کالمز
قیدی بھی انسان ہوتا ہے
۔تحریر: نیلوفر بی بی
معاشرتی زندگی میں فرد اور معاشرے کے درمیان ایک عمرانی معاہدہ پایا جاتا ہے۔جو حقوق وفرائض کی ادائیگی پر قائم ہے۔ اس معاہدے میں عدم توازن معاشرتی بگاڈ کی صورت میں نمودار ہوتا ہے ۔معاشرے میں جرائم کی شرح میں روز بروز اضافہ اس کی ایک مثال ہے۔
معاشرے کے ناخداؤں نے مجرموں سے جیل بھرنے کو اس مسلے کا حل قرار دیا ہے۔ ایک طویل جدوجہد کے بعد انسانیت کو دور غلامی سے آزادی ملی تھی۔لکین بہت تھوڑے ہی عرصے میں انسانیت کو سرمایہ دارانہ نظام اور طبقاتی نظام کے شکنجوں میں جگڑ دیا گیا۔یوں غلامی کی مختلف صورتیں،مظالم کےمختلف بھیانک طریقے سامنے آئے۔ اس وقت دنیا میں قیدیوں کے ساتھ جو غیر اسانی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ عقل وشعور کی رو سے،احترم انسانیت کے پہلو سے کسی ذی روح کو اس طرح پریشان کرنا ،تکلیف دینا،کسی اذیت سے دوچار کرنا اور کسی بھی طریقے سے ظلم وزیادتی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
دین اسلام نے آ ج سے چودہ سو سال پہلے قیدیوں سے حسن سلوک کی تاکید فرمائی ہے لیکن نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے ہمارے اسلامی جمہوری معاشرے میں شاید ہی ان تعلیمات پر عمل ہورہا ہو ۔
قیدیوں کے بنیادی انسانی حقوق میں مناسب کھانے پینے کا بندوست ، رہنے کے لیے ہوا دار جگہ ، آرام دہ بستر ، صاف ستھرا لباس ، صحت صفائی کا انتظام ، گرمی سردی کا خیال ، وقفے وقفے سے طبی معائنہ ، مثبت تفریحی مشاغل ، ریڈیو،اخبارات ،ٹی وی تک رسائی ، تعلیم وترتیب ، کسی ہنر کی تربیت ، کوئی قیدی آپنی تعلیم مکمل کرنا چاہتا ہے تو اسے اس موقع کی فراہمی،
قیدیوں سے گفتگو میں نرمی ،شائستگی اور صلہ رحمی ،جرائم کے لحاظ سے قیدیوں کی درجہ بندی کرنا، گھر والوں ،دوست احباب سے ملاقات اور ٹیلی فون نک رابط شامل ہیں۔
احترام انسانیت اور اسلامی تعلیمات کے مطابق قیدیوں سے غیر انسانی سلوک کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
قیدیوں سے حقارت اور توہین آمیز رویوں سے پیش آنا، ، قیدیوں کو الکیٹرک شاٹ لگانا ، حد سے زیادہ مار پیٹ کرنا ، تنگ جگے پر اور سخت فرش پر انہیں رکھنا، سخت ٹھنڈک میں برف کی سلوں پر ڈالنا ، مختلف طریقوں سے قیدی کو جگائے رکھنا وغیرہ یہ سب غیر انسانی ،غیر اخلاقی سلوک کی صورتیں ہیں۔
سخت ترین جرائم کی صورت میں بھی احترام انسانیت واجب ہے۔ دنیا بھر میں مشہور جیلوں میں قیدیوں کے ساتھ جو غیر انسانی سلوک روا رکھا جاتا ہے ان کا ذکر سن کر انسانیت کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔
بدنام زمانہ گوانتاناموبے جیل میں قیدیوں پر مظالم کی داستان سن کر کچھ لکھنے کے لیے الفاظ ہی ختم ہو جاتے ہیں۔ یہ جیل نہیں بلکہ قیدیوں پر ظلم وستم کے نئے نئے طریقے دریافت کرنے کا ایک سینٹر ہے۔ لیکن اس کے باوجود دنیا بھر میں امریکہ اور امریکہ کی پالیسیوں کے خلاف نفرت میں اضافہ ہوا ہے۔
سزا کا مقصد اصلاحی ہو۔ مجرم سے نفرت کرنے کے بجائے جرم اور گناہ سے نفرت کریں ۔جب ایک انسان جرم کی طرف بڑھتا ہے تو یہ معاشرے کی ناکامی اور معاشرتی اداروں پر بھی سوالیہ نشان ہوتا ہے۔ جرائم کا خاتمہ جیل بھرنے سے ممکن نہیں ہے۔
جرائم کے خاتمے کے لیے قانون کی بالادستی ، کمزور اور بااثر کے لیے یکساں قانون ، فوری ،سستا اور گھر کی دہلیز پر انصاف کی فراہمی ، لوگوں میں معاشرتی شعور کی بیداری ضروری ہے ۔
ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء دنیا میں کوئی سائنسی فارمولے لے کر نہیں آئے تھے۔ اور نہ ہی تخلیق آ دم کا مقصد وقت کی رفتار سے تیز اڑنا یا چاند ستاروں کو مسخر کرنا ہے
بلکہ تخلیق آدم کا مقصد اور انبیاء کی تشریف آوری کا بنیادی مقصد انسان کو زمیں پر ، اس مٹی پر مل جل کر رہنے کا طریقہ اور سلیقہ سکھانا تھا۔
جیل خانہ جات کے معاملات کو دیکھنے والے عملہ کی تربیت، ماہرین نفسیات اور ماہرین عمرانیات کی شمولیت اور جیلوں کو اصلاحی سنٹر میں تبدلی سے ہی جرائم میں کمی ممکن ہے۔
دنیا کے مہذب معاشروں میں باقاعدہ ماہرین کی نگرانی میں قیدیوں کی اصلاح پر توجہ دی جاتی ہے۔ یہ ماہرین جب مناسب سمجھتے ہیں معمولی جرائم میں ملوث قیدیوں کو اچھے قیدی کے ایکٹ کے تحت سزا کی مدت پوری ہونے سے پہلے ہی رہا کر دیتے ہیں۔۔
بعض اوقات قیدی کو جیل سے رہا کرنے کے بعد آزاد معاشرے میں سزا کی مدت پوری ہونے تک ایک خاص حدود کے اندر نگرانی میں رکھا جاتا ہے ۔ سزا کا بنیادی مقصد مجرم کی اصلاح اور جرائم کی شرح میں کمی ہوتا ہے۔ ترقی پذیر معاشرروں میں چھوٹا چور جیل کی ہوا کھانے کے بعد پکا ڈاکو بن کر رہا ہوجاتا ہے۔
ہمارے جیلوں میں قیدیوں کی کثیر تعداد نہایت معمولی نوعیت کے جرائم میں ملوث ہوتے ہیں۔ لیکن ان کے لیے جرمانے کی ادائیگی ممکن نہیں ہوتا یا انصاف کے لیے وکیل کا حصول ممکن نہیں ہوتا یوں سزا کی مدت سالوں پر محیط ہو جاتی ہے۔
اس مسلے کے حل کے اگر سوشل میڈیا کے فورم کا استعمال کیا جائے ۔تو نہ صرف ان کے جرمانوں کی ادائیگی ممکن ہو گی بلکہ انٹرنیٹ کے ذریعے ان کے مقدمات کے لیے وکیل بھی دستیاب ہوسکتا ہے۔
ہمارے علماء دین کو چاہیے وہ زندگی کی مصروفیات میں سے کچھ وقت خاص طور پر جیل کے عملے اور ہمارے بد اخلاق پولیس اور حکومتی اداروں کو دین اسلام کے ان تعلیمات سے آگاہ کرنے کے لیے نکالیں جن میں قیدیوں سے حسن سلوک پر زور دیا گیا ہے۔
ہمیں عالمی سطح پر ایک دن قیدیوں کے نام منانے کی ضرورت ہے۔ یہ دن صرف قیدیوں کے لیے مخصوص ہو ۔
اس دن عوام کو ترغیب دی جائے کہ وہ جیلوں کا دورہ کریں ،قیدیوں سے ملے، کسی طرح سے بھی ہو سکے ان کی مد د کریں ۔جس سے نہ صرف قیدیوں کے مسائل جاننے اور ان کے حل میں مدد ملے گی بلکہ ہمارے معاشرے میں قیدیوں کے لے حقارت کا جو جذبہ ہے اس کا بھی خاتمہ ہو سکے گا۔