قدرتی چشموں سے مالا مال سر زمین کے باسی صاف پانی کی سہولت سے محروم
تحریر:سیدنذیرحسین شاہ نذیر
اپرچترال کے دورافتادہ اورپسماندہ گاوں پترانگازیارخون کے رہائشی جمعہ خان اوراس کا اہلیہ ذیفوربی بی نے ڈیلی چترال کیساتھ گفتگوکرتے ہوئے یوں اپنے جذبات کا اظہار کیا کہ کیا ظلم ہے کہ چترال کا علاقہ جو صاف شفاف ندی نالوں اور دریاوں کی زمین ہے اسی کے باسی پینے کے لئے، کھانا پکانے کے لیے اور گھریلو کام کاج کے لیئے صاف پانی کی سہولت سے محروم ہیں۔ ”ہماری زندگیاں ندی نالوں سے پانی پھر کر گھر لانے میں ختم ہو جاتی ہیں ”انہوں نے کہا۔ جمعہ نے بتایاکہ گھرمیں پینے کے لئیے صاف پانی نہ ہونے کی وجہ سے ان کا خاندان انتہائی مشکل وقت سے گذر رہے ہیں۔گھرسے کافی فاصلے پردریائے یارخوں بہہ رہا ہے۔ سردیوں میں شدیدسردی اور برف باری کے باعث سے دریاسے پانی لانے میں دقت ہوتی ہیگرمیوں کے موسم میں دریا کی طغیانی کیوجہ سے گدلہ پانی پینے پرمجبورہیں۔
مختلف رپورٹس نشاندہی کرتی ہیں کہ دنیا بھر میں، خواتین اور لڑکیاں روزانہ تقریباً 200 ملین گھنٹے پانی جمع کرنے میں صرف کرتی ہیں۔ یہ قیمتی وقت اور محنت کا ضیاع ہے۔ خواتین اکثر پانی لانے اور اسے گھریلو کاموں جیسے صفائی، کھانا پکانے اور دھونے کے لیے استعمال کرنے کی ذمہ دار ہوتی ہیں۔ یونیسیف کے اعدادوشمار کہتے ہیں کہ دنیا بھر میں سوا دو بلین لوگ اب بھی گھروں میں محفوظ، آسانی سے دستیاب پانی تک رسائی سے محروم ہیں۔ پانی کے اس بحران کا بو جھ عورتوں اور بچوں پر ہے۔
جمعہ خان نے بتایا کہ ان کے علاقے میں لوگ اپنی مدد آپ کے تحت صاف پانی کے واٹرسپلائی لائن کا انتظام کیا ہے جومقامی لوگوں نے پرائیویٹ پبلک پارٹنرشپ کے تحت مکمل کی ہے مگر اس واٹر لائن سے گھر تک پانی لانے کے لیئے ان کے پاس مالی وسائل نہیں ہیں۔ جمعہ دیہاڑی دار مزدور ہیں جس کے باعث ان کی قوت اسطاعت نہیں ہے کہ وہ اپنی بچیوں کو پانی بھر کر لانے والے سخت کام سے بچا سکیں۔
انہوں نے بتایاکہ میری دوچھوٹی بیٹیاں ہیں اُن کی ہنس کھیلنے کے دن ہیں جبکہ دن میں سات سے آٹھ مرتبہ وہ اپنے کمزورکندھوں پرپانی کے بھاری جرکین اٹھاکرلاتی ہیں۔جس کوپینے،کھاناپکانے،ہاتھ منہ،کپڑے اوربرتن دھونے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ سر یاکندھوں پر اٹھاکرپانی لانے سے اکثران کی بیٹیوں کی گردان اورکمرمیں دردرہتی ہے۔ جمعہ خان کاکہناہے ان کے علاقے میں ایسے سانحے ہوئے ہیں کہ جن میں بچے پانی لاتے ہوئے دریا میں پھسل گئے۔ اسی طرح کے خطرات کا سامنا ان کی بچیوں کو بھی ہے۔
سابق ایم پی اے اپرچترال سیدسردارحسین شاہ نے بتایاکہ ان کیدیہی علاقوں میں ضروریات زندگی کے لیے دور دراز سے پانی بھر کر لانا معمولات زندگی میں شامل ہے اور یہ ایک ایسی جبری مشقت ہے جو خواتین کے فرائض کا حصہ سمجھی جاتی ہے۔ دیہاتوں علاقوں میں صرف خواتین پرہی یہ مشقت لاگو ہے۔ وہ چاہیں یا نہ چاہیں یہ ایک ایسی لازمی مشقت ہے جو ان کے آخری دم تک جاری رہتی ہے۔ مرد چاہے گھر میں ہی کیوں نہ بیٹھے ہوں وہ یہ کام نہیں کرتے بقول ان کے یہ ان کا کام نہیں سمجھا جاتا۔ پانی بھر کر لانا عورتوں کا کام ہی سمجھا جاتا ہے اور اسے ہر صورت وہی اداکریں گی۔انہوں نے کہاکہ آلودہ پانی سے صحت کوشدیدخطرہ لاحق ہو سکتے ہیں۔
چترال رقبے کے لحاظ سیصوبہ خیبرپختونخوا کا سب سے بڑاضلع ہیاس کاکل رقبہ 14850مربع کلومیٹرتک پھیلاہوا ہیجبکہ آبادی کم ہیاورحکومتی بجٹ آبادی کے حساب سے دیاجاتاہے جس کی وجہ سے یہاں کے اکثرعلاقے پینے کے صاف پانی سمیت دوسری کئی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔
معروف سماجی شخصیت وسابق یوسی ناظم لٹکوہ گبورمحمدحسین کاکہناہے کہ اپراورلوئرچترال کے اکثردیہاتی علاقوں میں واٹرسپلائی کانظام نہ ہونے کی وجہ سے خواتین آس پاس کے ندی نالوں سے بالٹیوں اورمٹکوں میں پانی بھرکرلاتی ہیں۔ گھرمیں پانی نہ ہونے کی وجہ سے سے خواتین کو زیادہ مشکلات ہوتی ہیں کیونکہ گھر میں برتن اور کپڑے وغیرہ دھونے کے لیے بھی پانی موجود نہیں ہوتا۔برفباری اورسیلاب کی وجہ سے ان علاقوں کے لوگ پانی کی بوندبوندکوترس رہے ہیں۔
ڈاکٹرفرمان نظارنے بتایاکہ گدلیپانی میں موجود مضر صحت جراثیموں کی موجودگی سے ہیضہ، ڈائریا، پیچس، ہیپاٹائٹس اور ٹائیفائیڈ جیسی بیماریاں عام ہو رہی۔ اس لیئے ضروری ہے کہ دور دراز کے علاقوں میں بھی بنیادی سہولتوں تک لوگوں کی رسائی بہتر بنائی جائے۔
سماجی کارکن عنایت اللہ اسیرؔ بتایاکہ ایک طرف چترال میں پینے کی صاف پانی کے قدرتی چشمے موجودہیں دوسری طرف ناقص منصوبہ بندی کی وجہ سے قدرت کایہ انمول تحفہ ضائع ہورہاہے جس کے نتیجے میں ایک بڑی آبادی پینے کی صاف پانی سے محروم ہے۔گولین گول کے وادی میں قدرتی چشموں کی بہتات کی وجہ سے اکثرواٹرسپلائی اسکیم اسی وادی سے نکالی گئیں ہیں۔ یہاں سے یہ قدرت کا انمول تحفہ پائپ لائن کے ذریعے چتراللایاگیاہے مگرناقص منصوبہ بندی کی وجہ سے یہ پانی لوگوں نک نہیں پہنچ سکا بلکہ راستے میں ہی ضائع ہورہاہے۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ لوگوں اور خصو صاً عورتوں کی اس مشکل کو حل کیا جائے۔ پرائیویٹ سیکٹر کو اس طرح کے کمیونٹی کی بہتری کے لیئے بنائے گئے منصوبوں کا حصہ بنانا چاہیے تاکہ وسائل کی شراکت داری سے لوگوں کی زندگی میں مثبت تبدیل لائے جا سکے۔