نہ جانے کونسی گولی پہ نام لکھا ہے
تحریر: صفدرعلی صفدر
سب سے بیشتر تو رب کریم کا لاکھ لاکھ شکر کہ جس کی مہربانی اور کرم نوازی سے ہم ایک بڑے حادثے سے بچ گئے! ہوا کچھ یوں تھا کہ پیر کی رات دس بجے کے قریب ہم جوٹیال گلگت میں واقع اپنے گھر میں ڈنر سے فراغت کے بعد معمول کی گپ شپ میں محو تھے کہ اچانک فائرنگ اور ساتھ ہی ساتھ کوئی چیز پنکھے سے ٹکرانے کی آواز یں سنائی دیں۔واقعہ چونکہ معمول سے ہٹ کے تھا چنانچہ گھر والے سب خوف اور پریشانی میں مبتلا ہوگئے۔واقعہ کی وجوہات جاننے کے لئے ہم سب ادھر ادھر دیکھنا شروع کیا ہی تھاکہ اسی اثنا والد صاحب نے ہم سب کو تسلی دیتے ہوئے کہا کہ کہی سے ہوائی فائرنگ ہوئی ہے۔اللہ پاک نے ہم پر خاص کرم کیا،شکر ادا کرو۔ پھر ہاتھ میں کوئی چیز اٹھاکر دکھانے لگے یہ دیکھو گولی۔مزید چھان بین پر اندازہ ہوا کہ کسی نامعلوم شخص کے ہاتھوں چلنے والی گولی پہلے ہمارے کیچن کی چھت پہ لگی ہے۔کیچن کی چھت چونکہ سی جی آئی شیٹس سے بنی ہے تو گولی باآسانی چھت اور سیلینگ کراس کرکے اندرچلتے ہوئے فین سے ٹکرا نے کے بعد ناکارہ ہوکر نیچے والد صاحب کی گود میں جاگری۔ گولی ساخت سے کسی بڑے ہتھیار کی لگ رہی تھی۔ مگر حیرت کی بات ہے کہ نہ جانے کتنے دور فاصلے سے آنے والی یہ گولی کیچن کی چھت، سیلینگ اور فین سے ٹکرکھانے کے باوجود کسی چلی ہوئی کارتوس کی بجائے بالکل تازہ لگ گولی رہی تھی۔
رات گئے جب میں نے گولی کی تصاویر سمیت واقعہ سوشل میڈیا پر پوسٹ کیا تو کافی سارے صارفین بھی اس کنفیوژن کا شکار تھے کہ چھت، سیلینگ اور پنکھے سے ٹکر کھانے کے باوجود بھی گولی کی ہیت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ خیراس بارے میں کوئی ماہر یا تجربہ کار شخص ہی رائے دے سکتا ہے کہ ایک چلی ہوئی گولی کی ہیت نہ بدلنے کے پیچھے کیا وجوہات ہوسکتی ہیں۔ اس واقعے بلامبالغہ سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے کے دو ہی مقاصد تھے۔ اول یہ کہ لوگوں میں اس طرح کے اندھادھن فائرنگ سے احتیاط برتنے کا شعور بیدار ہو۔ دوئم یہ کہ اس طرح کے واقعات کو حکومت اور ریاست کے ذمہ دار اداروں کے نوٹس میں لایا جائے تاکہ انہیں ان واقعات کی روک تھام کے لئے اقدامات اٹھانے کی توفیق نصیب ہو۔
گلگت شہر میں ہوائی فائرنگ اور ان کے نتیجے میں نکلنے والی گولیوں سے شہریوں تکلیف و ازیت پہنچنے کایہ کوئی انوکھا واقعہ نہیں۔ نہ ہی یہ کوئی پہلا اور آخری واقعہ ہے جو ایک بار غلطی سے رونما ہوا اور مزید وونما ہونے کے کوئی امکانات نہ ہوں۔مگر بات ایسی نہیں ہے۔ہوائی فائرنگ ایک سماجی و معاشرتی برائی کے علاوہ ایک ایسا مجرمانہ فعل ہے جس کا انجام کسی انسانی جان کا ضیاع کاجسمانی معذوری ہوسکتا ہے۔ ایک ہفتہ پہلے کی بات ہے جوٹیال نورکالونی میں رہائش پذیرخلتی گوپس سے تعلق رکھنے والے ہمارے محترم دوست ومعروف سماجی شخصیت ولی جان بھائی کی نو، دس سالہ بھتیجی دن کے وقت اپنے گھر کی چھت پر ٹہل رہی تھی کہ اچانک نامعلوم سمت سے آنے والی گولی سیدھا اس کے سرپہ لگ گئی۔ گولی لگنے کے نتیجے میں بچی کے سرودماغ پہ کافی چوٹیں آنے پروہ کئی روز تک ہسپتال میں ایڈمٹ رہی۔
اسی طرح چند سال پہلے اسی طرح کے ہی ایک واقعے میں یاسین سے تعلق رکھنے والا آغاخان ہائیرسکنڈری سکول گلگت کا ایک طالب علم سکول ٹائمنگ میں نامعلوم گولی لگنے سے لقمہ اجل بن گیا۔ ایک اور واقعے میں ذوالفقارآباد جوٹیال کے رہائشی پبلک سکول اینڈ کالج کے ملازم شکور انکل کا جوان سال بیٹھا گھر کے صحن میں اسی طرح کی ایک نامعلوم گولی لگنے سے زندگی کی بازی ہار گیا۔مختلف مواقعوں پرہوائی فائرنگ کی یہ روایت صرف گلگت شہر کا نہیں بلکہ یہ پورے پاکستان کا مسئلہ ہے۔ پاکستان کے کئی شہروں میں اسی طرح کے واقعات کا رونما ہونا روز کا معمول ہے جن میں روزانہ کے حساب سے بے گناہ افراد ہنستے کھیلتے زندگی موت کو گلے لگا لیتے جبکہ کئی لوگ ان واقعات کا شکار ہوکر کسی نہ کسی حوالے سے جسمانی معذوری کا شکار ہوجاتے ہیں۔
المیہ یہ ہے کہ اس ملک میں ہر خوشی چاہے وہ عید ہو یانئے سال کی آمد، چاند رات ہو یا شادی بیاہ کی تقریبات غرض الیکشن میں کامیابی پر بھی لوگ اپنی خوشی کا اظہار ہوائی فائرنگ سے کرتے ہیں۔ مگر لمحہ بھر کے لئے بھی سوچنے کی زحمت گوارہ نہیں کرتے ہیں کہ ان کی خوشی کے موقع پر ہوائی فائرنگ سے نکلنے والی گولی کسی اور کے لئے جان لیوا بھی ثابت ہوسکتی ہے۔ جان لیوا نہ بھی ہو تو بھاری ہتھیاروں کے ذریعے ہوائی فائرنگ سے معاشرے میں خوف وہراس پھیلانا بھی ایک غیرقانونی اور غیراخلاقی عمل ہے۔یہ ایک ایسا عمل ہے جس سے متاثرہ انسان چاہتے ہوئے بھی ردعمل نہیں دے سکتا کیونکہ واقعہ ہوائی فائرنگ کا ہے، گولی کہاں چلی، کیوں چلی، کس نے چلائی اس بارے میں جب کوئی بنیادی معلومات ہی نہ ہوں تو گولی لگنے کے بعد سوائے ماتم اور افسوس کے اور کچھ نہیں کیا جاسکتا۔ نہ کسی کو ملزم ومجرم ٹھہرایا جاسکتا نہ کوئی اسلحہ یا قاتل ہاتھ لگ سکتا ہے۔ چنانچہ ایسے واقعات کے تدارک کا واحد راستہ ہی قانون پر عملدرآمد کے سوا کچھ نہیں ہے۔
پاکستان میں ہوائی فائرنگ کی روک تھام اور اس کے مرتکیب افراد کے خلاف کارروائی کے لئے کوئی مخصوص قانون توموجود نہیں۔ تاہم انتظامیہ کی جانب سے مختلف مواقعوں پرقانون ضابطہ فوجداری کی دفعہ144کے تحت ہوائی فائرنگ، اسلحے کی نمائش وغیرہ پر پابندی عائد کی جاتی ہے جبکہ پابندی کی خلاف ورزی کے مرتکیب افراد کے خلاف پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ188اور337کے تحت کارروائی کی گنجائش موجود ہے۔مگر پولیس اور انتظامیہ کی جانب سے ان قوانین کی رو سے ملزمان کے خلاف مناسب کارروائی نہ کرنے کے باعث اس طرح کی سماجی برائیوں میں کمی کی بجائے روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے جوکہ عوام الناس کے لئے ازیت و پریشانی کا سبب بن رہا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت بالخصوص وزیراعلیٰ گلگت بلتستان خالد خورشید صاحب گلگت شہر میں مختلف مواقعوں پر ہوائی فائرنگ کی روک تھام کے لئے ٹھوس اقدامات اٹھائے۔ ساتھ ہی ساتھ پولیس اورنتظامیہ کو ان اقدامات پر عملدرآمد ہر صورت یقینی بنانے کا پابند بنایا جائے تاکہ علاقے سے اس جان لیوا روایت کا خاتمہ کیا جاسکے۔ ورنہ یہی روایت برقرار رہی تو آج کسی نامعلوم سمت سے آنے والی گولی مجھ غریب کے گھر جاگری ہے تو کل کو کسی اعلیٰ ایوان یا شخصیت کوبھی لگ سکتی ہے۔ جمشید دکھی صاحب (مرحوم) نے کیا خوب کہا تھا۔
میرے دیار کی قسمت میں شام لکھا ہے
کبھی فساد کبھی قتل عام لکھا ہے
میں اپنی جان ہتھیلی پہ لے کے پھرتا ہوں
نہ جانے کونسی گولی پہ نام لکھا ہے