پٹواری،انصافیے اور جیالے!
تحریر۔پروفیسر قیصر عباس
پٹواری عرف عام میں آج کل ان افراد کو کہا جاتا ہے جو کہ میاں برادارن سے کامل عقیدت رکھتے ہیں چونکہ میاں برادران بیوروکریسی کو "ورتنے”کا ہنر جانتے ہیں اس لئے ان کے عقیدت مندوں کو پٹواری کہا جاتا ہے۔ ان کے نزدیک میاں صاحب مطلب میاں نواز شریف صاحب پاکستان کے شیر شاہ سوری ہیں۔ان کے مطابق اگر میاں صاحب کو اقتدار سے الگ نہ کیا جاتا تو پاکستان آج ایشیاء کا ٹائیگر بن گیا ہوتا۔میاں صاحب کے خلاف سازشیں ہوتی رہیں ہیں۔جنرل ضیاء الحق کے علاوہ تقریباً تمام آرمی چیفس نے جمہوریت کی راہ میں روڑے اٹکانے کی کوشش کی ہے جبکہ میاں صاحب ہمیشہ ان غیر جمہوری قوتوں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بنے رہے ہیں۔جس کی وجہ سے انہیں جلاوطنی اختیار کرنا پڑی اور اقتدار سے بھی ہاتھ دھونے پڑے۔ان سب واقعات سیمیاں صاحب کی وطن سے محبت اور عقیدت ثابت ہوتی ہے۔وطن سے محبت کی قیمت میاں صاحب نے جیل میں رہ کر بھی اداکی ہے۔سابق وزیر اعظم اگر پچاس روپے والے اشٹام پیپر پر اپنے برادر صغیر کی ضمانت پرچار ہفتوں کے لئے بیرون ملک گئے ہیں تو ان کی مجبوری تھی کیونکہ ان کی صحت دن بدن گر رہی تھی اور جو بیماریاں میاں صاحب کو لاحق تھیں ان کا علاج پاکستان میں ممکن نہیں تھا کیونکہ اسٹبلشمنٹ نے 35 سال میں میاں صاحب کو اک اچھا ہسپتال بنانے ہی نہیں دیا جہاں کل کلاں بیمار ہونے کی صورت میں علاج کروایا جا سکتا۔پٹوایوں کے نزدیک یہ بات تو روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ میاں صاحب علاج کی غرض سے باہر نہیں جانا چاہتے تھے۔مگر یہ کمبخت عمرانی حکومت نے ان کے قائد محترم کے خلاف سازش کی اور انہیں زبردستی باہر بھیجا ہے۔یہ افراد سمجھتے ہیں کہ ضیاء الحق کے علاوہ کسی جرنیل نے جمہوریت کی کوئی خدمت نہیں کی بلکہ ہمیشہ جمہوریت پر شب خون مارا ہے۔جبکہ میاں صاحب نے اپنے جمہوری رویوں سے نہ صرف جمہوریت کو مضبوط کیا ہے بلکہ ان کے غیر متزلزل ارادوں اور اقدامات سے سے غیر جمہوری قوتوں کو منہ کی کھانا پڑی ہے۔ حدبییہ پیپرز مل،ایون فیلڈ اپارٹمنٹس اور پانامہ لیکس سب قصے اور کہانیاں ہیں۔آنے والے وقت میں جب بھی پاکستانی تاریخ لکھی جائے گی تو مورخ میاں صاحب کو اس ملک کا نجات دہندہ اور مسیحا کے طور پر لکھے گا۔مذکورہ بالا نظریات اک سکہ بند پٹواری کے ہیں۔
اب بات کرتے ہیں ایسے بھائیوں کی جنہیں انصافییکہا جاتا ہے یہ لقب ان حضرات کو دیا جاتا ہے جو عمران خان کی محبت میں گرفتار ہیں۔ان کے نزدیک اس وقت اس زمین نامی سیارے پرامت مسلمہ کا ایک ہی راہنما ہے جس کا نام عمران خان ہے۔پاکستان میں واحد عمران خان ہے جو عدالت عظمی سے سرٹیفائیڈ صادق اور امین ہے۔باقی سارے لیڈران چور اچکے،کرپٹ اور بے ایمان ہیں۔بلکہ کچھ احباب تو خان صاحب کو قائد اعظم ثانی تک کہتے ہیں ان حضرات کے مطابق خان صاحب قائد اعظم کے بعد سب سے عظیم راہنما ہیں۔ان صاحبان کے مطابق خان صاحب اک دلیر اور بے باک لیڈر ہیں اور ان کی دلیری اس وقت دیدنی ہوتی ہے جب وہ جلسوں میں نیوٹرلز کو للکارتے ہیں۔ان کی فہم کے مطابق خان صاحب کے ساتھ کھڑا ہونے سے مراد ہے کہ آپ حق کے ساتھ کھڑے ہیں اور اگر آپ عمران مخالف کیمپ کا حصہ ہیں تو آپ باطل کے ساتھ ہیں اور باطل کا ساتھ دینا ناقابل معافی جرم ہے جو لوگ اس جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں یہ سب بروز محشر سزا کے مستحق ہونگے۔ان دوستوں کے مطابق اگر لیڈر ماضی میں کسی کو ڈاکو کہہ دے تو وہ ڈاکو تھا اور اگر آج اسی ڈاکو کے سر پر پنجاب جیسے صوبے کی "پگ”رکھ دے تو یقیناً اس عمل میں لیڈر کی کوئی نہ کوئی حکمت پوشیدہ ہے۔اور اس حکمت کو سمجھنا ہر سیاسی ورکر کے بس کی بات نہیں ان کے نزدیک خان صاحب اقتدار میں ہیں تو قوم آزاد ہے اور اگر ان کے محبوب لیڈر اقتدار سے باہر ہیں تو قوم غلام ہے۔ان کرم فرماؤں کے فلسفہ کے مطابق اپنی کی ہوئی بات سے مکر جانا اپنے وعدے بات پر قائم نہ رہنا اور یوٹرن لینا ایک بار نہیں کئی بار یوٹرن لینا عظیم راہنماؤں کی نشانی ہے اور خان صاحب میں یہ صفت بدرجہ اتم پائی جاتی ہے۔مذکورہ بالا نظریات کے حامل نہایت پڑھے لکھے اور جدید ٹیکنالوجی سے لیس انصافیے ہیں جو سوشل میڈیا پر مخالفین کے چھکے چھڑا رہے ہوتے ہیں۔اگر ان سے ادب کے ساتھ اختلاف کیا جائے تو مخالف کی وہ” مٹی پلید”کرتے ہیں کہ خدا کی پناہ۔
تیسری قسم کے دوست وہ افراد ہیں جنہیں جیالا کہا جاتا ہے۔یہ بیچارے زرداری خاندان کے چشم وچراغ سے بھٹو کی خوشبو تلاش کر رہے ہیں۔ان قدردانوں کے نزدیک جو کارنامے زرداری صاحب نے سندھ ہاؤس میں سرانجام دیئے ہیں وہ جمہوریت کے استحکام اور مضبوطی کے لئے بہت بڑی خدمت ہے۔زرداری صاحب مفاہمت کے بادشاہ ہیں اور ہر کسی کو اس کا "حصہ”دے کر راضی رکھنے کا ہنر جانتے ہیں۔ان احباب کے مطابق زرداری صاحب اس سیاسی نظام میں سب سے فٹ بیٹھتے ہیں۔کس کو کس طرح رام کرنا ہے اس کام میں کمال ہنر رکھتے ہیں۔چوہدری شجاعت حسین کو خط لکھنے پر قائل کر لینا زرداری صاحب کا ہی کمال ہے۔زرداری صاحب کی طویل عرصے تک اسیری کرپشن نہیں بلکہ میاں صاحبان کے جھوٹے کیسز کا شاخسانہ ہے ورنہ بقول مجید نظامی مرحوم زرداری صاحب "مرد حر”ہیں۔ زرداری صاحب پر اس مملکت خداداد کی معزز عدلیہ ایک بھی کرپشن کا کیس ثابت نہیں کر سکی اس لئیمسٹر ٹین پرسنٹ مخالفین کا صرف الزام ہے اور اس الزام کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ایسے دوست جو زرداری صاحب کی امانت ودیانت اور سخاوت کے معترف ہیں ان صاحبان دانش کو جیالا کہتے ہیں۔
کچھ ڈنڈا بردار دوست بھی ہیں جن کا تعلق مذہبی جماعتوں سے ہیں جو بزور شمشیر تو نہیں مگر ڈنڈے کی طاقت سے اسلام کا پرچار کرنے کے قائل ہیں اسے صاحبان ایمان،صرف خود کواور اپنے ہم عقیدہ برادران کو ہی اسلام کا سچا سپاہی سمجھتے ہیں جبکہ باقی افراد کو جذبہ ایمانی سے خالی قرار دیتے ہیں۔ان کا نام ابھی تک تجویز نہیں کیا گیا۔بہرحال مستقبل قریب میں امید واثق ہے کہ ایسے احباب کا بھی کوئی اچھا سا نام لازمی تجویز کیا جائے گا۔