کالمز

پاکستانی میڈیا کی نظروں سے اوجھل گلگت بلتستان کے سلگتے مسائل, اور بھارتی میڈیا

کہتے ہیں میڈیا ریاست کا چوتھا ستون ہوتاہے، خاص طور پر الیکٹرانک میڈیا کا معاشرے کو سنوارنےاور معاشرتی مسائل ارباب اختیار تک پہنچانے میں اہم کردارہوتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے اسلام کے نام پر بننے والے ملک میں میڈیامعاشرے میں بگاڑ پیدا کر رہا ہے۔ صحافتی اصول کو چھوڑ کر ریٹینگ اس وقت میڈیا کاٹارگیٹ نظر آتا ہے جس کیلئے پاکستانی میڈیا کچھ بھی کرنے کو تیارہے۔ صورتحال اس قدر سنگین ہوچکی ہے کہ وہ  میڈیا جس کا کام ہماری تہذیب و ثقافت کی عکاسی کرنا تھا ، فی زمانہ ڈراموں ، سنسنی خیز خبروںاور اشتہارات کے ذریعے اس قدر فحاشی اور بے حیائی کے ساتھ اخلاقی اقدار کی پامالی کر رہے ہیں اور صورتحال اس قدربگڑ چُکی ہے کہ اہل خانہ کے ساتھ بیٹھ کر ٹی وی دیکھنا محال ہوگیا ہے۔

طبقاتی فرق نےجہاں معاملات زندگی کے دیگر معاملات کو شدید متاثر کی ہے وہی میڈیا کے اندر پائے جانے والا طبقاتی اور سیاسی فرق سے معاشرے میں مایوسی مزید بڑھتی جارہی ہے۔ سوشل میڈیا کے آنے سے الیکٹرانک میڈیا کی ضرورت کسی حد تک محدود ہوگیا ہے، مگر الیکٹرانک میڈیا کی اہمیت سے اب بھی انکار کرنا مناسب نہیں۔

بدقسمتی سے معشیت کو درپیش مسائل،اقتصادی چیلنجز ، محکوم ومظلوم قوموں اور علاقوں کے مسائل کی نشاندہی اور ان مسائل پر ڈیبیٹ نہ ہونے سے  ایسا لگتا ہے کہ پاکستان میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کا کوئی کام ہی نہیں ہے۔ خاص طور پر گلگت بلتستان اور بلوچستان کے مسائل پر ایسی خاموشی ہوتی ہے کہ گویا ان علاقوں کا کوئی وجود ہے نہ یہاں کے مسائل حل طلب۔

گلگت بلتستان آئین پاکستان اور اقوام متحدہ کے سلامتی کونسل کے قراردادوں کی روشنی میں پاکستان کا قانونی حصہ نہیں بلکہ ریاست جموں کشمیر کی اکائی ہے اور کسی بھی ملک یا علاقے میں شمولیت کیلئے اقوام متحدہ کی موجودگی میں رائے شماری ہونا باقی ہے۔ قدرتی وسائل، آبی ذخائر سے مالا مال یہ خطہ چار ایٹمی ممالک کے سنگم پر واقع ہونے کے ساتھ ساتھ، سی پیک کا مرکزی گزرگاہ اور مسلہ کشمیر کی اصل کنجی بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی گریٹ گیم کے تحت یہ خطہ نیوورلڈ آرڈ کا مرکز نگاہ ہے ۔ لیکن اس خطے کی بین الاقوامی قانونی حیثیت کے باجود بیوروکریسی اس علاقے میں وہی کام کر رہی ہے جو 5 اگست 2019 کو نریندر مودی نے سلامتی کونسل کے قراردادوں کی سنگین خلاف ورزی کرتے ہوے کیا۔ مودی نے جموں و کشمیر لداخ کے حوالے سے ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 370 اور آرٹیکل 35 اے کو ختم کرکے جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کردیا اور جموں کشمیر کو تقسیم کرکے خطہ لداخ کو یونین ٹیریٹری کا درجہ دینے کے بعد اس علاقے کو براہ راست دہلی سرکار کی محکومیت میں دے دیا۔

اس مسلے پرپاکستان نے اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر شدید احتجاج کیا اورمسلہ کشمیر کی حل کیلئے سلامتی کونسل کے قراردادوں کی پاسداری کا مطالبہ کیا ۔ اُس وقت کے وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی سے خطاب میں واضح طور پر کہا ہے کشمیر کا مسلہ رائے شماری کے ذریعے ہی حل ہوگا اور استصواب رائے ریاست جموں کشمیر(یعنی گلگت بلتستان،لداخ،جموں،وادی کشمیر،اور آذاد کشمیر) کے عوام کا حق ہے۔ لیکن دوسری طرف گلگت بلتستان میں گزشتہ دہائیوں سے خالصہ سرکار نامی اصطلاح جو سکھوں کے زمانے کی ہے کے نام پر عوامی زمینوں کو سرکاری زمین قرار دیکر قبضہ کرنے اور عوام کو بیدخل کرکے احتجاج کرنے پر دہشت گردی کے قوانین کے تحت ہراساں اور زدوکوب کرنا معمول بن چُکا ہے۔

خطے کے عوام گزشتہ کئی سالوں سے مسلسل سراپا احتجاج ہیں اور گزشتہ کئی دونوں سے پورے خطے میں مکمل شٹرڈاون ہڑتال جاری ہے۔ لیکن یہ تمام مسائل اور عوامی احتجاج پاکستانی میڈیا کی نظروں سے مکمل اوجھل ہے۔

دوسری طرف، ہندوستانی میڈیا سوشل میڈیا سے ویڈیوز اور خبریں اُٹھا کر ان عوامی جذبات کو اپنی مرضی کے بیانیے میں ڈھال کر پرائم ٹائم کی خبریں دے رہا ہے۔ پاکستان کی ملکی  میڈیا نے آج تک یہ جاننے کی کوشش کی اور نہ ہی خطے کے کسی اہم اسٹیک ہولڈر کو مدعو کرکے پوچھا کہ حساس ترین خطے میں ایسا کیوں ہوتا ہے، کون کرتا ہے اور وجہ کیا ہے؟

بدقسمتی سے گلگت بلتستان میں جو بھی پارٹی برسر اقتدار آئے، وہ خالصہ سرکار کے نام پر عوامی زمینوں پر سرکاری قبضوں کا دفاع کرتی ہے۔ لیکن اقتدار سے باہر جانے کے بعد یہی بہروپیے عوام کے ساتھ سڑکوں پر نظر آتے ہیں۔

5 اگست 2019 تک ہندوستان کے زیر انتظام جموں وکشمیر لداخ میں بھی سٹیٹ سبجیکٹ رول بحال تھا، جس کے مطابق خطے کے پشتنی باشندوں کے علاوہ کسی کو بھی علاقے میں زمین خریدنے کی اجازت نہیں ہے، جس کے تحت ہندوستان نے سٹیٹ سبجیکٹ رول کو اپنے آئین میں آرٹیکل 35 اے کے تحت تحفظ دی تھی ۔ اسی طرح جبکہ آزاد کشمیر میں پہلے معاہدہ کراچی پھر 1974 کے ایکٹ میں اسے تحفظ دیا گیا اور آج بھی سٹیٹ سبجیکٹ رول نافذ العمل ہے۔

تاہم گلگت بلتستان جو آئین کے آرٹیکل 257 اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے متعدد فیصلوں کی روشنی میں متنازعہ ریاست کی اکائی  ہے اور اس حساب سے دونوں علاقوں کی قانونی حیثیت ایک ہی ہے، مگر اس کے باوجود بھی گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے ساتھ مختلف سلوک روا رکھا گیا ہے آزاد کشمیر میں آج بھی قانون باشندہ ریاست 1928 کے مطابق سٹیٹ سبجیکٹ رول نافذ ہے۔ لیکن گلگت بلتستان میں اس قانون کی خلاف ورزی دہائیوں سے جاری ہے جس میں اب اچانک تیزی آئی ہے اور باقاعدہ طور پر نجی ہاوسنگ سوسائٹز نے گلگت بلتستان میں گھروں کی تعمیر کیلئے اخبارات میں اشتہارات تک دینا شروع کردیا ہے۔ جو مسلہ کشمیر پر ریاست پاکستان کے اصولی موقف کی سنگین خلاف ورزی اور ہندوستان کے عزائم کی تائید ہے۔

لہذا ارباب اختیار کو اس حوالے سے تحقیق کرنے کی ضرورت ہے کہ کہیں گلگت بلتستان میں کام کرنے والے بیوروکریسی مسلہ کشمیر پر پاکستان کے موقف کو کمزور کرنے کیلئے  مودی کے عزائم کی تکمیل  اور عالمی گریٹ گیم کے کرداروں کی سہولت کاری تو نہیں کر رہا؟ کیونکہ اس وقت عام طور پر  عوان میں تاثر کچھ سطرح ہی نظر آتا ہے اور عوام کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ سٹیٹ سبجیکٹ رول بحال کرو خالصہ سرکار نامنطور۔

آپ کی رائے

comments

شیر علی انجم

شیر علی بلتستان سے تعلق رکھنے والے ایک زود نویس لکھاری ہیں۔ سیاست اور سماج پر مختلف اخبارات اور آن لائین نیوز پورٹلز کے لئے لکھتے ہیں۔

متعلقہ

Back to top button