وائس چانسلر بلتستان یونیورسٹی کی ہٹ دھرمیاں
تحریر: ایس ایم شاہ
تعلیمی ادارہ انسان ساز فیکٹری ہوا کرتا ہے۔ جہاں سے ہمارے بچے بچیاں تعلیم و تربیت کے زیور سے آراستہ پیراستہ ہوکر قوم کے تابناک مستقبل کے لئے اپنے حصے کی شمع روشن کرتے ہیں۔ بلتستان یونیورسٹی یہاں کے طلبا و طالبات کے لیے اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے واحد اور پہلا تعلیمی ادارہ ہے۔ جس میں Co Education دی جاتی ہے۔ گلگت بلتستان اپنی اسلامی ثقافت کے اعتبار سے پورے ملک میں بالخصوص اور پوری دنیا میں بالعموم ایک خاص شناخت رکھتے ہیں۔ امن و امان، مذہبی رواداری، ایمان داری، اخلاقی اقدار کی حفاظت، دوسروں کی ماؤں بہنوں کو اپنی مائیں بہنیں سمجھنا، مہمان نوازی، خوش اخلاقی، تحمل مزاجی وغیرہ یہاں کی نمایاں امتیازی خصوصیات ہیں۔ چوری ڈکیتی وغیرہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہاں کی خواتین جس طرح سونا چاندی کو اپنا زیور سمجھتی ہیں ویسے ہی حجاب کے زیور سے آراستہ پیراستہ ہونا اپنے لئے باعث شرف و عزت سمجھتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ پہلی کلاس والی چھوٹی بچیوں سے لیکر پی ایچ ڈی لیؤل کی لڑکیاں تک تمام سرکاری اور پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں مکمل اسلامی پردے سے مزیّن ہوکے شرکت کرنے کے ذریعے دنیا کو یہ پیغام دیتی ہیں کہ حجاب نہ کبھی حصول علم اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ تھی اور نہ آج ہے۔
جب سے نعیم خان اس یونیورسٹی کا وائس چانسلر بنا ہے تو اسی وقت سے ہی اس نے ایک ایک کرکے جی بی کے سماجی اقدار کو سپوتاژ کرنا شروع کیا۔ جس پر پورے بلتستان کے مختلف فورم سے اس کے خلاف آواز اٹھنا شروع ہوا اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ داعی امن امام جمعہ مرکزی امامیہ جامع مسجد سکردو شیخ محمد حسن جعفری اور دیگر ائمہ جمعہ اکثر اپنے جمعے کے خطبوں میں اس کی کارستانیوں سے پردہ اٹھاتے ہوئے حکومت اور اداروں سے اسے یہاں سے ہٹانے کا پر زور مطالبہ کرتے آئے ہیں۔ اسی طرح جی بی عوام کی توانا آواز آغا علی رضوی بھی مختلف فورمز سے نعیم خان کو فوری ہٹانے کا سختی سے مطالبہ کرتے آئے ہیں۔ ان تمام احتجاجات کے باوجود بھی حکومت اور اداروں کے ٹس سے مس نہ ہونے کے بعد حال ہی میں موصوف کا جامعہ بلتستان کا دورہ کرنا اور اس وی سی کے خلاف سخت احتجاج کرنا بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
اسی طرح ان چند سالوں میں مختلف مناسبتوں سے مختلف قومی، سماجی، سیاسی، مذہبی تنظیموں اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والوں نے مختلف اغراض و مقاصد کے تحت جتنے بھی احتجاجات کئے ہیں، ان تمام حتجاجات کی قراردادوں میں نعیم خان کی برطرفی کا مطالبہ سرفہرست رہا ہے۔ نعیم خان کا اپنا قانونی دورانیہ مکمل کرنے اور ان تمام کارستانیوں کے باوجود بھی اب دوبارہ اس کرسی پر براجمان رہنے کی کوششوں میں حکومت اور اداروں کا ان کا ساتھ دینا تعجب آور امر ہے۔ یہاں سے واضح ہوجاتا ہے کہ حکومت اور نادیدہ طاقتوں نے باقاعدہ پلانینگ اور منصوبہ بندی کے تحت فاشیزم پھیلانے، جوانوں کو لبرل بنانے، بلتستان کی پاکیزہ اسلامی ثقافت کو آلودہ کرنے اور اسلامی اقدار کو پامال کرکے مادر پدر آزاد مغربی کلچر کو فروغ دینے کا ٹاسک نعیم خان کو دیا ہوا ہے۔ ان سب کی ابھی تک بھرپور کوشش ہے کہ اس مقدس تعلیمی و تربیتی ادارے میں اسی شخص کو دوبارہ متعین کیا جائے۔ جس عہدے کے لئے الیاس ظفر، نقوی صاحب سمیت ایک سے ایک باصلاحیت اور تجربہ کار افراد کو چھوڑ کر نعیم خان کو دوبارہ متعین کرانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگانا بہت ہی قابل مذمت ہے۔ نعیم خان کے سرپرستوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ اس کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کسی خاص شخصیت کی آواز نہیں بلکہ پورے جی بی کے عوام کی آواز ہے کیونکہ اس یونیورسٹی میں ہر علاقے کے طلبا و طالبات زیور تعلیم سے آراستہ ہو رہے ہیں۔
یہاں کے عوام کسی کرپٹ، اخلاقی جرائم میں ملوث اور یہاں کی پاکیزہ اسلامی ثقافت کو آلودہ اور اسلامی اقدار کو پامال کرنے والے وی سی کو پل بھر کے لئے بھی برداشت نہیں کریں گے۔
گلگت بلتستان کے غیور جوان جہاں مملکت خداداد پاکستان کی ملکی سرحدوں کی حفاظت اپنے خون سے کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں وہیں ملک کے اندر ہمارے خلاف ہونے والی سازشوں کا مکمل ادراک رکھنے کے ساتھ ساتھ مختلف اداروں میں چھپے کالے بھیڑوں کو ایک ایک کرکے نکال کر انہیں دوسروں کے لئے نشانِ عبرت بنانے کا ہنر بھی جانتے ہیں۔ صدر مملکت، حکومت اور حساس اداروں کو چاہئے کہ عوامی جذبات کا احترام کرتے ہوئے ایک باصلاحیت، باکردار، بااخلاق اور تربیت یافتہ شخصیت کو اس مقدس اور پاکیزہ ادارے کا وائس چانسلر معین کرکے یہاں کے محب وطن شہریوں کا دل جیت لیں اور جوان طلبا و طالبات اور شہریوں کو ہاتھوں سے کاغذ قلم چھوڑ کر ڈنڈے اور پتھر اٹھانے پر مجبور نہ کریں۔ یہاں کے عوام بہت صبر و تحمل کا مظاہرہ کر چکے اب مزید کسی امتحان کا متحمل نہیں ہوسکتے۔ بس یہاں کے عوام کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ نعیم خان کو ہٹاؤ بلتستان یونیورسٹی کو بچاؤ! اب ہم ان کی کسی ہٹ دھرمی کو ہرگز برداشت نہیں کریں گے۔