کالمز

آج وہ یاد آئے بہت۔۔۔۔۔۔۔  

تحریر – نیلوفر بی بی

مہذب ،باشعور اور صحت مند معاشروں کے افراد اپنافارغ  وقت  گزارنے کے لیے پارک ، تھیٹر ،لائبریری ،کھیل کے میدانوں اور میوزیم وغیرہ کا رخ کرتے ہیں ۔ وطن عزیز میں فارغ وقت میں  محظوظ ہونے کے لیے دھرنے ۔جلسے جلوس رہ گئے ہیں ۔ سرکس سے زیادہ دلچسپ تماشے یہاں دیکھنے کو ملتے ہیں۔ جس ملک کے حکمران قومی اثاثے گروی رکھ کر بیرونی قرضوں سے ملکی معیشت کا پہیہ چلارہیں ہیں وہاں پر آزاد خارجہ پالیسی کے لیے  پوری قوم کو دیوانہ بنایا گیا ہے۔

جس  ملک کے   بیوروکریٹس    نے اپنے  ناز نخروں میں، سستی، کاہلی  اور کام چوری میں لکھنؤ کے نوابوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے ۔وہاں پر امریکہ کی غلامی سے آزادی کے بعد ہم اس  بیوروکریسی کے غلام ہے۔آقا کی تبدیلی سے  بھلا غلامی ختم ہو سکتی ہے کیا؟

جہاں کا تعلیمی نظام،عدالتی نظام  اٹھارویں صدی میں انگریز آقاؤں کا بنایا گیا ہو ،اندونی نظام مفلوج حال ہو،   جہاں  مجرم جرم اس لیے کرتا ہے  کہ وہ قانون کی گرفت سے آزاد ہے ۔عدالت سے آپنے حق میں فیصلہ لینے کا اختیار رکھتا ہے۔اور مظلوم اس لیے خاموش ہے کہی انصاف کی عدالت سے اسے  اس کے ناکردہ گناہوں کی سزا نہ ملے۔

کوئی خوف خدا نہیں ۔اب   ان انقلابی جلسوں میں  آپنی سیاست چمکانے اور عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے  اردو ادب کے ان ادیبوں کا کلام  سننے کو ملتا ہے۔

۔زندگی میں  جن کے لیے ادیب ہو نا جرم بن گیا تھا ۔

کیا ہمیں  اردو ادب کے ان عظیم ادیبوں کے حالات زندگی کا کچھ  علم  بھی ہے۔کہ زندگی میں ہم نے ان کے ساتھ  کیا سلوک کیا تھا۔

لوگوں کو بے وقوف بنانے کے لیے  یہ جو تم آپنے جلسوں میں ان کے اشعار سنا رہے ہو  ۔زندگی میں  ان پر کفر کے فتوے لگے ،ان پر مقدمے چلے ، قیدوبند کی صعوبتیں دیکھی،جلاوطن کر دئیے گئے،ان کی تصانیف ضبد کر دی جاتی تھی۔

 زندگی میں ان کے فکر وفن پر قدغنیں لگائے گئے۔

جب دنیا سے تشریف لے گئے  بت بنا کر  انہیں پوجنے لگے۔

کیوں آپ اس ذہنی غلامی ، عقل وشعور سے دوری، معاشرتی منافقت اور معاشرتی جبر کے خلاف آواز نہیں اٹھاتے   ۔  آپنی زندگی میں جن  تحریروں کی وجہ سے وہ غدار  ٹھہرے۔  مرنے کے بعد ان کے فکر وفن کو قومی تعلیمی نصاب کا حصہ بنایا گیا۔ آج   وہ ہمارے قومی ہیروز ہیں ۔نہ جانے ہم مردوں سے محبت کرنے والی قوم کیوں ہیں ۔

شاعر مشرق،حکیم الامت ڈاکٹر علامہ  محمد اقبال کی  زندگی میں انہیں جن جن ناموں سے  پکارا جاتا تھا  یہ نام  ناقابل ذکر ہیں۔

حبیب جالب،جوش ملیح آبای، فیض احمد فیض،سعادت حسن منٹو  جیسے ادیبوں کو جب علم  ہوگا آج ا ان کئ تحریریں قومی تعلیمی نصاب کا حصہ ہے۔

ہمارے معاشرے کی یہ منافقت ان کے لیے قابل رحم  ہوگی۔

 اُردو ادب  کے ترقی پسند  افسانہ نگار سعادت حسن منٹو پر  اسلامی جمہوریہ پاکستان میں فحاشی پھیلانے کے مقدمے چلے ،انہیں سیاہ قلم کہا گیا۔

عصمت چغتائی نے جن معاشرتی  اخلاقی برائیوں کے خلاف آواز اٹھائی  ہمارے مذہبی ٹھیکیداروں سے یہ برداشت نہیں ہوا ۔ایک مجرم کی طرح انہیں گرفتار کروایا گیا۔

بیسویں صدی میں جن  موضوعات پر قلم اٹھانا جرم  تھا

آج اکیسویں صدی میں معاشرے پر ان اخلاقی برائیوں کے  منفی اثرات کی وجہ ان برائیوں کو قانونی لحاظ  سے جرم قرار دیا گیا ہے۔

ادیب   جہاں وقت شناس  ہوتا ہے  وہاں آنے والے وقت کا ادراک بھی رکھتا ہے۔جس کا شعور  عام لوگوں کو نہیں ہوتا۔

جوش ملیح آبادی کو حکومت پاکستان کی جانب سے کتنی  درخواستوں کے بعد پاکستان منتقل  ہونا پڑا۔  اور ہم نے ان کے ساتھ  کیا سلوک کیا ان کی  بیوی اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھی ۔ معاشی حالات سے تنگ آکر  بیٹے  نے ورک شاپ کھولی ۔ہندوستان میں ان کے آباؤاجداد جاگیروں کے مالک تھے ۔جوش ملیح آبادی کا جرم یہ تھا وہ معاشرے کے نچلے طبقے ،مجبور ،بے بس اور بدحال انسانوں کی حق کی بات کرتے تھے ۔ اصولوں پر کبھی  سمجھوتہ نہیں  کیا ۔وقت کے فرعونوں نے انہیں ہی عبرت کا نشان بنایا۔

جلسے جلسوں میں فیض احمد فیض کا کلام پڑھنے والو!  ان کی زندگی میں کسی کی جرات نہیں تھی ان کی کوئی تصنیف  بک شاپ پر  یا گھر پر  رکھے۔ان کا نام لینے پر ہی  پابندی تھی۔

 کس کس کا ذکر کروں یہاں ۔۔ غریب عوام کے حقوق کی بات کرنے  پر مجرم  ٹھہرانے والوں کی آج  تمھیں  کیوں ضرورت پڑی ۔کیوں منہ پھاڈ کے ان کا کلام سنا رہے ہو۔

پاکستانی  تاریخ سے نابلد اور پاکستانیوں پر حکمرانی کا خواب دیکھنے والا  بلاول آپنے نانا کی برسی کے موقعے پر حبیب جالب کا کلام سنا رہے تھے۔

ایوب خان اور ضیاء الحق جیسے آمروں کے دور حکومت میں  ان پر اتنا ظلم نہیں ہوا جتنے سخت دن انہوں نے بھٹو کے جمہوری دور میں دیکھا ۔

حبیب جالب  سیاسی جبرواستبداد اور سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف اور جمہو کی حق کی بات کرتے تھے

جس کی پاداش میں انیس مرتبہ جیل گئے۔زندگی کے تیس بہاریں جیل میں گزارے۔

ضیاء الحق کے دور میں  مارشل لاء پر تنقید و مخالفت میں ایک نظم لکھی جو بہت مشہور ہوئی۔جسکی وجہ سے چھ ماہ جیل کی سزا ہوئی۔

ظلمت کو ضیاء ، صرصر کو صبا ، بندے کو خدا کیا لکھنا

پتھر کو گہر  ،  دیوار کو در  ،  کرگس  کو  ہما کیا لکھنا

ایک دفعہ جب  وقت کے فرعون انہیں ہتھکڑیاں لگا کر گھر سے گرفتار کرکے لے جارہے تھے اس موقعے پر وہ لکھتے ہیں۔

اس   کو   شاید   کھلونا    لگی
میری بیٹی  مجھے دیکھ کر ہنس پڑی

بلاول !! آپ کے نانا کے حکم پر ایک مرتبہ انہیں   جوان بیٹے کی موت کے تیسرے دن جب  تعزیت کے لیے گھر میں لوگ جمع تھے  اس وقت گرفتار کیا گیا۔

 لندن  میں مقیم ،عدالتی سزا یافتہ ،جب بھی شعر سنانے کی کوشش کرتا ہے دوسرا مصرعہ بھول کر خلاؤں میں گھورنے لگتا ہے۔

اپنی سیاست چمکاؤ اور عوام کو بیوقوف بناؤ آپ کا ان عظیم ادیبوں سے کیا واسطہ۔ان ادیبوں نے جو لکھا   ان کی عملی زندگی اس کا آئینہ ہے۔

 گلگت بلتستان سے انقلابی جلسوں میں شرکت کرنے والو!!  سر زمین بے آئین میں ہم پر جو فرعون نما بیوروکریسی مسلط ہے اس کے خلاف آواز کیوں نہیں اٹھاتے، ہمارے اداروں میں جو بدانتظامی اور جس طریقے سے میرٹ کی پامالی  ہو رہی ہےاس کے  خلاف متحد کیوں نہیں ہوتے۔

لوگوں کے ذہین،فطین اور اعلیٰ تعلیم یافتہ بیٹے روزگار کی تلاش میں دھکے کھارہے ہیں اور بااثر طبقے کی خواتین آج جن عہدوں پر بیٹھی ہیں اگر اس ملک میں میرٹ کی بالادستی ہوتی کوئی انھیں جھاڑو لگانے والی ماسی کی نوکری بھی نہ دیں۔

گلگت بلتستان کے دور دراز علاقوں کے لوگ بنیاد ی صحت اور تعلیمی سہولیات سے ہی محروم ہیں ۔کیا ہماری یہ حالت امریکہ کی وجہ سے ہے۔

مزہب کے نام پر اللّٰہ کی مخلوق کو تقسیم کرنے والو!  فرقہ واریت کو ہوا دینے والو!  کچھ اور نہ سہی گلگت شہر میں پبلک ٹرانسپورٹ میں ہماری خواتین جس طرح دھکے کھارہی ہیں یہ کیوں نظر نہیں آتا آپ کو ۔ضرورت کے تحت خواتین گھر سے باہر نکلی ہیں تو کیا ہم انہیں اس طرح خوار کریں گے ۔

کیوں اسلامی اقدار کو عورت کے لباس اور پردے تک ہی محدود کردیا ہے۔فلاحی ریاست کا تصور سب سے پہلے دین اسلام نے پیش کیا تھا ۔انسانی حقوق کا سب سے پہلے  ذکر  حجتہ الوداع کے موقع پر ہوا تھا ۔پھر ہم کیوں ایک جنگل نما معاشرے میں رہتے ہیں۔

طوطے کی طرح مغربی نظریات رٹنے کے بعد بے حسی کو مثبت  سوچ کا نام دینے والو!

 اسلامی جمہوری معاشرے میں ہمارے دفتروں میں کس طرح خواتین آپنی عزت گروی رکھ کر نوکری کرنے پر مجبور ہے۔ گلگت بلتستان میں خاص طور پر بڑے انٹرنیشنل پرائیویٹ ادارے ایک طرف دنیا کو اپنا مہذب چہرہ دکھانے کے لیے انسانی حقوق کے اداروں کے ساتھ ملکر خواتین کے حقوق کے موضوع پر اجلاس اور سیمیناز کا انعقاد کرتے ہیں جبکہ دوسری طرف آ پنی خواتین ملازمین کو گالیاں دیتے ہیں۔

 ملازمت کے نام پر خواتین کا جس طریقے سے ان اداروں میں استحصال  ہورہا ہے اسکے خلاف آواز اٹھانے کے لیے کونسا فورم ہے ہمارے پاس ۔ ۔مافیا کے روپ میں ان بڑے اداروں کے خلاف کوئی آواز اٹھائے بھی تو نقار خانے میں  طوطی کی کون سنتا ہے۔

گلگت بلتستان ہمارے  موقع  پرست سیاست دان حکومت کو ناکام بنانے کی سازشوں میں لگے  ہوئے ہیں  ۔گلگت بلتستان کے لوگوں نے وہ دور بھی دیکھا ہے جب تین لاکھ میں سرکاری نوکریاں فروخت  ہوئی۔

جب بے گناہ لوگوں پر جھوٹے مقدمات بنائے گئے۔ان بے گناہوں نے جیل کی کوٹھری میں یہ آٹھ سال کیسے گزارے،ان کے پیچھے غریب ماں باپ نے  کیسے کیسے دن دیکھے اور ان کی باہمت بیویوں نے تنہا گھر،بچے اور باہر کا کام کیسے سنبھالا یہ صرف وہی جانتے ہیں۔

ہمارے سیاستدانوں کو آئینی صوبے کے نعروں میں عوام کے تمام بنیادی مسلوں کو دفن کرنے کااچھا بہانہ ملا ہے۔

گلگت بلتستان میں جو  انتظامی حالاتِ ہیں اس میں صوبائی  حیثیت اور اختیارات  حاصل  ہو بھی جائے

 تو کیا اس کے ثمرات عام آدمی تک پہنچا ممکن ہے؟

بلوچستان کے نوابوں کی زمینوں پر کام کرنے والی بدحال  کھیت مزدور خواتین اور لاپتہ افراد نظر  نہیں آتے۔ آپنے پیارے ملک میں کوئی کیسے لاپتہ ہوسکتا ہے۔ ماں کی آغوش سے کوئی کیسے غائب ہوسکتا ہے۔

 ۔صوبہ سندھ میں وڈیروں کے ہاتھوں ستائے  ہوئے غریب لوگ ،تھر کے بھوکے بچے نظر نہیں آ تے۔

اللہ نے انسانوں کا جسم کھال ،ہڈیوں اور گوشت سے بنایا ہے۔

تھر میں کیوں ایسے بچے پیدا ہوتے ہیں جن کے جسم پر صرف  کھال اور ہڈیاں ہوتی ہیں۔

ہمیں نہیں چاہیئے ایسا صوبہ ۔ ایسے صوبے سے بہتر نہیں ہے ہماری جدوجہد اور مطالبات  معاشرتی جبر اور استحصال سے آزاد ایک  تعمیری اور فلاحی معاشرہے کے لیے ہو  ۔جہاں ہر فرد کو اپنی ذات کی تکمیل اور فطری صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے  یکساں مواقع ملے۔معاشرتی انصاف ،مساوات اور معاشرتی وسائل پر سب کا حق ہو ۔

ہمارے ادیب معاشرے کے ہر فرد کو ملت کے   مقدر کا ستارہ سمجھتے تھے۔یہی وہ نقط نظر تھا جس کی وجہ سے ہمارے ادیب اس جنگل نما معاشرے کے لیے ناقابل قبول تھے۔

یہ نچلے طبقے کے افراد بھی عجیب لوگ ہیں ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء پر  سب سے پہلے ایمان لانے والا یہی طبقہ تھا ۔دنیا میں  انقلابی تحریکوں کو چلانے والے ،ان تحریکوں کو کامیاب بنانے والے اس طبقے کے لوگ تھے۔

 لیکن ہمیشہ  انقلاب کے بعد خالی ہاتھ رہے .

یہ کہانی پھر سہی۔۔۔۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button