کالمز

میری ماں کے قاتلوں کو گرفتار کرو

کئی روز سے ایک اہم موضوع پر لکھنے کا سوچتا  رہاہوں مگر وہ سوچ مجھے خیالوں کی دنیا میں گھما پھرا کر لکھنے کا ارادہ بدل دیتی ہے۔ دل میں رنج وغم اور پریشانی کا عالم ہے۔ ذہن دماغی ونفسیاتی الجھنوں سے بوجھل ہے۔ سمجھ میں کچھ نہیں آرہا ہے کیا لکھوں کہاں سے شروع کروں۔ بڑی سوچ بچار کے بعد  تحریر کا خاکہ بنالیتا ہوں مگر الفاظ جوڑ کر جملے بنانے میں مشکلات محسوس ہوتی ہیں۔ اک عجیب سی کیفیت ہے۔ اتنے بڑے سانحے سے گزر جانے کے باوجود یقین پھر بھی نہیں آرہا ہے کہ میری پیاری مامی جان، میری ساسوں اماں ایک فلمی سین کی طرح اچانک ہمیں چھوڑ کر وہاں چلی گئیں جہاں سے کوئی واپس لوٹ کر نہیں آتا۔ اللہ پاک میری مامی جان کی روح کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔ آمین!

 21 22 دسمبر کی درمیانی شب میرے ننھیال و سسرال میں رونما ہونے والے  المناک واقعے سے تو سبھی آگاہ ہیں۔ واقعےکی نوعیت اور طریقہ واردات سے سب پریشان اور حیرت زدہ ہیں کہ گلگت جیسے چھوٹے سے علاقے میں شہریوں کی زندگیاں کس قدر خطرات سے دوچار ہیں۔ ہم نے تو آج تک اس طرح کا سین صرف فلموں اور ڈراموں میں دیکھا تھا کہ رات کے پچھلے پہر کوئی نامعلوم شخص ایک گھر کے صحن میں داخل ہوتا ہے۔ اندر سے بھگانے کی کوشش پر  وہ رفوچکر ہونے کی بجائے اسلحہ دکھا کر  گھر کے دروازے پر پہنچ جاتا ہے۔ گھر والوں کے پاس مناسب دفاعی سہولت موجود نہیں ہوتی۔ بے سروسامانی کے عالم میں دروازے کو کنڈی لگاکر پناہ لینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مگر ظالم پھر بھی باز نہیں آتا اور پوری طاقت سے دروازہ اندر دباتا ہے۔

 اس کشمکش میں بزرگ والدین بھی پریشانی کے عالم میں پہنچ جاتے ہیں۔ باپ دروازہ بند کرنے میں بیٹے کا ساتھ دیتا ہے۔ ماں زار و قطار روتے ہوئے بچوں کو بچانے کی کوشش میں مگن رہتی ہے۔ اسی اثناء ڈبل دروازوں کے مابین تھوڑا سا گیپ آنے پر باہر سے فائرنگ ہوتی ہے۔ پستول سے نکلنے والی گولیاں سیدھے ماں کے سینے میں لگنے سے بے ہوش ہوکر گر جاتی ہیں۔ گھر میں صف ماتم بچھ جاتی ہے اور نامعلوم شخص باآسانی فرار ہوجاتا ہے۔

 فائرنگ کی آواز سن کر آس پاس کے ہمسائے پہنچ جاتے ہیں۔ خون میں لت پت ماں کو بچے اور بھائی قریبی ہسپتال پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں مگر وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے موت کے آغوش میں چلی جاتی ہے۔  واقعے کے فوری بعد پولیس جائے وقوع پر پہنچ جاتی ہے۔ مقتولہ کے ورثا کی درخواست پر تھانے میں ایف آئی آر درج کی جاتی ہے۔ ایک نئے جرم، ایک اندھے قتل کی کارروائی کا آغاز ہوجاتا ہے۔

  واقعہ گلگت شہر میں چوری چکاری اور ڈکیتی کی وارداتوں کے تناظر میں انوکھا نہیں۔ مگر طریقہ واردات میں انوکھاپن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ واقعہ  ان دنوں ہر جگہ موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ ہر طرف سے واقعے کی مذمت کی جارہی ہے۔  ہر گھر میں پریشانی لاحق ہے۔ ہر ماں اشکبار ہے،  ہر بچہ سوگوار ہے۔ رشتے دار، ہمسائے غمگسار ہیں، ہر کوئی عدم تحفظ کا شکار  ہے، جانے آخر کون قصوروار ہے۔  ایک ایسے خاندان پر ظلم کے پہاڑ گرائے گئے جس کا نہ کسی کے ساتھ زمین و جائیداد کا تنازعہ نہ عزت و ناموس پر جھگڑا اور نہ ہی کوئی اور دشمنی۔  پورا علاقہ اس بات کی گواہی دینے کو تیار ہے کہ ایک ہنستا بستا گھر کس قدر بے گناہی میں اجڑ گیا ۔

 لڑائی دونوں جانب ہتھیاروں سے ہوتی تو کچھ شکوک و شبہات بھی جنم لیتے مگر یہاں پر تو علم و جہالت کی تکرار اور شمشیر اور قلم کی وار تھی۔ ایک ایسےگھر میں صف ماتم بچھا دی گئی جہاں  پربندوق اور بارود کی بجائے علم و حکمت کا خزانہ  تھا۔ جہاں کے مکین تلوار کی بجائے قلم کی طاقت کے قائل تھے۔ سب سے بڑھ کر ایک ایسی ماں کا خون بہایا گیا جو ناخواندگی کے باوجود علم و تعلیم کی شیدائی تھی۔ جنہوں نے ہمیشہ اپنی اولاد اور خاندان کی نئی نسل کو علم کی روشنی سے منور کرنے کے لئے قربانیاں دیں، مصیبتں جھیلیں،  سختیاں برداشت کیں مگر اپنے مشن کی تکمیل میں کبھی ہمت نہ ہاری۔

ایک ایسی عظیم ہستی جس کی سادگی،عاجزی، پاک دامنی، اخلاص، شرافت، مہمان نوازی اور سماجی و دینی خدمات کا پورا معاشرہ معترف تھا۔  ان کا تعلق ایک ایسے گھرانے سے تھا جس کے ہر دن کا آغاز و اختتام خدا کے گھر کا طواف تھا۔

 باوجود اس کے اس گھر میں اس قدر اندوہناک حادثے کا پیش آنا یقیناً لمحہ فکریہ ہے۔ یہ گلگت بلتستان حکومت اور ریاستی اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے جن کی ناقص حکمرانی اور عوام کے جان ومال کے تحفظ میں کوتاہی کے سبب صوبائی دارالخلافہ میں چوروں، ڈاکوں اور دہشت گردوں کا راج ہے۔ ان دنوں شہر میں کوئی ایسا محلہ نہیں کہ جہاں کسی نہ کسی گھر میں چوری کا واقعہ پیش نہ آیا ہو۔

حالات اس نہج تک پہنچ چکے ہیں کہ کہی پر گن پوائنٹ پر راہ چلتے مسافروں کو  لوٹا جارہا ہے تو کہی گھروں سے قیمتی سامان زیورات وغیرہ چرائے جا رہے ہیں۔ کہی پر دن دیہاڑے معصوم بچے اٹھائے جارہے ہیں تو کہی رات کے اندھیرے میں شہریوں کا خون بہایا جا رہا ہے۔قاتلوں کا سراغ نہیں ملتا، مقتولین کو انصاف نہیں ملتا، ناحق خون کا حساب نہیں ملتا، کہی سے کوئی جواب نہیں ملتا۔  آخر یہ کیا تماشا ہے۔ کب تک یہ بے گناہ شہری لٹتے مرتے رہیں گے؟ کب تلک یہ یتیم بچے پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوئے پکارتے رہیں گے؟

!خدارا میری ماں کے قاتلوں کو گرفتار کرو۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button