رومی کی مثنوی میں بانسری اور اس کا نغمہ
تحریر: ڈاکٹر نیک عالم راشد
دنیا کی مذہبی اور فکری تاریخ میں یہ پیچیدہ سوالات ابھرتے رہے ہیں کہ انسان کیا ہے، اس کی حقیقتِ اصلی کیا ہے؟ روح کیا ہے؟ کہاں سے آئی ہے اور کہاں جائے گی؟ غرض ایسے غیر مرئی اور مابعد الطبیعی حقیقتوں کو سمجھانے اور انہیں لفظ و صوت کا جامہ پہنانے کے لئے علماء، حکماء اور صوفیا نے لامحالہ مختلف تشبیہات و استعارات سے کام لیا ہے۔ کیونکہ ان کے بغیر اَن دیکھی چیزوں کو سمجھا نہیں جاسکتا ہے۔بیان کی اس دشواری کے متعلّق مرزا غالب کیا خوب فرماتے ہیں کہ ؎
ہر چند ہو مشاہدہ حق کی گفتگو
بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر
چنانچہ مولانا جلال الدّین رومی نے بھی اپنی’ مثنوی معنوی‘ میں جگہ جگہ تشبیہات و استعارات، حکایات و تلمیحات اور نغمہ و نَے کا استعمال کثرت سے کیا ہے۔ انہوں نے مثنوی کا آغاز ہی بانسری کی حکایت و شکایت سے کی ہے۔ وہ بانسری کی تشبیہ انسانی روح سے دیتے ہیں اور نیستان سے ان کے ہاں عالمِ روحانیت یا خدائی وحدت مراد ہے۔جبکہ نَے کی حکایت اور شکوہ و شکایت سے مراد ہے کہ انسانی روح اپنے اصل مقام، جوکہ عالمِ روحانی یا عالمِ وحدت ہے، سے جدا ہوکر اِس مادی دنیا میں آئی ہے اور انسانی جسم میں مقیّد ہے اور وہ اس قید سے نکلنے اور مادے کے تصرّف سے نجات پانے اور اپنے اصل وطن یعنی عالمِ روحانی کی طرف مراجعت کے لئے تگ و دو کرتی ہے۔ اس تگ و دو یا اس بے قراری کو رومی نے عشق کا نام دیا ہے جو ان کی پوری مثنوی کے محوّر و مرکز کی حیثیت رکھتا ہے۔ رومی کے پیشرو صوفیاء بلکہ ان سے بہت پہلے یونانی فلسفی فلاطینوس نے بھی رُوح کی اپنے مبدائے حقیقی کی طرف پرواز کرنے کی کوشش پیہم کو عشق کے نام سے موسوم کیا ہے۔ سیّد علی عبّاس جلال پوری تو واشگاف الفاظ میں کہتے ہیں کہ رومی کا فراق و وصال اور فصل و جذب کا نظریہ بالواسطہ فلاطینوس سے ماخوذ ہے۔ وہ اپنی تصنیف ’روایاتِ فلسفہ‘ میں لکھتے ہیں کہ ”مثنوی مولانا روم میں فصل و جذب کا جو نظریہ پیش کیا گیا ہے وہ ابن عربی کے واسطے سے فلاطینوس ہی کی صدائے باز گشت ہے۔“ بلکہ افلاطون سے لے کر فلاطینوس تک، بایزید بسطامی اور منصور الحلّاج سے محی الدّین ابن العربی اور مولانا جلال الدّین رومی تک اور ہنری برگساں سے علّامہ ڈاکٹر محمّد اقبال تک مثالیت پسند اور نو فلاطونی فلسفیوں اور صوفیوں کا یہی نقطہئ نظر رہا ہے۔
بہر کیف، رومی کا بانسری والا مذکورہ بیان روح و روحانیت کے بارے میں اُن کی ایک غیر مبہم اور آسان تشریح سمجھی جاتی ہے جس کو عامہ و خاصہ سب بآسانی سمجھ سکتے ہیں۔ بانسری سے متعلّق اشعار جو مثنوی کے شروع میں آئے ہیں وہ رومی کی پوری مثنوی کا خلاصہ تصوّر کئے جاتے ہیں۔ جس طرح سُورہئ فاتحہ پورے قرآن کا نچوڑ ہے۔ چنانچہ ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم نے اس حوالے سے ایک جچی تُلی رائے دی ہے، وہ اپنی کتاب ’تشبیہاتِ رومی‘ میں لکھتے ہیں کہ:”مولانا کا بانسری کا مضمون ان کی تمام مثنوی اور تمام تصوّف کا لب لباب ہے۔ ان ابتدائی اشعار کو باقی مثنوی سے کچھ ویسا ہی تعلّق ہے جیساکہ سورہئ فاتحہ کو قرآن کریم سے۔ جس طرح تمام قرآن اور اسلام کا عطر سورہئ فاتحہ میں موجود ہے اسی طرح مولانا کے بانسری کے اشعار میں، جو مثنوی کی تمہید ہیں، ان کا تمام تصوّف اور فلسفہ ایک لڑی میں پرویا گیا ہے۔“
بانسری سے متعلّق رومی کے ابتدائی اشعار،جو ’مثنوی‘ میں مذکور ہیں، یہ ہیں ؎
بِشنو از نَے چوں حکایت میکُند وز جدائیہا شکایت می کند
کز نَیَستاں تا مَرَا ببریدہ اند از نفیرم مرد و زن نالیدہ اند
سنیہ خواہم شرحَہ شرحَہ از فراق تا بگویم شرحِ دردِ اشتیاق
ہر کسے کو دُور ماند از اصلِ خویش باز جوید رُوزگارِ وصلِ خویش
فہم گردارید جاں را راہ دہید بعد زاں از شوق پا در رہ نہید
ترجمہ:۔ بانسری سے سُن کیا حال سناتی ہے اور ہجر و فراق کی (کیا) شکایت کرتی ہے۔
کہ جب سے مجھے نَے کی زمین سے کاٹ (کر جدا کر) دیا گیا ہے۔ میرے نالہ و فغاں سے مرد و زن روتے ہیں۔
میں (سننے والے کا ایسا) سینہ چاہتی ہوں (جو پہلے ہی) فراق کے مارے پارہ پارہ (ہو) تاکہ (میں اس کو اپنا ہمدرد سمجھ کر) دردِ شوق (کا حال) کھول کر سناؤں۔
جو شخص اپنے اصل (زاد بوم) سے دور ہوجاتا ہے وہ پھر ایّامِ وصل کی تلاش کیا کرتا ہے۔
(رومی ان اشعار کے آخر میں کہتے ہیں کہ) اگر تم سمجھ (کا مادہ) رکھتے ہو تو (اپنی) روح کو (ترقی کا) راستہ دو۔ پھر اس راستے پر شوق سے چلو۔
(’مِفتاح العلوم‘، جلد اوّل، ’شرح مثنوی مولانا روم‘، دفتر اوّل، حصّہئ اوّل، از مولوی محمّد نذیر عرشی، ص ص ۴۲۔۷۲، ۲۵)
رومی کی بیان کردہ اس حکایت میں نالہئ فراق کے مضمرات انسان کی مادی زندگی سے اس کی روحانی یا ابدی زندگی کی جانب پیش قدمی اور اس کے حق میں واصل ہونے کی روئداد سناتے ہیں بلکہ اسرار حیات کو منکشف کرتے ہیں۔ ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم اس حقیقت کو حسین اور بہترین پیرائے میں بیان کرتے ہیں۔ وہ ’تشبیہاتِ رومی‘(ص ص ۰۱۔۱۱)میں لکھتے ہیں کہ: ”رازِ حیات اسی نالہئ فراق کے اندر مضمر ہے۔ حقیقت کو منوّر کرنے والا نور چشم و گوش میں نہیں ہے۔ جس طرح جان جو تن میں مستور ہے محسوسات کا معروض نہیں بن سکتی یہی حال اس سرِّ ازلی کا ہے جس میں روحِ انسانی نَے کی لے میں غوطہ زن ہے۔“
رومی اُس عالمِ روحانی کی حقیقت بھی بتلاتے ہیں جو روحِ انسانی کا مصدر و منبع ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ وہ عالم اصل ہے اور یہ عالمِ مادّی اس کی نقل ہے، وہ عالم زندہئ جاوید ہے اور یہ عالم فانی اور آنی جانی ہے۔ اِس مادّی دنیا پر لفظ و صوت کی سروری ہے اور اُس عالمِ روحانی پر الفاظ و اصوات کا بس نہیں چلتا، وہ تو ان مادّی حدود و قیود سے ماوریٰ ہے اور وہ حقیقی مسرّتوں، شادکامیوں اور اطمینان و سکون اور راحتوں کی دنیا ہے۔ اس لئے انسانی روح اس عالمِ باقی تک رسائی کی متمنّی ہے۔ چنانچہ رومی بھی دعا کرتے ہیں اور وہ آرزو مند ہیں کہ خدا اس کی روح کو پھر اس محل و مقام تک پہنچادے جہاں کلام الفاظ کا محتاج نہیں ہے۔ فرماتے ہیں ؎
اے خدا بنما تو جاں را آں مقام کاندرو بے حرف مے رؤید کلام
ترجمہ:۔ الٰہی ہم کو وہ مقام دکھا جس میں بلاواسطہ حروف و الفاظ کلام (نفسی) پیدا ہوتا ہے۔