مسلمان مرد و عورت پر علم حاصل کرنا فرض ہے۔‘‘

یہی وہ امتیازی خصوصیت ہے جو دوسرے تمام دینی و سماجی نظاموں سے اسلام اور پیغمبر اسلام کو ممتاز کرتی ہے۔ کیونکہ رسول مقبول ؐنے علم کا حصول بنی نوع انسان کے ایک طبقے تک محدود نہیں رکھا بلکہ تمام مردوزن کو اس فریضے کی تکمیل میں یکساں رکھا۔

معلمِ انسانیت حضور اکرم محمّدصلی اللہ علیہ وآلہِ وسلم اس حقیقت سے بخوبی آگاہ تھے کہ عورت کی گودمیں قومیں پرورش پاتی ہیں اور اس کی پستی دراصل انسانیت کی پستی ہے اور اس کی بلندی پوری انسانیت کی بلندی ہے۔آپ ؐ کو اس بات کا پورا احساس تھا کہ اگر عورت خود علمی لیاقت کی مالک نہ ہوگی تو وہ اپنی اولاد کی تربیت دانشمندی سے نہ کرسکے گی جس کا منہ بولتا ثبوت خود عرب میں عورت کی مظلومیت و بیچارگی اور تعلیمِ نسواں کی غیر موجودگی سے پھیلی ہوئی ابتری ہی تھی۔ لہٰذا آپ ؐ نے نبوّت کے عطا ہوتے ہی سب سے پہلے اپنے علم و آگہی سے جس کوآگاہ کیا وہ ایک خاتون ہی تھیں یعنی حضرت خدیجۃ الکبریٰ ؓ۔
اس اہمیت کے پیشِ نظر آنحضرت ؐ نے عورتوں کی تعلیم و تربیت پر بہت زور دیا اور بہت سی احادیث اس ضمن میں وارد ہوئی ہیں چنانچہ آپ ؐنے عورتوں کی تعلیم و تربیت کے سلسلے میں فرمایا کہ:”جس شخص کے قبضے میں کوئی لونڈھی یا باندی ہو اور وہ اس کی تعلیم وتربیت کا بندوبست کرے نیز اسے تہذیب و شائستگی اور فنونِ آداب سے آراستہ کرے اور اس کے بعد اسے آزاد کرکے اس سے نکاح کرے تو اس کا دگنا اجرملے گا۔“ (محمّد بن اسماعیل بخاری۔’صحیح بخاری‘، جلد اوّل،ترجمہ: مولانا محمّد داؤد رازی، مرکزی جمعیّت اہلِ حدیث، ہند، ،صفحہ ۹۲۱)
آنحضرت ؐ اس معاملے میں صرف قولاً ہی تاکید نہیں فرماتے تھے بلکہ اپنے عمل کے ذریعے سے بھی لوگوں کو دکھاتے تھے۔ جب ہم کتب سیر و تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ حقیقت بھی اُجاگر ہوجاتی ہے کہ عہدِ نبوی ؐمیں مسلم خواتین رسالت مآب ؐکے حضور تعلیم و تربیت کے لیے حاضر ہوتی رہیں اور انہوں نے آپ ؐسے تعلیم پاکراسلامی علوم اور اسلامی کردار و شرافت میں بڑا نام پیدا کیا۔ عہدِ نبویؐ میں طلبِ علم کی جستجو عورتوں میں اتنی زیادہ تھی کہ حضرت ابوسعید خدری روایت بیان کرتے ہیں کہ: ”ایک دن عورتیں رسولِ اکرم ؐ کے پاس آئیں اور عرض کیا کہ آپ ؐ سے فائدہ اُٹھانے میں مرد ہم سے آگے بڑھ گئے ہیں، لہٰذا آپ ؐہمارے لیے بھی اپنی طرف سے کوئی دن مقرر کردیں تو آپ ؐ نے ان سے وعدہ کیا اور یوں ہفتے میں ایک دن آپ ؐ عورتوں کے مجمع میں تشریف لے جاتے ان کو تعلیم دیتے اور اُن کے سوالات کے جوابات دیتے۔“ (بخاری۔’صحیح بخاری‘، جلد اوّل،،صفحہ ۹۲۱)
روایات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے میں لڑکیاں لڑکوں کے ساتھ مکتب میں پڑھتی تھیں۔لیکن زیادہ تر روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ قرون وسطیٰ میں مسلم لڑکی کوگھر پر ہی تعلیم دی جاتی تھی۔
عہدِ رسالتؐ میں عورتیں مردوں کے ساتھ نماز پڑھ سکتی تھیں، جیسا کہ روایت ہے عورتوں کو احکام دین سیکھنے کے لیے مساجد میں آنے اور نماز عیدین میں شریک ہونے کی اجازت تھی یہ وضاحت بھی فرمادی کہ عورتیں باجماعت نماز میں سب سے آخری صف میں کھڑی ہوں۔ (’صحیح بخاری‘۔مترجمہ جلد اوّل صفحہ ۰۳۱)
آنحضرت ؐ چاہتے تھے کہ عورتیں گھر کی چار دیواری سے باہر لائی جائیں، امورِ خانہ داری اور تربیت اولاد کے ساتھ ساتھانہیں سماجی وعسکری امور میں بھی بڑھ چڑھ کر حصّہ لینے کا موقع فراہم کیا جائے۔
پس آنحضرت ؐ خواتین کو تمام علوم متداولہ کے حصول کی ترغیب دیتے تھے، اور اس کے لیے عملی اقدامات بھی کیا کرتے تھے۔ آپ ؐ نے اپنی ازواج مطہرات کی تعلیم و تربیت اور ان کو پڑھانے سکھانے کے لیے شفابنتِ عبداللہ عدویہ ؓ کو مقرر فرمایا تھا۔ اور آپ ؐنے اس سے کہا کہ تم نے حضرت حفصہ ؓ کو جس طرح کتابت سکھائی ہے اس طرح چیونٹی کے کاٹنے کی دعا بھی سکھا دو۔ (’ اردودائرہ معارف اسلامیہ‘، جلد ۹۱، زیرِ اہتما م پنجاب یونیورسٹی، لاہور،صفحہ ۵۲۲)
ہمیں عہدِ نبوی میں ایسی بہت سی مثالیں ملتی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اس عہد کی خواتین نے علوم و فنون بشمول دینی و دنیوی تمام علوم کے حصول میں پوری مستعدی اور انہماک کا مظاہرہ کیا اور ان کی خدمات کا یہ دائرہ گھر سے باہر امورِ مملکت، تبلیغِ اسلام، عسکری خدمات اور دوسرے امور تک پھیلا ہواتھا۔
اُس زمانے میں اکثر خواتین کو مسلمان مردوں کی طرح حدیث و فقہ میں دلچسپی تھی۔بہت سی خواتین نے ان علوم میں بڑا نام کمایا۔اسی طرح ادب اور شاعری میں بھی صدرِ اوّل کی کئی خواتین نے شہرت حاصل کی۔ مثال کے طور پرڈاکٹرشلبی ’تاریخ تعلیم و تربیت اسلامیّہ‘ (صفحہ ۸۵۱) میں لکھتے ہیں کہ الفرزدق کی بیوی کو ادب میں اس قدر درک حاصل تھا کہ خود اس کا شوہر اور شاعری میں اس کا حریف جریر دونوں اس کی طرف رجوع کیا کرتے تھے۔ نیز اس وقت کی بعض خواتین موسیقی اور نغمہ سرائی میں بھی مہارت رکھتی تھیں جن میں سے بعج کا ذکر شلبی نے کیا ہے۔
روایت یہ بھی ہے کہ خواتین صحابیات نے صرف قرآن کی تفسیر اور تعلیم ہی نہیں دی بلکہ وہ تبلیغ اسلام کی جدوجہد میں بھی شریک رہیں۔حضرت امِ شریک ؓ مکہ کی قریش خواتین میں مخفی طور پر اسلام کی تبلیغ و اشاعت کا کام کرتی تھیں۔ کئی خواتین ایسی تھیں جن کے استدلال کے باعث ان کے شوہر یا خاندان کے دوسرے مرد مسلمان ہوگئے۔ ایک نام حضرت فاطمہ ؓ بنتِ خطاب کا بھی ہے جن کی دعوت پر ان کے بھائی حضرت عمرؓ نے اسلام قبول کیا۔ اسی طرح حضرت امِ سلیم ؓ کی تبلیغ پر حضرت ابوطلحہؓ اور حضرت امِ حکیم ؓ کی تبلیغ سے متاثر ہو کر ان کے شوہر نے اسلام قبول کیا۔ خواتین میں حضرت امِ ورقہ عبداللہ ؓ قرآن بھی پڑھی ہوئی تھیں اور انہیں حضور صلعم نے عورتوں کی عبادت کے دوران قیادت کرنے کے لیے (امام) مقرر کیا تھا۔ ان کے ساتھ ایک موذن کاتقرر بھی کیا گیاتھا۔ حضوراکرم ؐ کے عہد میں طب کی تعلیم دینے والی خواتین میں حضرت رفیدہؓ نامی صحابیہ کا نام سب سے نمایاں ہے۔ آپ کے خیمے کو جراح خانہ کی حیثیت حاصل تھی ان کا یہ طبی اور تعلیمی مرکزمسجدِ نبوی سے متصّل تھا۔ (’اردودائرہ معارف اسلامیہ‘،جلد ۹۱، صفحہ ۹۲۲) نیز عہدِ رسالت میں خواتین مسلم افواج کے ساتھ میدانِ جنگ میں بھی جاتی تھیں تاکہ زخمیوں کی مرہم پٹی کریں اور دیگر ممکن خدمات بجا لائیں۔ اس کی آنحضرت ؐنے اجازت دی تھی۔ (شلبی، ص۱۶۱)
علاوہ ازین ایسی خواتین کے حالات بھی ملتے ہیں جنہوں نے علمائے طب کی حیثیت سے شہرت حاصل کی۔ڈاکٹر شلبی لکھتے ہیں کہ قبیلہ بنی اوس میں زینب بہت مشہور طبیبہ اور ماہر امراض چشم تھی۔ام الحسن بنت القاضی ابی جعفر الطنجالی مختلف مضامین میں بہت وسیع علم کی مالک تھی لیکن وہ بہ حیثیت طبیب بہت مشہور تھی۔ الحفیظہ بن زھر کی بہن اور اس کی بیٹی جو المنصور بن ابی عامر کے زمانے میں مشہور تھیں بہت اچھی طبیب تھیں اور امراض نسوانی میں ماہرینِ خصوصی میں سے تھیں اور محل شاہی کی خواتین کے علاج معالجہ کے لئے ان ہی کو بلایا جاتا تھا۔ (شلبی۔صفحہ ۶۵۱)
اسی طرح تصوّف عرفان کے لئے بھی مسلم خواتین نے قابلِ لحاظ حصّہ لیا۔ چنانچہ رابعہ بصری اسلامی تصوّف کی ایک نمائندہ شخصیت ہیں جنہوں نے معرفت و روحانیت کی اعلیٰ منزلیں طے کیں۔ان کا نام اسلامی تصوّف کی تاریخ میں زندہ و جاوید رہے گا۔
مذکورہئ بالا مختلف صحابیات کے حوالوں سے اس بات کی تصدیق ہوجاتی ہے کہ خواتین نہ صرف حصولِ علم بلکہ اشاعت علم کے معاملے میں بھی نمایاں کردار ادا کر رہی تھیں۔ان کے بعض تعلیمی یا تربیتی نوعیت کے ادارے بھی آپ ؐ کی موجودگی میں ہی کام کررہے تھے۔
اسلام کے ابتدائی دور کی ایسی عورتوں کے بارے میں جو اپنے علمی ذوق کی وجہ سے بہت مشہور ہوئیں، بقولِ ڈاکٹر شلبی، ابنِ حجر نے اپنی تصنیف ’الاصابہ فی تمیزالصحابہ‘ میں اسلام کے قرون اولیٰ کی ایک ہزار پانچ سو تینتالیس (۳۴۵۱) خواتین کے سوانح حیات جمع کئے ہیں۔ النودّی نے’تہذیب الاسماء‘ میں اور الخطیب بغدادی نے ’تاریخِ بغداد‘ میں بہت سا حصہ اُن خواتین کے حالات کے لیے وقف کیا ہے جنہوں نے علم و فضل میں کمال حاصل کیا۔ (شلبی۔ صفحہ ۶۵۱)
یہ سب کس کا فیضانِ نظر تھا یہ کس ہستی کی کرشمہ سازیاں تھیں کہ جس سے مس خام کندن بن گیا اور بے قیمت کیمیا بن گیا، عرب کے بدو دنیا کی قیادت کرنے لگے اور مظلوم و محصور خاتونِ خانہ علوم و فنون کے مختلف شعبوں میں مرد کے ہم پلّہ بلکہ بعض شعبوں میں گوئے سبقت لے گئی۔یہ سب حضور ختمی مرتبت معلم انسانیت اور رحمتہ اللعالمین حضرت محمد مصطفیٰ احمدِ مجتبیٰ صلّی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی تعلیمات عالیہ اور آپؐ کے عملی اقدامات کا نتیجہ تھا کہ اسلام کے دورِاوّل میں خواتین نے جن کی حالت قبلِ ازین قابلِ رحم اور ناگفتہ بہ تھی جہاں کہیں موقع میسرآیا علوم و فنون کے حصول میں پوری مستعدی اور محنت کا مظاہرہ کیا اور مختلف علوم و فنون جیسے تفسیر، حدیث، فقہ،، فلسفہ، تصوّف، تاریخ، شعر و ادب، موسیقی و نغمہ اور طب میں نام پیدا کیا۔ اس حقیقت کا اعتراف مسلمان دانشوروں کے ساتھ ساتھ غیرمسلم اہلِ قلم بھی کھلے دل سے کرلیتے ہیں۔ چنانچہ عہدِ حاضر کے نامور مشتشرق فلپ کے۔ حتی رقمطراز ہیں کہ:-
”ہم اسلام کے قرونِ اولیٰ ہی میں عورتوں کو اونچے حلقوں میں دیکھتے ہیں۔ وہ امورِ مملکت میں ممتاز حیثیت رکھتی ہیں اور اثر و رسوخ استعمال کرتی ہیں بلکہ عرب دوشیزائیں محاذِجنگ پر جاتیں، لشکروں کی کمان سنبھالتیں، شعر کہتیں اور ادبی مشاغل میں مردوں سے مقابلہ کرتیں یا پھر اپنی ذہانت فن موسیقی کی صلاحیت اور نغموں سے معاشرے میں جان ڈال دیتیں۔“ (محمد یاسین شیخ۔’ عہدِ نبوی کا تعلیمی نظام‘، غضنفر اکیڈمی، پاکستان، کراچی، ۹۸۹۱ء،صفحہ ۴۹۱-۵۹۱)
تعلیمات نبویؐ کیروشنی میں عہدِ جدید کا یہ طبقہئ نسوں تعلیم و تربیت سے آراستہ ہو کر معاشرے میں مردوں کے شانہ بشانہ کام کرکے معاشرے سے غربت وافلاس اور معاشی و معاشرت بدحالی کو ختم کرسکتا ہے اور ایک خوشحال معاشرہ قائم کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔ اب وقت کا تقاضا ہے کہ عورتوں کو صحیح تربیت دی جائے اور انہیں تعلیم کے مواقع مہیا کرکے ان کی فطری صلاحیتوں کو اُجاگر کیا جائے تاکہ ہم معاشی اور معاشرتی بدحالی پر قابو پاسکیں اور پستی و پس ماندگی سے نکل کر ترقی کی روشن راہوں پر گامزن ہوسکیں اور ترقی یافتہ قوموں کے دوش بدوش چلنے کے اہل ہوسکیں۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button