ماحولیاتی تباہیوں کے پیش نظر گلگت بلتستان کے وسائل پر قومی خودمختاری ناگزیر ہو چکی ہے: اعلامیہ
آبی ذخائر، جنگلات، معدنی وسائل اور چراگاہوں کی لوٹ مار روکنے کے لیے اقدامات کا مطالبہ
اسلام آباد: نیشنل ورکرز فرنٹ گلگت بلتستان اور نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن گلگت بلتستان نے اسلام آباد پریس کلب میں ماحولیاتی مرکزیت اور گلگت بلتستان میں سیاسی پسماندگی کے موضوع پر ایک سیمینار کا انعقاد کیا۔ سیمینار میں گلگت بلتستان و پاکستان سے تعلق رکھنے والے نامور سیاسی رہنماؤں اور ماحولیات کے ماہرین سمیت نوجوانوں کی ایک کثیر تعداد نے شرکت کی۔ مقررین میں آبی معاملات کے ماہر حسن عباس، پروفیسر ڈاکٹر عاصم سجاد، ڈیولپمنٹ ماہرین صفی اللہ بیگ اور علی احمد جان، محقق ڈاکٹر نیلم نگار بیگ اور گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے صحافی ارشد حسین شامل تھے۔
سیمینار میں مشترکہ طور پر مندرجہ ذیل قرارداد منظور کی گئی:
آج جب کہ گلگت بلتستان سیلاب سے ہونے والی تباہی سے دوچار ہے، سیلاب اور بارشوں نے 20 سے زائد جانیں لے لیں، چار اضلاع میں سینکڑوں بے گھر اور ہزاروں افراد روزی روٹی سے محروم ہو گئے ہیں، متاثرین کے سروں پر اب ایک اور موسمیاتی بحران یعنی سرد موسم منڈلا رہا ہے۔
اگرچہ گلگت بلتستان اور اسلام آباد کی حکومتوں کے ساتھ ساتھ سول سوسائٹی نے متاثرہ افراد کوفوری راحتکاری کے لئے امدادی سامان فراہم کیا لیکن ان کی بحالی کے لیے کوئی عملی اقدامات ا بھی تک نظر نہیں آ رہے ہیں. خیموں میں رہنے والے لوگوں بالخصوص بچوں کو اس وقت نمونیا، اسہال اور آفت کے صدمے سے ذہنی بیماریوں کے خطرے کا سامنا ہے۔ اس آفت کا لوگوں کے اوپر طویل مدتی اثرات مرتب ہوں گے۔ وہ لوگ جو اپنی ذرائع آمدن جیسے کہ پھل دار درخت، کھڑی فصلیں اور مویشیوں کو کھو چکے ہیں انہیں شدئد غربت کا سامنا ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ سیلاب نے گکگت بلتستان میں پہلے سے سرمایہ دارانہ منافع خوری کی وجہ سے موسمیاتی تباہی، پانی، زمین اور جنگلات کے بد انتظامی کی وجہ سے بحرانوں کو مزید پیچیدہ کیا ہے-
گلگت بلتستان میں ایک موثر، جامع جمہوری گورننس سسٹم کا فقدان، نوکر شاہی نظام، نیو لبرل لوٹ کھسوٹ والے ترقی، بڑے بڑے پروجیکٹس، انفراسٹرکچر کی غیر منصوبہ بند تعمیر، بڑے پیمانے پر بے ہنگم سیاحت اور جنگلات کی بے دریغ کٹائی وہ اہم عوامل ہیں جو گکگت بلتستان میں حساس ماحولیات کی تباہی، گلیشیئرز کے پگھلاو میں اضافہ اور شدید سیلاب کا باعث بن رہا ہے۔
یہ تمام گھمبیر ماحولیاتی بحرانوں کی نہ تو میں اسٹریم میڈیا میں ذکر ہوتا ہے اور نہ ہی مرکزی دھارے کی سیاسی جماعتوں کے ایجنڈے میں یہ شامل ہیں۔
نیشنل ورکرز فرنٹ (NWF)، نیشنل وومن فرنٹ (NWF) اور نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن گلگت بلتستان (NSF-GB) نے اس اجتماع کے ذریعے سیلاب، زلزلے اور موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ لوگوں کی بحالی کے لیے قلیل اور طویل المدتی منصوبوں اور ان کے ذریعہ معاش، روزگار اور تعلیم کی بحالی کے لئے عملی اقدامات کا مطالبہ کرتے ہیں۔
گلگت بلتستان میں تباہی کے پیمانے کو دیکھتے ہوئے ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ عوامی وسائل اور کوششوں کو پسماندہ اور دور دراز وادیوں میں معاشی سرگرمیوں کی بحالی کی طرف موڑ دیا جائے۔
ہم اس قرارداد کے ذریعے گلگت بلتستان کے آبی ذخائر، جنگلات، معدنی وسائل اور چراگاہوں کی لوٹ مار کو روکنے کے لیے اقدامات کا مطالبہ کرتے ہیں۔
ہم تمام ترقی پسند اور قوم پرست قوتوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ سیلاب اور زلزلے سے متاثر ہونے والے غذر، دیامر، نگر اور بلتستان کے متاثرین کے گھروں کی فوری تعمیر، خوراک، صحت اور دیگر ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اپنے بساط کے مطابق جو کچھ کر سکتے ہیں، ہاتھ بٹائیں۔
ہم گلگت بلتستان اور اسلام آباد کی حکومتوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ فنڈ کو غیر پیداواری مقاصد سے بحالی کی جانب منتقل کریں اور ریاست کی ترجیحات کو بحالی کی طرف ترتیب دیں۔
ہم تمام عوام دوست قوتوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ ایک ایسی سیاسی تحریک بنائیں جو جی بی کے نازک ماحولیاتی نظام پر موسمیاتی تبدیلی کے بڑھتے ہوئے تباہ کن اثرات کے چیلنجوں کا مقابلہ کر سکے۔
1. گورننس
ہم سمجھتے ہیں کہ اس قسم کے مشکلات سے نمٹنے کا واحد طریقہ صرف اور صرف گلگت بلتستان کے لوگوں کو سیاسی اور معاشی طور پر بااختیار بنانے، اندرونی خود مختاری دینے اور اپنے قدرتی وسائل کے مالک ہونے، ان کا نظم و نسق سنھبالنے اور موسمئاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والے چیلنجوں سے نمٹاجا سکتا ہے۔۔
مقامی قانون ساز اداروں یعنی جی بی اسمبلی کو ان تمام معاملات کے اوپر قانون سازی اور ریگولیٹ کرنے کے لیے بااختیار بنانے کی ضرورت ہے جن کا خطے کے ماحولیات پر براہ راست یا بالواسطہ اثر پڑتا ہے۔
قانون سازی میں مقامی لوگوں کی نمائندگی کو یقینی بنایا جائے۔اس سے ان کے اندر اپنی زمینوں اور وسائل کے مالک ہونے کا احساس پیدا ہوگا۔ کسی بھی کام کی کامیابی کے حصول کے لیے معاشرے کے ہر طبقہ فکر یعنی قانون سازوں، انتظامیہ، مقامی لوگوں اور غیر سرکاری تنظیموں کی شمولیت ضروری ہوتی ہے۔
اسکول اور اسپتال، آبپاشی کے نظام اور آبی ذخائر کی تعمیر نو اور انتظام میں مقامی دانشمندی کو ترجیح دی جانی چاہیے، موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنے کے لیے سیمنٹ اور سٹیل جیسے مواد کو استعمال کرنے کے بجائے، مقامی وسائل اور روایتی طریقے اپنانا چاہئے۔
متاثرہ افراد کی اکثریت کا ذریعہ معاش باغات، کھیتی باڑی، زرعی زمین، مویشی پالنا اور چھوٹے کاروبار ہیں۔ ہم اس سیمنار کی وساطت سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ متاثرہ خاندانوں کو لائیو سٹاک، زرعی مشینیں اور دیگر ضروریات اور خواتین کو سلائی مشینیں فراہم کی جائیں۔
2. تعلیم
ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ حکومت اور نجی تعلیمی ادارے سیلاب اور زلزلہ سے متاثرہ اضلاع کے طلباء کی تعلیمی فیس اور دیگر اخراجات معاف کریں۔ اور دیگر تعلیمی اخراجات جیسے یونیفارم، کتابیں اور اسٹیشنری کے اخراجات کو برداشت کریں۔
3. صحت
سیلاب اورآفت زدہ لوگوں کے لئے ذہنی صدمہ ایک اور بڑا چیلنج ہے، خاص طور پر ان لوگوں کے لیے جنہوں نے اپنے پیاروں کو کھو دیا ہے۔ ہم اس قرارداد کے ذریعے محکمہ صحت کے حکام سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ایسے لوگوں کی نفسیاتی اور ذہنی صحت کی مشاورت اور بہبود کے انتظامات کریں۔ تمام سرکاری اور نجی ہسپتالوں کو ہدایت کریں کہ وہ متاثرہ افراد کو مفت طبی علاج فراہم کریں۔
4۔ صنفی مسائل
خواتین اس قسم کے آفت میں سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں وہ گھریلو کاموں کے علاوہ زراعت، کھیتی باڑی اور چراگاہی کی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ حالیہ موسمیاتی آفات کے نتیجے میں خواتین کے اوپر ذمہ داریوں کا بوجھ کئی گنا بڑھ جاتا یے۔ اسلئے یہ انتہائی ضروری اور وقت کا تقاضا ہے کہ علاقے کی خواتین کو فیصلہ سازی کے عمل میں فعال طور پر حصہ لینے کے لیے شامل کیا جائے اور ان کی حوصلہ افزائی کی جائے۔
5۔ طویل مدتی منصوبے
قلیل مدتی بحالی کے منصوبوں کے علاوہ، کچھ طویل مدتی مسائل ہیں جن پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ڈیموں اور میگا انفراسٹرکچر کی تعمیر سے گلگت بلتستان کی حساس ماحولیات پر تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔ ماضی قریب تجربات کو اگر دیکھا جائے تو ستر کی دہائی میں شاہراہ ریشم کی تعمیر سے شروع ہونے والے سرگرمیاں اور نوے کی دہائی میں اس کی تعمیر نو اور جگلوٹ-اسکردو اسٹریٹجک ہائی وے کی حالیہ تعمیر میں لینڈ سلائیڈنگ کے واقعات میں تعدد اور شاہراہوں اور لنک سڑکوں کے ساتھ لٹکتے پتھروں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ یہاں تک کہ ہلکے سے ہلکہ زلزلہ کا جھٹکے سے ان سڑکوں کے ارد گرد پیاڑی تودے گرتے ہیں اور بڑے پیمانے پر لینڈ سلائیڈنگ کا سبب بنتے ہیں جس سے جانی نقصان بھی ہوتا ہے اور سڑکیں بند ہوجاتی ہیں۔
وجہ سادہ ہے: ناقص تعمیراتی عمل اور منصوبہ بندی اور بدعنوانی سے پہاڑوں اور چٹانوں کو غیر مستحکم کیا جاتا ہے۔ گلگت بلتستان جیسے پہاڑی علاقوں میں، لینڈ سلائڈنگ اور برفانی تودے سے بچنے اور محفوظ سفر کے لئے ٹنل ایک مؤثر طریقہ ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ تعمیراتی کمپنیاں اور ٹھیکیدار ترقیاتی فنڈ میں خرد برد کرکے اس طرح کی منصوبہ بندی میں ردوبدل کرتے ہیں اور مسافروں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالتے ہیں۔ اسلئے ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ پورے گلگت بلتستان میں بڑے شاہراہوں پر لینڈ سلائڈنگ جگہوں پر ٹنل بنایا جائے۔
یہ امر واضح ہے کہ سپیک اور اس قسم کے منصوبوں اور بہت سے دوسرے منصوبے جیسے، سدپارہ ڈیم، اور اب زیر تعمیر بھاشا ڈیم کی وجہ سے خطے پر پڑنے والے ماحولیاتی اثرات کی مناسب سروے اور مقامی لوگوں کی پیشگی باخبر رضامندی کے بغیر بنائے گئے ہیں۔ یہ ایک مسلمہ بین الاقوامی قانون ہے کہ کسی بھی منصوبہ پر عملدرآمد سے پہلے ای آئی اے کی سروے کرنا اور اسے عام لوگوں کے علم میں لانا اور بین الاقوامی ماحولیاتی ایجنسیوں/ماہرین سے آزادانہ توثیق کرنا چاہیے۔ لیکن گلگت بلتستان میں ایسا نہیں کیا جاتا اور قوانین کی خلاف ورزی کیا جاتا ہے۔۔ اسلئے ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ تمام جاری اور مستقبل کے ترقیاتی منصوبوں بشمول بھاشا ڈیم، بونجی ڈیم، اور دیگر تمام ترقیاتی منصوبوں کی ای آئی اے کیا جائے اور ان کے نتائج عوام کے سامنے رکھا جائے۔
6۔ سیاحت
مستقبل میں موسمیاتی تباہی کی وجہ سے پیدا ہونے والی کسی بھی ناخوشگوار صورتحال سے بچنے کے لیے گلگت بلتستان میں بڑے پیمانے پر سیاحتی سرگرمی پورے خطے کو ماحولیاتی تباہی کی طرف لے جا رہی ہے۔ گرین ہاؤس/زہریلی گیسوں کا اخراج کرنے والی گاڑیوں کی علاقے میں بلا روک ٹوک یلغار اور ہوٹلوں، پلازوں وغیرہ جیسے کنکریٹ کے ڈھانچے کی غیر منصوبہ بند تعمیر نہ صرف اس خطے کی قدرتی خوبصورتی کو نقصان پہنچا رہی ہے بلکہ ماحولیات کو بھی متاثر کر رہی ہے۔
بڑے ہوٹلوں کی تعمیر پر پابندی، کنکریٹ کے جنگل اور ڈھانچے کی حوصلہ شکنی، مناسب ٹاؤن پلاننگ اور ماحول دوست سیاحت کا فروغ ہی اس صورت حال کا مقابلہ کرنے کا واحد راستہ ہے۔ کیونکہ بڑے ہوٹل ماحولئات کو خراب کرنے جو گلیشیرز کے پگھلاو کو تیز کرنے والے کاربن کے اخراج میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
7۔ ڈیزاسٹر رسک مینجمنٹ
چونکہ گلگت بلتستان میں پہاڑ نسبتاً جوان اور زلزلہ کے لحاظ سے بہت فعال ہیں، اس لیے ہر ضلع میں سیسمولوجیکل سرگرمیوں کی نگرانی اور قبل از وقت وارننگ سسٹم نصب کیا جانا چاہیے۔
ڈیزاسٹر رسک مینجمنٹ ٹریننگ کولازمی قرار دیا جائے اور اسے نصاب کا حصہ بنایا جائے۔ موسمیاتی تبدیلیوں اور گلیشیئر کے رویے اور زلزلوں کا مطالعہ کرنے کے لیے ہر ضلع میں ایک سیسمولوجیکل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ قائم کیا جانا چاہیے۔