کالمز

ہمارے سرکاری  دفاتر اور گلگت بلتستان کے مجبور عوام

نیلوفر بی بی

انسانی حقوق کے حوالے سے آگر ہم  انسانی تاریخ کا دریچہ کھولے  تو  ہمیں انتہائی خوفناک اور شرم ناک  مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ اشرف المخلوقات، مسجود ملائک یعنی انسان کی خریدوفروخت کے لیے باقاعدہ منڈیاں لگتی تھیں۔ گاجر مولی کی طرح   انسان بھکاو مال تھا۔ طاقتور کو جہاں کمزور انسان نظر آئے،  گائے  بکری کی طرح گر دن  دبوچ لیتا اور منڈی میں فروخت  کردیتا۔

یوں ساری زندگی کے لیے غلامی کا طوق اسے کے گلے میں ڈال دیا جاتا۔آقا کی جاگیر سے بھاگے ہوئے غلام کو سخت ترین سزا دی جاتی ۔ جتنا سرمایہ اتنے  غلام خریدے جاتے ،جتنی طاقت رکھتا ظلم کا تنور اتنا گرم رکھا جاتا۔

سلام ہے انسان کی عظمت پر ۔ حیوانیت ،استحصال ، ظلم اور جبر کے اس تاریک دور  میں بھی انسان کی فطری خواہش آزادی کے جذبے نے اسے  آزاد فضاؤں میں جینے  کا خواب دیکھا یا۔

 وحشی جاگیردار کے سامنے،مجبور انسانوں کا خون چوسنے والے سرمایہ دار کے سامنے اور وقت کے فرعونوں کے سامنے سر اٹھانے آپنے حق کے لیے لڑنے استحصالی قوتوں سے ٹکرانے کا حوصلہ دیا۔

 اس تاریک دور میں انسان کی آزادی،خودمختاری اور شخصی وقار کی بات کرنے والوں کے جسم سے کھال اتار کر اس میں بھس  بھرا جاتا  اور جا گیر کی فصیل پر  لٹکایا جاتا  تاکہ دوسرے لوگ عبرت حاصل کریں  ۔ دوبارہ کوئی انسانی حقوق کی بات نہ کریں ۔ لیکن جب اللّٰہ نے انسان کو آ زاد ،باوقار اور عظمت کے ساتھ پیدا کیا ہے ۔انسان  کو عقل وشعور سے نوازا ہے جذبہ ایمان سے دل منور ہو گردن میں طوق، ہاتھوں میں ہتھکڑیاں اور پاؤں میں بیڑیاں موم بن کر  غلامی کی تاریک راہوں کو  روشن کرنے کے لیے چراغ بن کر جگمگانے لگتے ہیں۔

کچھ عرصہ قبل مجھے آپنےمسلے کے حل کے لیے گورنمنٹ کے اداروں سے رابطے کا موقع ملا ۔ گورنمنٹ کے اداروں میں اپنے مسائل کے حل کے لیے آئے ہوئے گلگت بلتستان کے غریب ،مجبور شہریوں کو دھکے کھاتے دیکھ کر مجھے دور غلامی کے انسان یاد آگئے۔

تاریخ کے ظلم سے ظلم بادشاہوں کے محل کے باہر  آپ کو ایسے مجبور  ،بے بس ،  بدحال  انسان نہیں ملیں گے جو حالت میں نے گورنمنٹ آف گلگت بلتستان کے سرکاری دفتروں کے باہر اپنے مسلوں کے حل کے لیے اے مجبور انسان  دیکھے۔

میں ان کے لیے شہری کا لفظ استعمال نہیں کرسکتی ان کی حیثیت  کسی ظلم بادشاہ کے رعایا سے بدتر ہیں ۔ بغیر سفارش کے جائز طریقے سے اپنے مسئلے کے حل کے لیے آئے ہوئے لوگوں کو کوئی منہ نہیں لگاتا ۔ گھنٹوں انتظار کروانے کے بعد   کل آنے کا کہہ کر وآپس بیھج دیا جاتا ہے اور پھر یہ کل کبھی نہیں آ تا۔

کتنے لوگ ایسے ملے جو اپبے مسلوں کے حل کے لیے کہی سالوں سے دھکے کھارہے ہیں بغیر سفارش سے کوی بات سنے کو تیا ر ہی نہیں ایسے میں  مسئلہ حل کرنا دور کی بات۔

آگر کوئی پرھا لکھا انسان  ہو تو بہانے بنائے جاتے ہیں

ہمارے پاس اختیارات نہیں ،ایک آفیسر دانت نکالتے ہوئے کہہ رہے ہیں ہمارا ادارہ برائے نام ادارہ ہے۔ مجھے حیرت ہے جس ملک کی معیشت کا انحصار بیرونی قرضوں پر ہو وہاں صرف تنخواہیں بٹورنے کے لیے برائے نام ادارے قائم کرنا۔ دنیا کے مہذب اور ترقی یافتہ معاشروں کی کامیابی کی بنیاد ان کے مضبوط،فعال اور معاشرتی بہبود میں سرگرم اداروں پر ہے۔

گورنمنٹ کے اداروں میں بیٹھے ان فرعونوں کی صبح گیارہ بجے ہوتی ہے اس کے بعد نہ ختم ہونے والی میٹینگ کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ آس کے بعد بتایا جاتا ہے صاحب  دورے پر ہیں۔

کچھ سرکاری دفتروں میں مجھے عجیب بات دیکھنے کو ملی  عوام سرکاری آفیسر سے ہاتھ جوڑے ،گردن جھکائے ایسی مجبوری اور  بے بسی سے بات کرتے ہیں کہ سامنے والا سرکاری آفیسر نہیں بلکہ کسی دربار کا نواب معلوم ہوتا ہے۔

تاریخ نے مفت میں ہلاکوخان اور چنگیزخان کو بد نام کیا ہے۔

جب حکومت کی جانب سے ایک افسر کو عوام کی خدمت کے لیے مسائل کے حل کے لیے مقرر کیا ہے اور وہ  اس کام کا معاوضہ لیتا ہے پھر یہ نوابی نخرے کیوں۔ غریب عوام کا افیسر کے سامنے یہ فریادیوں  والا انداز ،لہجہ اور اطوار کیوں ۔ کیا بغیر سفارش،خوشامد ،چاپلوسی ،گردن جھکائے، ہاتھ جوڑے  بغیر مسئلے حل نہیں ہوسکتے۔

بحیثیت مسلمان جب اللہ تعالیٰ کے سامنے سر جھایا ہے پھر کیوں مسائل کے حل کے لیے سرکار کے سامنے آپنی خوداری۔شخصی وقار کو زمین بوس کریں ۔ بداخلاق سرکاری عملہ خواتین سے جس طریقے پیش آتے ہیں اللّٰہ کی پناہ ۔

ایک بیوہ خاتون بتارہی تھی گورنمنٹ کی طرف سے بیوہ خواتین کے لیے امدادی پیکیج کا اعلان کیا گیا تھا جس کے لیے انہوں نے بھی درخواست دی تھی۔  گورنمنٹ کے آفیسر کی جانب سے دی گئی موبائل نمبر پر بات نہ کرنے کی وجہ سے اس ںیوہ خاتون کا نام مستحق خواتین کی فہرست میں شامل نہیں کیا گیا۔ گلگت بلتستان کے غیور ،بااخلاق اور دنیا کے سب سے مہزب لوگوں کے ساتھ گورنمنٹ کے اداروں میں جو سلوک ہورہا ہے۔ اس بنیاد پر میں صرف اتنا کہ سکتی ہوں تاریخ کے وہ ظلم بادشاہ،جاگیردار اور جبشی غلام آج بھی موجود ہیں صرف نام تبدیل ہوئے ہیں۔مظالم کی صورت  اور انسانیت کی تزلیل کے انداز تیدیل ہوے ہیں ۔

مجھے ہر  نامناسب بات پر تنقید کا حق ہے

مری تقریر سے تعبیر ہے  تعمیر  آزادی

لہو برسا،  بہے آنسو،  لٹے رہرو،  کٹے رشتے

ابھی تک نامکمل  ہے  مگر  تعمیر آزادی

ابھی طوق و سلاسل میں ہیں آزادی کے دیوانے

مگر زنداں کے دروازے پہ ہے تصویر آزادی

غلام ابن غلام اپنی وراثت کیوں سمجھتے ہیں

ہوئی ہے جب ہمارے نام پر تعمیر آزادی

تڑپ کر بزم میں دانش   چلے آئے ہیں پروانے

اندھروں سے مگر پھوٹی نہیں  تنویر آزادی

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button