شیرقلعہ کے راکو کا دورہ
کالم ۔ قطرہ قطرہ
تحریر۔ اسرارالدین اسرار
راجہ وقار عالم بروشو خاندان کے چشم و چراغ ہیں۔ ان کے والد جان عالم پونیال کے آخری حکمران تھے جو کہ 1988 میں تقریبا ستر سال سے زائد عمر پاکر انتقال کر گئے۔ تب ان کے دو بیٹے وقار عالم اور عباس عالم چھوٹے تھے ۔ اب یہ دونوں جوان ہوگئے ہیں اور راکو (راجہ کا گھر) کی رونقیں بحال ہونے لگی ہیں۔ بروشو خاندان کئ صدیوں تک پونیال کے راجے رہے ہیں۔ ان کے خاندان میں نامور راجے گزرے ہیں۔ گاوں شیرقلعہ ، پونیال رجواڑ کا دارلخلافہ رہا ہے جہاں پونیال کے راجے رہتے تھے اور وہی پر راکو (راجے کی مستقل رہائش گاہ) قائم تھا۔ راجہ عیسی بہادر کے زمانے سے پہلے بیرونی حملہ آوروں کے ساتھ جنگ و جدل وقفے وقفے سے جاری رہتا تھا۔ بارہا کوششوں کے باوجود کئ بیرونی حملہ آوار قلعہ فتح کرنے میں ناکام رہے اس لئے اس قلعہ کا نام ان بیرونی حملہ آواروں نے شیرقلعہ رکھا جس کے بعد اس قلعہ اور گاوں کا نام شیرقلعہ پڑ گیا ، مقامی بزرگوں کے مطابق اس سے قبل گاوں شیرقلعہ کا نام چھپرکھن تھا جہاں چھوٹے چھوٹے کئ قلعے قائم تھے اور ان کی آپس میں قبائلی لڑائیاں جاری رہتی تھیں جبکہ بیرونی حملہ آواروں کا مقابلہ یہ سب ملکر کرتے تھے۔ انہی بیرونی حملہ آواروں سے بچنے کے لئے بعد ازاں ایک بڑا قلعہ تعمیر کیا گیا اور تمام لوگ اس قلعہ میں رہنے لگے۔
پونیال کے دیگر دیہاتوں اور گلگت میں یہ گاوں آج بھی چھیر کے نام سے مشہور ہے۔ جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا تھا کہ پونیال کے راجہ عیسی بہادر کے زمانے میں شیرقلعہ میں امن قائم ہوا اور بیرونی حملوں کا سلسلہ رک گیا تو مقامی لوگوں نے قلعہ سے نکل کر گاوں میں گھر بنائے اور مزید زمینیں آباد کرنا شروع کیا۔ گلگت بلتستان آٹھارویں صدی میں ڈوگروں اور بعد ازاں انگریزوں کی عمل داری میں گیا. راجہ عیسی بہادر بیرونی حملوں کہ وجہ سے جلاوطن بھی ہوئے اور کشمیر میں کافی سال گزارنے کے بعد واپس آگئے۔ واپس آکر راجہ عیسی بہادر نے اپنا منصب سنھبالا اور رجواڑ کی حفاظت کے لئے مقامی جوانوں پر مشتمل فورس قائم کی جس کو پونیال لیویز کا نام دیا گیا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب یاسین کے مشہور راجہ گوہر آمان نے ابھی ابھی وفات پائی تھی۔
عیسی بہادر کے بعد ان کا بیٹا راجہ اکبر خان تخت نشین ہوئے، اس کے بعد ان کا بیٹا راجہ انوار خان نے حکمرانی سنھبالی، اس کے بعد پونیال کے آخری راجہ جان عالم گلگت بلتستان سے ایف سی آر کے خاتمے تک پونیال کا را (راجہ رہے)۔ راجہ کو پونیال کی زبان (شینا ) میں را کہا جاتا ہے اور راجے کی رہائش گاہ کو راکو کہا جاتا ہے جبکہ بیرونی حملہ آواروں کو سئیں کہا جاتا ہے۔
شیرقلعہ کے راکو میں اس حکمران خاندان کی بیشتر نشانیاں حالات کی نذر ہوگئ ہیں تاہم کچھ نشانیاں اب بھی تصویروں اور نوادرات کی شکل میں موجود ہیں۔ ان تمام قیمتی نوادرات اور اس خاندان کی تاریخ کو محفوظ کرنے کے لئے باضابطہ طور پر اب تک کوئی کوشش نہیں کی گئ ہے۔
گزشتہ روز نامور لکھاری علی احمد جان ، ان کا چھوٹا بھائی شاہد اور میں راجہ جان عالم کے بڑے فرزند ارجمند راجہ وقار عالم سے ملنے ان کے گھر (راکو) گئے جہاں ان کی خاندانی تاریخ سمیت کئ اہم امور پر ان سے معلومات لی اور ان کی گفتگو سے مستفید ہوئے۔ وقار عالم انتہائی ملنسار، مہذب، خوش مزاج اور عوام دوست طبعیت کے مالک ہیں۔ ان کو اپنے خاندانی حسب نسب پر کوئی گھمنڈ نہیں بلکہ وہ خود کو ایک عام انسان بتاتے ہوئے فخر محسوس کرتے ہیں۔ ان کی شخصیت میں ان کے والد گرامی کے نقوش عیاں ہیں اس لئے مقامی بزرگ اور وہ لوگ جو ان کے والد سے جان پہچان رکھتے تھے وہ وقار عالم کو پہچاننے میں دیر نہیں لگاتے ہیں۔