کالمز

سازش اور مداخلت میں فرق

تحریر : یحییٰ ابراہیم شگری
چند روز سے لفظ سازش اور مداخلت پاکستانی عوام کے درمیان زیر بحث ہے ۔ ہر کوئی اپنے طور سے ان دو لفظوں کو مختلف رنگوں میں ڈھال رہے ہیں تو میں نے سوچا ان دو لفظوں کا تھوڑا سا جائزہ لے لوں ۔ تو عزیزان محترم آپ سب کو بخوبی یاد ہے کہ آج سے چند سال پہلے پاکستان کے سرحدی علاقے سے بھارت کی طرف کبوتروں کے ذریعے خط بھیجے تھے جس پر  پاکستان ذندہ باد لکھا ہوا تھا  بھلا سے یہ خط انڈین میڈیا کے ہاتھ لگی اور خوب واویلا کیا اور ہمیشہ کی طرح پاکستان اور آئی ایس آئی پر سازش کا الزام لگا دیا ۔  یہاں یہ کلئیر کر دوں کہ یہ بھارت کے لئیے سازش تھی اور جس بھی پاکستانی نے کبوتر کے ذریعے خط بھیجا وہ اس کی مداخلت تھی ۔ دوسری مرتبہ کسی پاکستانی نے غباروں پر پاکستان ذندہ باد لکھ کر انڈیا کی طرف روانہ کر دیا  اس پر بھی انڈین میڈیا نے اتنے واویلا و فریاد کئیے جیسے کسی نے ان پر بمباری کی ہو  ، تیسری دفعہ پاکستانی سبزی فروشوں نے سبزیوں پر پاکستان ذندہ باد لکھ کر ہندوستان بھیج دیا تب بھی بھارتی جنتا اور میڈیا واویلا کر رہے تھے ۔ الغرض یہ کہ ایک پاکستانی کی  معمولی سی شرارت کو  بھارتی میڈیا اور جنتا نے اتنا ہائی لائٹ کیا اور دوسروں کے سامنے خود  کو مزاق بنوا دیا ۔   اور اس وقت ہم بھارتیوں کا خوب مذاق اڑاتے تھے ۔ اور اب حالات کچھ یوں ہے کہ ہمارے ملک کے سابق وزیر اعظم صاحب ایک چھوٹی سی چٹھی کو لے کر اپنی ڈوبتی ہوئی سیاست کو بچانے کی کوشش کر رہا ہے ۔ کہا جارہا ہے کہ امریکہ کی طرف سے دھمکی آمیز خط موصول ہوئی ہے ۔ حقیقتاً دیکھا جائے تو پاک فوج کے ترجمان نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ اس معاملے میں کسی کی سازش نہیں ہے ادھر امریکہ بھی کہ رہے ہیں کہ ہماری طرف سے کوئی خط نہیں بھیجا گیا ۔ اور خان صاحب مسلسل عوام کے سامنے امریکی سازش کا ڈھونگ رچا کر  بیوقوف بنا رہے ہیں ۔ عوام سے امریکہ مردہ باد کا نعرہ لگوانے والے خان صاحب کے وزراء کو جب کہا گیا کہ آپ بھی امریکہ مردہ باد کا نعرہ لگائیں تب شاہ محمود قریشی اور شہباز گل صاحب کہتے ہیں کہ ہم امریکہ کے خلاف نہیں بول سکتے ۔ ان صاحبان کا مستقبل بھی امریکہ برطانیہ میں ہے تو یہ صاحبان صرف عوام سے نعرہ لگوا رہے ہیں اور خود امریکہ کے خلاف بولنے سے گریز کر رہے ہیں ۔  خدانخواستہ  اگر اپوزیشن میں سے کوئی ایسی بیان دیتا تو آج اس کو غدار قرار دیا جاتا اب عمران خان کے وزراء کہ رہے ہیں تو کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا غدار کہلانے کا ۔
 امریکہ کی کھل کر مخالفت کرنا بہت بڑی بات ہے اور اگر کسی بڑی پالیسی پر مخالفت کرتا تو خان صاحب آج پوری دنیا پر چھا جاتا اب کوئی بڑی پالیسی نہیں صرف اپنی اقتدار بچانے کا چکر ہے ۔
زرا سوچیں کہ خان صاحب امریکہ کی مخالفت مسجد اقصیٰ کی حرمت کے لئیے کر رہے ہیں ؟
کشمیر اور فلسطین کی آزادی کے لئیے کر رہے ہیں ؟
ناموس رسالت کے لئیے کر رہے ہیں ؟
قوم کی بیٹی عافیہ صدیقی کی رہائی کے لئیے کر رہے ہیں ؟
 نہیں نا
عمران خان صاحب صرف اپنی اقتدار بچانے کے لئے  یہ سب کر رہے ہیں  ۔ کاش اگر مسجد اقصیٰ کے بارے میں کھل کر امریکہ کی مخالفت کرتا اور فلسطین کی کھل کر حمایت کرتا تو آج یہود و نصارٰی میں مسجد اقصیٰ کے توہین کرنے کی ہمت نہ ہوتی ۔ اگر کشمیر کے معاملے پر کھل کر مخالفت کرتا تو آج UN کی طرف سے کشمیریوں کو تھوڑی بہت تحفظ اور حقوق مل جاتے ۔ ناموس رسالت کے معاملے پر اگر فرانس سے کھل کر مخالفت کرتے تو آج کسی ملک کو ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے کی جرات نہ ہوتی ۔ عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے امریکہ کی مخالفت کرتا تو آج عافیہ صدیقی رہا ہو چکی ہوتی ۔ افسوس  کا مقام ہے عمران خان صاحب فلسطین ، کشمیر اور ناموس رسالت جیسے بڑے بڑے مسئلوں پر اتنی مخالفت نہیں کی جتنی آج کل اپنی ڈوبتی ہوئی سیاست کو بچانے کے لئے کر رہے ہیں ۔  اور خوش قسمتی سے خان صاحب کا یہ بیرونی سازش نامی  پلان مکمل کامیاب ہوا اور پوری قوم  اس خط کو لے کر عمران خان کو سپورٹ کر رہے ہیں جو کہ کسی غیر زمہ دار شخص کی طرف سے بھیجا گیا ہے ۔ اس پلان کے تحت سیاست کو چمکتا دیکھ کر پڑوسی ملک کے وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی یہی کچھ دہرانے کی کوشش کی ہے ۔ بھارتی تحقیقاتی ادارے کے مطابق نریندر مودی کو دھمکی آمیز ای میل موصول ہوئی ہے جس میں نریندر مودی کو جان سے مارنے کی دھمکی دی گئی ہے ۔ مجھے امید ہے  یہ پلان انڈیا میں بھی کامیاب رہے گا اور مودی کی سیاست بھی عمران کی سیاست کی طرح چمکتا رہے گا ۔ گستاخی معاف  اب میں یہاں عمران خان اور مودی کو کمپئیر کر رہا ہوں تو مجھ پر  غداری کا الزام بھی لگ سکتا ہے ۔ لیکن یہ سچ ہے کہ دونوں کی سیاست میں بہت زیادہ مشابہت ہے ۔
وہاں نریندر مودی اور ان کے حواری  BJP والوں کے علاوہ سب کو دیس کا غدار سمجھتے ہیں اور ادھر خان صاحب اور PTI والے  انصافیوں کے علاوہ سب کو غدار قرار دیتے ہیں   ۔
وہاں  سدھو پاجی کو اس لئیے غدار قرار دیا جاتا ہے کہ وہ پاکستان جاتا ہے تو ادھر نواز شریف کو اس لئیے غدار قرار دیا جاتا ہے کہ اس نے اپنے نواسی کی شادی پہ مودی کو دعوت دی ۔
ادھر اسد الدین اویسی کو اس لئیے غدار قرار دیا جاتا ہے کیونکہ وہ ایک مسلمان ہے ۔ اور یہاں مولانا فضل الرحمان کو امریکہ نواز کا لقب دے کر غدار قرار دیا جاتا ہے ۔
وہاں بھی سیاسی مفاد کے لئیے مذہبی جنونیت کو فروغ دیتے ہیں تو یہاں بھی  مذہبی جنونیت کو سیاست کا حصہ بنا رہے ہیں ۔
نریندر مودی اپنی اپوزیشن کو پاکستانی ایجنٹ کہتے ہیں تو یہاں خان صاحب اپنی اپوزیشن کو بھارت نواز کے القاب دئیے جاتے تھے ۔
تو خیر ہم اپنے ٹاپک پر واپس آتے ہیں تو یہ بتاتا چلوں کہ یہ سازش ، مداخلت یہ وہ سب کچھ عوام کو بیوقوف بنانے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے ۔ انڈیا میں کوئی کتا بھی مر جائے تب بھی کہتا تھا کہ یہ پاکستان کی سازش ہے اور اس میں آئی ایس آئی کا ہاتھ ہے ۔ اور اب ہماری باری ہے کہیں کوئی مئسلہ ہو جائے  سیدھا امریکہ اور بھارت پر کسی قسم کا الزام لگادو ۔ کہیں عدم اعتماد کامیاب ہو جائے یا کوئی الیکشن ہار جائے تو یہ بالکل نہیں سمجھنا کہ ہماری کارکردگی اچھی نہیں تھی بلکہ یہ سمجھنا کہ امریکہ کی سازش ہے ۔ اور اگر اقتدار میں ہیں تو عوام کی فکر بھی نہیں کرنا کیونکہ جب اقتدار کی مدت ختم ہونے کے قریب ہوں تو امریکہ اور بھارت پر کوئی الزام لگا دو سادہ لوح عوام کھل کر سپورٹ کریں گے ۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button