” افواج پاکستان کی لازوال قربانیاں ”
تحریر: فیض اللہ فراق
یہ ایک حقیقت ہے کہ اپنے ملک میں یا تو اپنی فوج ہوتی ہے یا کسی اور کی قابض فوج ، دنیا کی انگنت مثالیں ہمارے سامنے ہیں کہ جہاں فوج کمزور ہوتی ہے وہاں بدامنی، غلامی، اور سیاسی، سماجی اور معاشی بحران ہوتے ہیں ، عراق، افغانستان ، شام اور دیگر ممالک کی صورت حال ہمارے سامنے ہیں، ان ممالک میں غیر یقینی ماحول ہے اور عوام کی زندگی اجیرن ہے، یہ ممالک اپنے وسائل پر اپنا آزادانہ حق نہیں رکھتے ہیں اور عالمی طاقتوں یا انکے آلہ کاروں کے محتاج ہیں.
پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس کی فوج دنیا کی بہترین افواج میں شامل ہے، ملک کے اندرونی محاذ ہو یا بیرونی یہاں کی فوج ہر سازش اور ہر طاقت کا ڈٹ کر مقابلہ کرتی ہے، "فوج” پاکستان کے کروڑوں عوام کی آخری امید ہے اور ایک مظبوط فوج ہونے کی بنا پر دشمن طاقتوں کی آنکھوں میں کھٹکتی رہتی ہے، سیاچن سے لیکر کراچی کے ساحل تک یہ فوج مختلف اشکال میں پوری طاقت کے ساتھ موجود ہے جس کا درست اندازہ عوام کو بھی نہیں ہے ، اس فوج کے ایسے گمنام شہید بھی ہیں جس کا دنیا کو نہیں معلوم ، یہ گمنام شہید اپنے ہدف کے حصول میں جان دے جاتے ہیں لیکن تشہیر نہیں کرتے، یہ گمنام ہیروز جن کی خوفناک آنکھوں میں پروفیشنلزم، کمٹمنٹ اور ہیبت ناکی ہوتی ہے جس کی وجہ سے کبھی کلبھوشن یادیو جیسے کرداروں کو بے نقاب کرتے ہوئے دشمن کے بچھائے جال سے ملک کو محفوظ رکھتے ہیں تو کبھی کرگل و دراس کی رزم گاہوں میں اپنے سینے پر گولیاں کھا کر مٹی کا قرض اتارتے ہیں، فوج کے یہ جوان کبھی وزیرستان تو کبھی بلوچستان اور پھر کبھی پاکستان کے صحرائی علاقوں میں اپنے ہونے کا یقین دلاتے ہوئے ہمیں سکون سے نیند کرنے کا دلاسہ دیتے ہیں.
سیلاب ہو یا زلزلہ ، طوفان ہو یا آزمائشیں یہ فوجی جوان ہی ہیں جو قوم کی امید بن کر آگے بڑھتے ہیں، بکھری ٹوٹی عوام کو سینے سے لگاتے ہیں۔ اپنی بیوی بچوں کو ملک کے بچوں کیلئے یتیم کرتے ہیں، اپنے شہریوں کے تحفظ کیلئے خود جان فدا کر جاتے ہیں ، بعض لوگ یہ سمجھتے ہوں گے کہ انکی تو تنخواہ ہے مراعات ہیں یہ کونسے احسان کرتے ہیں ہم پر مگر حقیقت تو یہ ہے پاکستان کے سیاستدانوں،بیوروکریٹس،تاجر اور ججز کے بیٹوں کو ایک سپاہی کی 18 سال کی پوری تنخواہ دے کر صرف ایک دن کیلئے سیاچن بھیجا جائے تو کیا ہوگا؟ انکے اوسان خطا ہو جائیں گے، یہ لوگ ایک دن کیلئے نہیں جا پائیں گے، صرف مادی پہلو جزبوں کو سالم نہیں رکھ سکتا اور فوج کی تربیت میں ایک جذبہ ہے، ایک کمٹمنٹ ہے ، ملک سے وفاداری اور جان کی قربانی کا حلف انکے خون میں شامل ہے اسلئے یہ لوگ وفا کی آخری سرحد عبور کر جاتے ہیں ، فوج لڑتی نہیں جہاد کرتی ہے کفار سے دشمنوں سے نفرتوں سے بدامنی سے جہالت سے مصائب سے مشکلات سے فرقہ واریت سے صوبائیت سے لسانیت سے اقربا پروری سے میرٹ کی پائمالی سے ظلم سے اور ڈشپلن کی خلاف ورزی سے، فوج محض تنخواہ کیلئے نہیں لڑتی بلکہ اپنے بلند نصب العین اور ملک کے وقار کو مقدم رکھتی ہے۔
گلگت سے لیکر کراچی تک جب بھی کو سیکورٹی چیلنج سامنے آتا ہے افواج پاکستان پہلی رو میں آکر حالت پر قابو پاتی ہے گزشتہ دنوں گلگت میں ناسمجھی کی بنا پر پیش آنے والے افسوسناک حادثے کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال کو فوج کے مختلف اسٹک ہولڈرز نے جس مہارت اور ہنرمندی کے ساتھ قابو کیا جس کی نظیر ماضی میں نہیں ملتی ہے، فورس کمانڈر ناردرن ایریاز میجر جنرل جواد احمد کی ذاتی کاوشوں اور انکی قیادت میں انٹیلیجنس اداروں نے علاقے کے عمائدین اور مذہبی اکابرین کو اس ناسمجھی کی آگ پر قابو پانے کیلئے قائل کیا اور ایپکس کمیٹی کا اجلاس بلا کر محرم الحرام کے مقدس مہینے میں بدامنی کے حوالے سے زیرو ٹالرینس کا اعلان کیا گیا، شرپسندی میں ملوث کرداروں کو گرفتار کیا گیا جبکہ قلیل وقت میں خطے میں بھڑکنے والی بدامنی کی چنگاری کو بجھا دی گئی.
اس حادثے کے بعد بلوچستان کے اندر کور کمانڈر 12 کور لیفٹننٹ جنرل سرفراز علی ، میجر جنرل امجد حنیف ،بریگیڈر خالد اور دو میجر سمیت ایک لانس نائیک کی شہادتیں اپنے وطن کے سیلاب زدگان کی بحالی میں ہوئیں ، اپنے بےبس عوام اور سیلابی تباہ کاریوں کی مشکلات میں پھنسے شہریوں کی زندگیاں آسان بنانے کی کوششوں میں فوج کی اعلی قیادت اپنی زندگیاں ہار بیٹھیں ، قوم کو اس سے بڑھ کر کیا چاہئے ، یہ فوج ہر مصیبت میں ہمارے لئے ایک امید ہے ہر مشکل میں ایک دلاسہ ہے اور ہر آفت میں ایک حوصلہ ہے، قدر کیجئے ان وردی والوں کی جن کی وجہ سے پاکستان دنیا کے سامنے ایک طاقت ور ملک ہے جن کی لازوال قربانیوں کی وجہ سے آج ہم دنیا کے سامنے شام و عراق اور دیگر ملکوں کی طرح تماشہ نہیں بلکہ عزت و وقار سے زندگی بسر کر رہے ہیں ، دشمن یہ چاہتا ہے گھر کے اس مظبوط ستون (فوج) کو ہماری زبانی ، ہمارے ہاتھوں کمزور کرے اس عمل کیلئے دشمن مختلف ہتھکنڈوں سے ہماری سوچوں کو ہائی جیک کر رہا ہے لیکن ہماری یہ زمہ داری ہونی چاہئے کہ ہم اپنی فوج کے حوالے کوئی منفی بات نہ سنیں بلکہ اس حوالے سے ہمارے پاس زیرو ٹالرینس ہونا چاہئے۔۔۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ اپنے ملک میں یا تو اپنی فوج ہوتی ہے یا کسی اور کی قابض فوج ، دنیا کی انگنت مثالیں ہمارے سامنے ہیں کہ جہاں فوج کمزور ہوتی ہے وہاں بدامنی، غلامی، اور سیاسی، سماجی اور معاشی بحران ہوتے ہیں ، عراق، افغانستان ، شام اور دیگر ممالک کی صورت حال ہمارے سامنے ہیں، ان ممالک میں غیر یقینی ماحول ہے اور عوام کی زندگی اجیرن ہے، یہ ممالک اپنے وسائل پر اپنا آزادانہ حق نہیں رکھتے ہیں اور عالمی طاقتوں یا انکے آلہ کاروں کے محتاج ہیں.
پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس کی فوج دنیا کی بہترین افواج میں شامل ہے، ملک کے اندرونی محاذ ہو یا بیرونی یہاں کی فوج ہر سازش اور ہر طاقت کا ڈٹ کر مقابلہ کرتی ہے، "فوج” پاکستان کے کروڑوں عوام کی آخری امید ہے اور ایک مظبوط فوج ہونے کی بنا پر دشمن طاقتوں کی آنکھوں میں کھٹکتی رہتی ہے، سیاچن سے لیکر کراچی کے ساحل تک یہ فوج مختلف اشکال میں پوری طاقت کے ساتھ موجود ہے جس کا درست اندازہ عوام کو بھی نہیں ہے ، اس فوج کے ایسے گمنام شہید بھی ہیں جس کا دنیا کو نہیں معلوم ، یہ گمنام شہید اپنے ہدف کے حصول میں جان دے جاتے ہیں لیکن تشہیر نہیں کرتے، یہ گمنام ہیروز جن کی خوفناک آنکھوں میں پروفیشنلزم، کمٹمنٹ اور ہیبت ناکی ہوتی ہے جس کی وجہ سے کبھی کلبھوشن یادیو جیسے کرداروں کو بے نقاب کرتے ہوئے دشمن کے بچھائے جال سے ملک کو محفوظ رکھتے ہیں تو کبھی کرگل و دراس کی رزم گاہوں میں اپنے سینے پر گولیاں کھا کر مٹی کا قرض اتارتے ہیں، فوج کے یہ جوان کبھی وزیرستان تو کبھی بلوچستان اور پھر کبھی پاکستان کے صحرائی علاقوں میں اپنے ہونے کا یقین دلاتے ہوئے ہمیں سکون سے نیند کرنے کا دلاسہ دیتے ہیں.
سیلاب ہو یا زلزلہ ، طوفان ہو یا آزمائشیں یہ فوجی جوان ہی ہیں جو قوم کی امید بن کر آگے بڑھتے ہیں، بکھری ٹوٹی عوام کو سینے سے لگاتے ہیں۔ اپنی بیوی بچوں کو ملک کے بچوں کیلئے یتیم کرتے ہیں، اپنے شہریوں کے تحفظ کیلئے خود جان فدا کر جاتے ہیں ، بعض لوگ یہ سمجھتے ہوں گے کہ انکی تو تنخواہ ہے مراعات ہیں یہ کونسے احسان کرتے ہیں ہم پر مگر حقیقت تو یہ ہے پاکستان کے سیاستدانوں،بیوروکریٹس،تاجر اور ججز کے بیٹوں کو ایک سپاہی کی 18 سال کی پوری تنخواہ دے کر صرف ایک دن کیلئے سیاچن بھیجا جائے تو کیا ہوگا؟ انکے اوسان خطا ہو جائیں گے، یہ لوگ ایک دن کیلئے نہیں جا پائیں گے، صرف مادی پہلو جزبوں کو سالم نہیں رکھ سکتا اور فوج کی تربیت میں ایک جذبہ ہے، ایک کمٹمنٹ ہے ، ملک سے وفاداری اور جان کی قربانی کا حلف انکے خون میں شامل ہے اسلئے یہ لوگ وفا کی آخری سرحد عبور کر جاتے ہیں ، فوج لڑتی نہیں جہاد کرتی ہے کفار سے دشمنوں سے نفرتوں سے بدامنی سے جہالت سے مصائب سے مشکلات سے فرقہ واریت سے صوبائیت سے لسانیت سے اقربا پروری سے میرٹ کی پائمالی سے ظلم سے اور ڈشپلن کی خلاف ورزی سے، فوج محض تنخواہ کیلئے نہیں لڑتی بلکہ اپنے بلند نصب العین اور ملک کے وقار کو مقدم رکھتی ہے۔
گلگت سے لیکر کراچی تک جب بھی کو سیکورٹی چیلنج سامنے آتا ہے افواج پاکستان پہلی رو میں آکر حالت پر قابو پاتی ہے گزشتہ دنوں گلگت میں ناسمجھی کی بنا پر پیش آنے والے افسوسناک حادثے کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال کو فوج کے مختلف اسٹک ہولڈرز نے جس مہارت اور ہنرمندی کے ساتھ قابو کیا جس کی نظیر ماضی میں نہیں ملتی ہے، فورس کمانڈر ناردرن ایریاز میجر جنرل جواد احمد کی ذاتی کاوشوں اور انکی قیادت میں انٹیلیجنس اداروں نے علاقے کے عمائدین اور مذہبی اکابرین کو اس ناسمجھی کی آگ پر قابو پانے کیلئے قائل کیا اور ایپکس کمیٹی کا اجلاس بلا کر محرم الحرام کے مقدس مہینے میں بدامنی کے حوالے سے زیرو ٹالرینس کا اعلان کیا گیا، شرپسندی میں ملوث کرداروں کو گرفتار کیا گیا جبکہ قلیل وقت میں خطے میں بھڑکنے والی بدامنی کی چنگاری کو بجھا دی گئی.
اس حادثے کے بعد بلوچستان کے اندر کور کمانڈر 12 کور لیفٹننٹ جنرل سرفراز علی ، میجر جنرل امجد حنیف ،بریگیڈر خالد اور دو میجر سمیت ایک لانس نائیک کی شہادتیں اپنے وطن کے سیلاب زدگان کی بحالی میں ہوئیں ، اپنے بےبس عوام اور سیلابی تباہ کاریوں کی مشکلات میں پھنسے شہریوں کی زندگیاں آسان بنانے کی کوششوں میں فوج کی اعلی قیادت اپنی زندگیاں ہار بیٹھیں ، قوم کو اس سے بڑھ کر کیا چاہئے ، یہ فوج ہر مصیبت میں ہمارے لئے ایک امید ہے ہر مشکل میں ایک دلاسہ ہے اور ہر آفت میں ایک حوصلہ ہے، قدر کیجئے ان وردی والوں کی جن کی وجہ سے پاکستان دنیا کے سامنے ایک طاقت ور ملک ہے جن کی لازوال قربانیوں کی وجہ سے آج ہم دنیا کے سامنے شام و عراق اور دیگر ملکوں کی طرح تماشہ نہیں بلکہ عزت و وقار سے زندگی بسر کر رہے ہیں ، دشمن یہ چاہتا ہے گھر کے اس مظبوط ستون (فوج) کو ہماری زبانی ، ہمارے ہاتھوں کمزور کرے اس عمل کیلئے دشمن مختلف ہتھکنڈوں سے ہماری سوچوں کو ہائی جیک کر رہا ہے لیکن ہماری یہ زمہ داری ہونی چاہئے کہ ہم اپنی فوج کے حوالے کوئی منفی بات نہ سنیں بلکہ اس حوالے سے ہمارے پاس زیرو ٹالرینس ہونا چاہئے۔۔۔