کالمز

موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات اور ان کا حل

ڈاکٹر ذاکرحسین ذاکرؔ

آج ستمبر کی چار تاریخ ہے، اور ملک میں سیلاب کی تباہ کاریوں اور موسمیاتی تبدیلیوں کی بے پناہ کہانیاں میڈیا میں ذیرِ گردش ہیں۔ ’’موسمی حالات سے با خبر رہیں‘‘  کا جملہ قومی سطح پر ٹیلی فون کال کا ٹیون بن چکا ہے۔  حالات یہاں تک اچانک نہیں پہنچے۔

اس سال موسم بہار کے اوائل میں اپریل کی آخری دنوں میں  راقم نے  ’’شدت کی گرمائش اور ہمارے گلیشئرز‘‘ کے عنوان سے تین قسطوں میں کالم لکھا تھا تاکہ ارباب ِاقتدار، عوام اور پالیسی ساز اداروں کے کی انکھیں تھوڑا وقت سے پہلے کھول دیں، لیکن حسب ِمعمول  ہماری انکھیں اکثر پانی کے سر سے گزر جانے کے بعد کھلتی ہیں۔ اور خصوصاً ہم جیسے دھیمے لہجے والے کی باتوں کو کون سنتا ہے ، یہاں تو ہر بات سنانے کے لیے ’ڈنکے کی چوٹ‘ والے درکار ہوتے ہیں۔ اقبال ؒ نے شاید انہیں وجوہات کی بنا پر ’ بانگِ درا‘ لکھا تھا، کیونکہ جب تک سیٹی نہیں بجتی، گھنٹی نہیں بجتا نہ ہم اسمبلی میں حاضر ہوتے ہیں ، نہ ہی کلاس میں۔ ہمارا انحصار ہی گھنٹی بجانے والوں پر ہے، خود سے وقت دیکھ کوئی کام نہیں کرتے۔ اور جب ’بانگِ درا‘  بھی کام نہ کرے تو فطرت خود اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ گھنٹی بجاتے ہوئے گرجتا، برستا اور برساتا ہے، کہ پھر انسان کی کانپیں ٹانگ جاتی ہیں، فطرت پھر بڑے بڑے پتھروں کو بہا کر، ٹکرا کر، عمارتوں کو مسمار کرکے ، پوری زور و شور کے ساتھ  بستیوں کے بیچ سے اپنا راستہ بناتے  لوگوں کی کانوں کو بیدار کرنے کی کوشش کرتی ہے جس کا مظاہرہ ہم سب سیلابی ریلوں میں دیکھتے آرہے ہیں۔ جب  معمولی معمولی باتوں پر سیاسی ریلیاں قوم کی عادت بن جائے یا بنادی جائے تو ایسے میں سیلابی ریلے بے چین ہو کر نکل پڑتے ہیں تاکہ سمجھا دے کی ریلا یا ریلی کیا ہوتی ہے؟ نہیں معلوم قدرت کا کیا پیغام  ہے کہ  ہر قسم کے ریلے میں بے چارے عوام اور ان کی جائدادیں  ہی بہتے ہیں۔ شایدیہ   کسی الیکش نامی واقعے میں ان کے   کرتوتوں کی سزا ہو۔

معذرت چاہوں گا ، میں اپنے اصل اصلاحی موضوع کی طرف واپس لوٹنے کی کوشش کروں گا۔ میرے مذکورہ سابق کالم میں امسال اپریل میں لکھا تھا :

’’ موسمیاتی گرمائش میں شدّت کی الرٹ جاری ہو گئی ہے۔ ایسے میں ہم کہاں کھڑے ہیں؟ ٹھنڈک اور گلیشئرز کی سر زمین گلگت بلتستان میں کیا ہوگا ؟اور ہمارے پیارے گلیشئرز کا کیا ہوگا جو ٹھنڈک کی علامت، حیات کی نشانی ، پاکیزگی کا استعارا، موسمیاتی تبدیلیوں کا پیمانہ، دریاؤں کا منبع، آبشاروں کی وجہ اوربہتے چشموں کی ماں ہیں۔

پچھلے کچھ عرصے سے بین الاقوامی سطح پر آنےوالے تین سال شدید گرم رہنے کی پیش گوئیاں کی جا رہی تھی۔ کل ہی 27اپریل کو پاکستانی محکمہ موسمیات نے تمام اداروں کو خبردار کیا ہے کہ آنے والے چند دن گرمی عام ایام کی نسبت 5سے7سنٹی گریڈ زیادہ رہنے کا امکان ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اپریل کے آخری اور مئی پہلے ہفتے میں جون کی گرمی ہوگی۔ اس وقت پہاڑوں پر نرم برف موجود ہے جودرجہ حرارت میں اچانک اضافے سے فوری طور پر پگھل سکتے ہیں اور اس سے شدید قسم کی برفانی تودے گرنے، سیلاب آنے اور گلیشئر جھیلوں کے پھٹنے کی امکانات بڑھ سکتے ہیں۔

عالمی حدت میں تیزی سے اضافہ، پگھلتے گلیشئرز، درجہ حرات میں غیر معمولی اتار چڑھاؤ، اور ان کے نتیجے میں ممکنہ سلابی صورت حال، تباہ کاریاں، بلندیوں پر ٹھوس پانی کے ذخائر میں خطرناک حد تک کمی، کم پانی والے مقامات پر فصلوں اور درختوں کے سوکھنے کی خدشات، اوردرجہ حرارت میں غیر معمولی تبدیلی سے ممکنہ بیماریاں وہ عوامل اور نتائج ہیں جن پر نہ صرف اہل ِعلم و تحقیق بلکہ حکومتی اور بین الاقوامی اداروں کو فوری طور پر سنجیدگی سے سوچنے اور منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے وگرنہ بہت دیر ہو چکا ہوگا۔ ‘‘

موسمیاتی اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے  ایک طالب علم اور گلیشئرز  کے ساتھ عملی وابستگی کی بنا پر مذکورہ مضامین کے مندرجہ بالا پیراگراف کو آج جب چار مہینے بعد دیکھتا ہوں تو  میں دوگونہ احسا س سے دوچار ہوں۔ اول یہ کہ شاید میں اپنے آپ کو ماحولیاتی تبدیلیوں کا نبض شناس نہ سہی، شناسا ضرور پاتا ہوں۔ ثانیاً یہ کہ میری احساسِ زمہ داری  میں کچھ زیادہ ہی اضافہ ہوا ہے، کیونکہ ہمارے پاس اس طرح کی ماحولیاتی اور موسمیاتی تبدیلوں سے ہونے والی نقصانات کی رفو گری کے لیے کچھ فطری طور طریقے اورٹیکنالوجیز موجود ہیں۔ ان  علوم، مہارتوں اوراقدامات سے  ارباب ِاختیار اور اہل تحقیق و دانش کوآگاہ کرنا گویا فرض منصبی ہے  کیونکہ بیرونی دنیا میں ان قدرتی طور طریقوں سے موسمیاتی تبدیلیوں کو آہستہ آہستہ کم کرنے کا کوئی رواج نہیں ۔

سابقہ کالم میں لکھا تھا:

’’میری ذاتی رائے میں بر اعظم ایشا میں اس وقت جاری روس اور یوکرائن کی جنگ جس میں ہزاروں ٹن بارود استعمال ہو رہے ہیں، بستیاں جل رہی ہیں، انسانی المیے ان کے علاوہ ہیں، اس طرح کی اچانک اور غیر معمولی موسمیاتی  تبدیلیوں کی وجوہات ہو سکتی ہیں‘‘۔ اس کالم کی تینوں اقساط کو ضرور پڑھ لیجئے گا تاکہ نکتے ملانے میں آسانی ہو۔ دوسری قسط کا یہ پیراگراف ہمارے آگے کی تحریر کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے:

’’ گلیشئرز  نہ صرف موسمیاتی تبدیلی کے پیمانے  ہیں بلکہ ان تبدیلیوں  کوکافی حد تک قابو میں رکھنے کے قدرتی وسائل اور ذرائع  بھی ہیں۔ تاہم  اگر اس طرح کی موسمیاتی تبدیلیاں ایک حد سے زیادہ ہو تو  پھر ان کو قابو کرنا گلیشئرز کی بس سے باہر ہو سکتا ہے، ایسے میں گلیشئرز اِ ن تبدیلیوں سے ہونے والی تباہ کاریوں میں خود بھی شریک ہوتے ہیں۔ بلتستان کی مقامی کہانیوں اور داستانوں  کے مطابق گلیشئرز کو جانداروں کی طرح بڑھتے گھٹتے، حرکت کرتے، اور تذکیر و تانیث جسی صفات کے ساتھ انسانی سرگرمیوں سے براہ راست اور بالواسطہ اثر لینے کی روایات موجود ہیں۔  ہمارے اپنے مشاہدے میں بھی یہ بات آئی ہے، کہ گلیشئرزانسانی سرگرمیوں سے براہ راست اثر لیتی ہیں اور ردّ ِعمل دیتی ہیں۔ اگر آپ ان کے آس پاس حیاتیاتی تنوع کو فروغ دیتے ہیں، ان کا خیال رکھتے ہیں، ان سے پیا رکرتے ہیں تو یہ بڑھتے اور پھلتے پھولتے ہیں۔ اس طرح اگر  ان پرضرورت سے زیادہ عرصہ تک انسانی رہائش بنائے رکھیں، ان پر کوڑا کرکٹ یا انسانی فضلہ ڈال دیں، یا ان پر بارود کاذخیرہ کرلیں، یا ان   پرباردود کی بارش کر دیں تو لازماً یہ اپنا ردّ ِعمل دیتی ہے   اور پھرحادثات پیش آتے ہیں‘‘

ابھی تک بین الاقوامی سطح پر موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے عموماً تدارکی اقدامات کیے جاتے ہیں ۔یعنی درجہ حرات بڑھانے  اور فضائی آلودگی  میں اضافہ کرنے والے عوامل کو کم کرکے ماحولیاتی تبدیلیوں کی اثرات پر قابو پانے کی کوشش کی جاتی ہیں۔ گلیشئر اُگانے کی  قدیم مقامی ٹیکنالوجی   وہ واحد کم خرچ طریقہ کار ہے  جو کافی حد تک مائکرو سطح پر مقامی ماحولیاتی عوامل پر مثبت اثرات ڈال سکتی ہیں۔ جس پر اگر بڑے پیمانے پر عمل کیا جائے تو یہ نہ صرف علاقائی بلکہ گلوبل سطح پر حِدت عالم (گلوبل وارمنگ) کو کنٹرول کرنے میں کردار ادا کر سکتی ہے۔ جس کے ساتھ گلیشئرز کی پھیلاؤ ،حیاتیاتی تنوع  اور پائیدار آبای وسائل میں اضافے کا بھی باعث بنے گا۔

گلیشئرز کی نشو نما کے اس خیال اور ٹیکنالوجی کو وسیع پیمانے پر پھیلانے کے لیے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر ماحولیاتی بہتری اور  ترقیاتی  منصوبہ   سازی کے اداروں کی توجہ  اس ضمن میں پائیدار ترقی کے اہداف SDGsکی حصول میں نہایت اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔

گلیشئرز کو کیسے اگایا جاتا ہے اور ان کی نشو نما کیسے کی جاتی ہے  یا کی جا سکتی ہیں؟ یہ وہ بنیادی سوالات ہیں جن کا کسی حد تک جواب ہمارے پاس موجود ہیں۔

جب ہم گلیشئر جیسے کسی بے جان شے کو اُگانے کی بات کرتے ہیں، پروورش کرنے کی بات کرتے ہیں، تو عموماًاپنے آپ کو سائنسی ذہن کے مالک سمجھنے والے اسے اگر فوراً غیر سائنسی اور یوں توہمات نہ قرار دیں تو کم از کم شک  اورمذاق کی  سماعتوں سے سنتے اور نگاہ سے دیکھتے ضرور ہیں۔ اور جب ہم مقامی روایت، یا ثقافتی عمل کہتے ہیں تو کہنے لگتے ہیں ، اچھا، تو ثقافت کہو نا، ثقافت  یا روایت میں ٹیکنالوجی کہاں سے آگیا؟ یہ ہیں وہ رویے جن کی وجہ سے ہم بہت سے مقامی اور دیسی سائنسز اور ٹیکنالوجیز سے استفادہ نہیں کر پاتے، کیونکہ ہمیں صرف ولایتی سبق پڑھایا گیا ہے اور یہ سمجھایا گیا ہے کہ جو کچھ مغرب  یا ترقی یافتہ ممالک سے آئے وہی سائنس اور ٹیکنالوجی ہیں ، باقی اہل ِمشرق کے تمام کارنامے، کامیابیاں اور پریکٹس روایات، ثقافت اور توہمات یا ٹوٹکوں اور جگاڑ کے علاوہ کچھ نہیں۔اگر زیادہ سے زیادہ عزت کی نگاہ سے دیکھی جائے تو روحانیات ہیں، جو طبعیات سے بالکل جدا  کوئی چیز ہے۔

بلتستان کی مقامی روایت اور تاریخ و ثقافت کے مطابق  گلیشئر اُگانے یا گلیشئر کی نشو نما کرنے کی روایت تسلسل کے ساتھ عملی طور پر آزمودہ نسخہ اور عمل ہے جس کے عملی فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ بلتی زبان میں ’’ گانگ خسوا‘‘ Rearing or nurturing glacier کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے، جس میں گلیشئر کے ساتھ ایک نازک بچے یا ایک نوخیز پودے کی طرح پیار، احتیاط، توجہ اور نشونما اور تربیت کے مفاہیم وابستہ ہیں۔ اور یہ ایک مسلّم روایت ہے کہ گلیشئر کے ساتھ کسی بھی قسم کی بد تمیزی جیسے اس پر آلائشوں کا ڈھیر لگانا، اسے گند اکرنا وغیرہ اس تربیتی مفہوم کے خلاف ہے جس سے گلیشئر کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اور ممکنہ طور پر گلیشئر اپنا ردِّ عمل بھی دے سکتا ہے۔  اس بات سے بھی انکار نہیں کہ گلیشئر اُگانے کی اس عمل اور طریقہ کار کے ساتھ بہت سی ثقافتی روایات اور سائنسی اعتبار سے غیر متعلقہ  عملیات بھی وابستہ ہیں، جن کی اپنی علیحدہ حیثیت اور اہمیت ہیں۔

میڈیا کے حوالے سے بات کریں تو مقامی میڈیا کے علاوہ ملکی اور بین الاقوامی میڈیا نے حالیہ سالوں اور مہینوں میں بلتستان یونیورسٹی کے تحت  گلیشئر اُگانے کی طور طریقوں اور کہانیوں کو  شائع کیا ہے۔ جس میں اردو زبان میں بی بی سی اردو کا رپورٹ،   انگریزی میں تھرڈ پول،  پاکستان آرمی کا ہلال  میگزین  اور جامعاتی ماہناموں میں ایجوکیشنسٹ میں تفصیل سے شائع شدہ مضامین سر فہرست ہیں۔

گلیشئر اُگانے کے کئی طریقے ہیں۔ جن میں گلیشئر گرافٹنگ دیر پا نتائج کے حامل  طریقہ کار ہے، جس سے  کم و بیش دو دہائیوں کے اندر ایک چھوٹا سا پھلتا پھولتا گلیشئر وجود میں آتا ہے جو مقامی آبی وسائل کی ضروریات پورا کرنے میں کردار ادا کرتی ہے۔ ساتھ ہی اپنے ارد گرد  قدرتی گلیشئر والا ماحول پیدا کرتا ہے۔ عارضی نوعیت کے گلیشئر اُگانے یا ٹھوس پانی کے ذخائر بنانے کے تین طریقے ہیں  پہلا آئس ٹاورنگ جسے بلتی میں ’’گانگ پیو ‘ ‘ یعنی مینارۂ آب بنا نا ہے جس کا عملی مظاہر ہ مقبولیت حاصل کر رہا ہے ۔ بڑھتی آبادی اور پھیلتی ذرعی اراضی کے ساتھ پانی کی قلت کے مسائل سے نمٹنے کے لیے اس طریقہ کار کے تحت عارضی مینارۂ آب ، گانگ پیو یا آئس ٹاور بنانے کے لیے مختلف مواضعات سے  کافی درخواستیں  موصول ہو رہی ہیں۔یہ طریقہ کار لداخ میں آئس سٹوپا کے نام سے مشہور ہے۔ تاہم طریقہ کار اور اہداف کے حوالے سے مینارۂ آب بنانے اور آئس سٹوپا میں تھوڑا بہت فرق پایا جاتا ہے۔ عارضی ٹھوس پانی کا ذخیرہ بنانے کا دوسرا طریقہ کار برفانی تودوں کو کافی بلندی پر ہی روک کرنسبتاً سخت آئس ماس بنانے  کا ہے،جسے Avalanche Harvesting کہتے ہیں۔ عارضی ٹھوس پانی کا ذخیرہ بنانے کا یہ طریقہ  ایک طرف برفانی تودوں اور سیلاب کی تباہ کاریوں کو کم کرتا ہے اور دوسری طرف ٹنوں کی مقدار میں برف کو پھیلنے اور یوں ضائع ہونے سے بچا کر ٹھوس پانی کا ایک معقول ذخیرہ بناتی ہے۔

تیسرا طریقہ  پہاڑوں کے اوپر موجود نسبتاً ہموار چراگاہوں میں  سردیوں کے دوران سلسلہ وار کم گہرے مصنوعی جھیلیوں میں پانی جمع کرنے کا ہے  جو جم کر کافی مقدار میں برف کا ذخیرہ بناتی ہے اور اسے بھی پانی کی قلت کو دور کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

بلتستان یونیورسٹی علاقے کی  واحد اعلیٰ تعلیمی ادارہ ہونے کے ناطے ان مقامی ٹیکنالوجیز کی فروغ اور ان کو جدید سائنسی تقاضوں سے ہم آہنگ بنانے میں  کوشاں ہے،  تاکہ عالمی سطح پر موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے نمٹنے میں ان اقدامات کی اہمیت کو اجاگر کیا جا سکے۔ جن سے مقامی سطح پر ماحولیاتی   تبدیلیوں کو  مثبت اورخوشگوار بنایا جا سکے۔

گلیشئرز اُگانے کی ان تمام قسموں کے لیے تیاری کا وقت اگست سے نومبر تک ہیں۔ نومبر کی وسط تک تیاری مکمل ہونی چاہیے کیونکہ نومبر میں تین ہزار میٹر سے زائد بلندیوں پر  اوسط درجہ حرارت صفر تک پہنچ جاتا ہے  اور مینارہ ٔ آب تشکیل پانا شروع ہو جاتے ہیں۔   انشأ اللہ اس سال  دو سے تین مقامات پر آئس ٹاورزبنانے منصوبہ ہے۔ وسائل دستیاب ہونے کی صورت میں اس میں اضافہ اور برفانی تودوں کو مجتمع کرنے کا کام بھی ممکن ہے۔

اس ضمن میں کسی بھی فرد، ادارے یا تنظیم کو معلومات یا رہنمائی کی ضرورت ہو تو راقم سے رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

Zakir.hussain@uobs.edu.pk

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button