تہذیب و ثقافت کے نام پر جمہوریت دشمن نظام سیاست کو فروغ نہ دیا جائے
ڈاکٹر نیک عالم راشد
فیس بک اور یو ٹیوب پر اتفاقاً کچھ ویڈیوز نظر سے گزرے جن میں میر فیملی کے ایک نمائندہ شخص کو تخت پر بٹھایا گیا ہے۔لوگ یعنی اس کے حواری جھک جھک کر اسے سلامیاں دے رہے ہیں، بعض اس کے ہاتھ پر بوسہ دیتے اور ڈھول کی تھاپ پر رقص کرتے ہیں اور حاضرین تالیاں بجانے ہیں۔ناچنے والوں میں اعلٰی تعلیم یافتہ افراد بھی ہیں جو اعلی خاندانی شرافت و نجابت کے بھی حامل ہیں جبکہ بعض اچھا خاندانی پس منظر رکھنے والے عام افراد بھی ہیں۔
یہ تو سب جانتے ہیں کہ ہنزہ کا میری نظام اس وقت اپنے اختتام کو پہنچا جب 1974ء میں اس وقت کے وزیر اعظم جناب ذولفقار علی بھٹو نے گلگت بلتستان سے میری نظام کو ختم کردیا اور میر آف ہنزہ میر محمد جمال خان کو تخت سے اتار کر گھر بھیج دیا اور انہیں سرکار کی جانب سے وظیفہ مقرر کیا گیا ۔ اس کے بعد ہنزہ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ، پھر سب ڈویژن اور بالآخر ڈسٹرکٹ بن گیا۔
یہ حقیقت تسلیم شدہ ہے کہ دنیا سے بادشاہت، آمریت اور شخصی و موروثی نظام سیاست و حکومت کا باب ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند ہوا ہے۔ بادشاہوں، نوابوں، میروں، مہتروں، راجوں اور مہاراجوں کی باتیں اب قصہ پارینہ بن چکی ہیں اور آنے والے وقتوں میں ان کا ذکر الف لیلوی حکایتوں اور "میرزا کھچٹ” کی طرح کی اساطیری کہانیوں جیساہوگا۔ اب میری نظام کو پھر سے بحال کر کے اپنے گذشتہ فرسودہ اور از کار رفتہ طریقے پر چلنے کا تصور اور اقدام ایک انتہائی مضحکہ خیز اور ناممکن بات اور لا حاصل کاوش ہوگی۔ کیونکہ یہ دور جمہوریت اور انسان دوستی کا دور ہے بلکہ زیادہ درست بات تو یہ ہے کہ دور حاضر (نیز مستقبل قریب) میں علم پر مبنی معاشرہ ( Kowledge society) تشکیل پارہا ہے جس میں انسانی معاشرے کے تمام فیصلے، جن میں سیاسی، سماجی، معاشی اور انتظامی فیصلے شامل ہیں، علم، عقل، دانش اور تخلیقی و تحقیقی صلاحیتوں اور سرگرمیوں کی بنیاد پر ہوں گے۔ اس طرح اہلیت و قابلیت پسندی ( Marritocracy) اس معاشرے اور زمانے کی روح یعنی روح عصر متصور ہوگی۔ لیکن اس ترقی یافتہ اور جمہوریت و علمیت کے دور میں بلتت، ہنزہ میں رسم تاج پوشی کی ادائیگی، ظل سبحانی کی پا بوسی کا مظاہرہ اور رقص و سرود کی محفل سجا کر بادشاہ سلامت کو خوش کرنے بلکہ اس کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے اہل دانش و بینش کا رقص کرنا ایک دقیانوسیت، غلامانہ ذہنیت، علم و دانش سے دوری، خود غرضی اور روح عصر سے کلی ناواقفیت کی نشاندہی کرتا ہے۔ نیز ہنزائیوں کے ان مشاغل اور رجحانات کو جان کر یک گونہ تعجب بھی ہے اور مایوسی بھی کہ ہنزائیوں کا محبوب مشغلہ موسیقی ہے اور آلات موسیقی سے انہیں شیفتگی کی حد تک عشق ہے جبکہ مطالعے سے انہیں چڑھ ہے اور کتاب و قلم سے وہ کوسوں دور ہیں۔ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ ہنزائیوں میں ندرت فکر کی صلاحیت مفقود ہوئی ہے۔
تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ اہل مغرب نے غلامی کو آزادی سے، پابوسی کو احترام آدمیت سے،تذلیل انسانیت کو تکریم انسانیت سے، ملوکیت کو جمہوریت سے اور موروثی سیاست و حکومت کو عوامی انتخابات اور رائے دہندگی کی مساوات کے ذریعے قابل، با بصیرت، با صلاحیت اور باکردار قیادت کے چناو کے نتیجے میں جمہوری سیاست و حکومت سے بدل دیا۔ انہوں نے اپنے علاقوں میں تعلیم و تعلم کو فروغ دینے کے لئے علم و دانش کے مراکز، جامعات اور کتب خانوں کا قیام عمل میں لایا۔ چنانچہ ان کی انتھک کوششوں کے نتیجے میں سماجی اور سائنسی علوم میں محیر العقول ترقی و پیشرفت ہوئی۔ ان انقلابی تبدیلیوں کی بدولت دنیائے انسانیت آج کے ترقی یافتہ تہذیب و تمدن کی مالک بن گئی۔ اس حوالے سے معروف مغربی محقق اور فلسفی ویل ڈیورانٹ نے درست اور صحتمند رائے دی ہے، وہ لکھتے ہیں کہ:
” اس (جمہوریت) نے انسانوں کو ایسا جوش و ولولہ اور باہمی الفت کا جذبہ بخشا جس کے سامنے اس کی سب کوتاہیاں اور نقائص ماند پڑ جاتے ہیں۔ اس نے عقل و خرد، سائنس اور مہم جوئی کو عمل اور ترقی کے لئے ضروری آزادی فراہم کی۔ اس جمہوریت کے باعث مراعات و طبقات کی حد بندیاں ختم ہوگئیں اور ہر طبقے اور ہر علاقے کے باصلاحیت لوگوں کو ترقی کے مواقع فراہم ہوئے۔ جمہوریت کے تحرک کے زیر اثر ہی ایتھنز اور روم تاریخ میں سب سے زیادہ تخلیقی شہر بن گئے۔اور صرف دو صدیوں کے عرصہ میں امریکہ میں اس قدر کثیر آبادی کے لئے ہر شئے کی باافراط فراہمی ممکن ہوئی۔ ” (ویل ڈیورانٹ۔ ‘ تاریخ ہمیں کیا سکھاتی ہے’، صفحہ ص ص 92۔ 93)
اپنی تاریخ پر وہ قومیں فخر کرتی ہیں جس میں معاشی و اقتصادی خوشحالی، سماجی انصاف اور علمی و ادبی ترقی کے شواہد بافراط فراہم ہوں، فکری و فلسفیانہ روایت فروغ پائے، سائنس اور ٹیکنالوجی میں پیشرفت ہو اور فکر و عمل کی آزادی میسر ہو۔ لیکن بد قسمتی سے ہنزہ کی تاریخ اس کے برعکس، سماجی نا انصافی، معاشی و اقتصادی استیصال، کار بیگار سے عوام کی جسمانی طاقت اور معیشت دونوں کو سلب کرنےکے قبیح عمل، حصول علم پر پابندی اور سب سے بڑھ کر صدیوں تک ایک غیر اعلانیہ قحط جیسی صورت حال وغیرہ سے بھری ہوئی ہے۔ ایسی تاریخ پر فخر کرنا آج کے با شعور اور تعلیم یافتہ انسان کے شایان شان نہیں ہے بلکہ اسے چاہئے کہ وہ نیا زمانہ اور نئے صبح و شام پیدا کرے اور اہل نظر بن کر تازہ بستیاں آباد کرنے کی سعی بلیغ کرے۔ تاریخ کی اس تاریکی کو دیکھ کر اہل ہنزہ کو کندھے مچکا مچکا کر اور ٹانگیں اٹھا اٹھا کر ناچنے کی بجائے اس پر غور و فکر کرنا چاہئے، محض غور و فکر ہی کافی نہیں بلکہ اس پر نظر ثانی کر کے اس کی تشکیل نو کرنی چاہئے اور اسے ظلمتوں سے اٹھا کر ترقی کی روش راہوں پر گامزن کرنا چاہئے۔