کالمز
پروفیسر عطاء اللہ بھی اللہ کو پیارے ہوئے
پروفیسر عطاء اللہ مرحوم درست معنوں میں ایک مرنجان مرنج انسان تھے. دوستوں کے دوست اور یاروں کے یار تھے. میرا ان سے احترام، محبت اور خلوص کا رشتہ تھا.
پروفیسر عطاء اللہ گلگت مناور کی معروف فیملی "ترنگفہ فیملی” کے فرزند ارجمند تھے. پانچ اپریل 1957 کو پیدا ہوئے. والد کا نام زیداللہ خان تھا.
ابتدائی تعلیم گلگت اور اس کے مضافات میں مختلف اساتذہ کرام اور علماء دین سے حاصل کی. فیڈرل بورڈ سے ایف اے اور علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے گریجویشن کیا. شہادۃ العالمیہ(عالم دین کورس) یعنی درس نظامی کی تکمیل پاکستان کی مشہور دینی درسگاہ جامعہ اشرفیہ لاہور سے شعبان 1404ھ کو مکمل کیا، جہاں انہیں شیخ التفسیر مولانا ادریس کاندھلوی، مولانا عبدالمالک،مولانا موسی خان روحانی البازی اور بہت سارے کبار اہل علم سے شرف تلماز حاصل ہوا اور استفادہ کا موقع ملا.
جامعہ اشرفیہ لاہور جنوبی ایشیا کی بڑی دینی درسگاہ ہے. پاکستان میں چند دینی جامعات ہیں جن کی اپنی سند سرکاری اداروں میں تسلیم شدہ ہیں. باقی دینی اداروں کی بجائے وفاق المدارس کی سند مقبول ہے. جامعہ اشرفیہ بھی ان دینی جامعات میں ایک ہے جن کی سند مسلم شدہ ہے. قاری عطاء اللہ کے پاس جامعہ اشرافیہ کے اسناد/ سرٹیفکیٹس کے ساتھ وفاق المدارس العربیہ پاکستان کی سند الفراغ بھی تھی.
1981 میں پنجاب حکومت کے زیر اہتمام علماء اکیڈمی اوقاف دینیہ لاہور سے علوم اسلامیہ میں تخصص /اسپیشلائیزیشن کی اور سند حاصل کی. پنجاب یونیورسٹی لاہور سے 1989 میں ایم اے عربی کا امتحان پاس کیا.
مولانا عطاء اللہ فیڈرل پبلک سروس کمیشن اسلام آباد سے 7مارچ 1984 کو بطور اسلامیات کے لیکچرار، گلگت بلتستان کالجز کے لیے 17 گریڈ میں منتخب ہوئے. اور مسلسل تینتیس سال گلگت بلتستان کی مختلف کالجز میں اسلامیات و عربی کی تدریس کی. ان کے ہزاروں تلامذہ ہیں. ان کا علمی فیض قیامت تک جاری رہے گا. بطور پرنسپل بھی کام کیا یوں پانچ جون 2017 کو بطور پرنسپل ڈگری کالج چلاس سے 20 گریڈ میں ریٹائرڈ ہوئے. ریٹائرمنٹ کی تقریب میں مجھے خصوصی طور پر مدعو کیا تھا مگر دور ہونے کی وجہ سے حاضر نہ ہوسکا.
پروفیسر برادری میں پروفیسر عطاء اللہ صاحب "قاری عطاء اللہ” کے نام سے معروف تھے. ہم بھی انہیں قاری صاحب ہی کہتے تھے. انہوں نے جامعہ اشرفیہ لاہور سے علم دین کے ساتھ تجوید قرآن کی تعلیم بھی حاصل کی تھی اور سند حاصل کیا تھا.
کافی سال پہلے کی بات ہے. جامعہ نصرۃ الاسلام گلگت کی سالانہ تقریب ختم بخاری اور طلبہ کے مابین تقریری مقابلوں کا پروگرام تھا. پروگرام کا کوارڈینٹر اور موڈیریٹر راقم ہی تھا. میں نے رئیس الجامعہ قاضی نثار احمد سے عرض کیا، اس دفعہ تقریری مقابلوں کے ججز گلگت بلتستان کالجز کے پروفیسرز ہونگے. انہوں نے نام مانگے تو پروفیسر مولانا عطاء اللہ اور پروفیسر اشرف ملک کے نام پیش کیے. قاضی صاحب نے انتہائی مسرت سے اجازت دی. اشتہارات اور دعوت ناموں میں دونوں حضرات کے نام بطور منصفین شائع ہوئے . پروفیسر عطاء اللہ کو چیف ججز مقرر کیا گیا. دونوں صاحبان کو مطلع کیا تو بہت مسرت کا اظہارِ کیا. محفل میں حاضری کو اپنے لئے سعادت کہا اور وقت پر تشریف لائے اور بخوبی منصفی کے فرائض انجام دیے اور جامعہ کے طلبہ کی تقریری صلاحیتوں کا بھرپور اعتراف بھی کیا.
اپنے مستقبل کے تعلیمی پلان، وژن اور ادارہ و مسجد کے تعمیراتی پروجیکٹس، ان سے شئیر کیا تو بہت خوش ہوئے. کہنے لگے اگر ہم مناور میں ایک کنال زمین دیں تو آپ مسجد بنائیں گے. ان سے عرض کیا، پہلے مجھے پڑی بنگلہ میں مسجد اور مرکزی ادارہ تو شروع اور مکمل کرنے دیں، اس کے بعد آپ کے پاس خود حاضر ہوجاونگا، پھر مناور میں مسجد بناکر چھوٹا سا تعلیمی کیمپس بناونگا، فی الحال مناور نہیں آنا یہ شاید 2016 کی بات ہے . شاید ایک دو سال بعد یعنی 2024 تک قاری صاحب کی خدمت میں حاضر ہوتا جب پڑی کی مسجد کا کام کچھ ہوجاتا، مگر اس سے پہلے پہلے قاری صاحب داعی اجل کو لبیک کہہ گئے.انا اللہ وانا الیہ راجعون. دنیا میں کسی کے لیے بقا نہیں. اگر دنیاوی زندگی دائمی ہوتی تو رسول اللہ ہمیشہ کے لیے یہاں موجود ہوتے. یہ طے شدہ ہے کہ ہر ایک نے اللہ کے پاس جانا ہے. دنیا کی زندگی اور نعمتوں نے یہی رہنا ہے. انسان کے ساتھ صرف اس کے اعمال جائیں گے. قاری صاحب بھی اپنے اعمال کیساتھ اللہ کے حضور، حاضر ہوئے ہیں. اللہ آسانی اور کرم کا معاملہ فرمائے.
2015 میں میری چلاس کالج پوسٹنگ ہوئی تو قاری صاحب کی بطور پرنسپل مناور کالج گلگت ٹرانسفری ہوئی. انہوں نے محبت سے رخصت کیا. پھر بہت جلد دوبارہ ان کی بھی ڈگری کالج چلاس پوسٹنگ ہوئی. اگلے دو سال بہت خوشگوار گزرے. قاری عطاء اللہ مرحوم نے ہمیں کھبی یہ احساس ہی نہیں ہونے دیا کہ وہ ہمارے بوس ہیں، پرنسپل ہونے کا روپ نہیں جھاڑا، بلکہ ہمارے ساتھ کولیگ بلکہ بھائیوں جیسا رویہ رکھا.بہت سارے واقعات ہیں. سب کو لکھا نہیں جاسکتا. کاغذ کے اوراق میں اتنی گنجائش کہاں.
ایک دفعہ تعلیمی سال کے اختتام پر اکیڈمک اسٹاف نے آخری میٹنگ کرکے چھٹی کرنی تھی. تاریخ طے ہوئی کہ فلاں دن احباب کی الوداعی میٹنگ ہوگی. اس دن صبح عرض کیا قاری صاحب احباب کی میٹنگ بلا لیں. انہوں نے کہا کیا جلدی ہے. تھوڑی دیر بعد کرلیں گے. گھنٹہ بعد پھر کہا. قاری صاحب ہم نے گلگت جانا ہے. موسم خراب آلود ہے. آسمان سے ہلکا ہلکا ابرکرم برس رہا ہے کہیں یہ ابر رحمت، ابر زحمت نہ بن جائے. محبوبہ کے موڈ اور موسم کا کچھ نہیں پتہ چلتا، کب کیسے بگڑے، خراب ہوجائے اور مسائل پیدا کرے. احباب کو جمع فرمائیں. وہ کہنے لگے، تمہیں آج اتنی جلدی کیوں ہے. جانا ہے تو جاؤ بھائی ، میٹنگ سے کیا کرنا ہے. مجھے اچھا نہیں لگا. میں نے کہا آپ ناراض ہورہے ہیں. میں میٹنگ کے بعد بھی نہیں جاونگا، مزید ہفتہ یہی رکونگا. قاری صاحب نے شاید محسوس کیا کہ ان کا لہجہ ذرا سخت تھا. فرمایا: ارے بھائی نہیں. میرا مطلب ہے آپ بغیر آخری میٹنگ اٹینڈ کیے جائیں. تمہارا "بڑا بھائی” یہاں موجود ہے. کچھ نہیں ہوگا. جب تک میں ہوں آپ نے کسی قسم کا ٹینشن لینا نہیں. پھر ان سے اجازت لے کر گلگت روانہ ہوا. وہ کھبی کھبار کہتے حقانی، تمہارا بڑا بھائی ہے نا. یہ سن کر اتنا اچھا لگتا کہ اس کا اظہار الفاظ میں نہیں کیا جاسکتا.
وہ حضرات میٹنگ کے بعد دوپہر کا کھانا تناول کرکے نکلنا چاہتے تھے.تب روڈ جگہ جگہ بلاک ہوا. کچھ ساتھی راستے سے واپس ہوئے.تب میں گلگت پہنچ چکا تھا. رات کو انہوں نے کال کیا. کہنے لگے تم واقعی ولی اللہ ہو. جلدی کرکے نکل گئے. ہم لوگ یہاں پھنس گئے ہیں. دو چار دن تک روڈ کے کھلنے کا امکان ہی نہیں. اب آپ کی جلدی سمجھ آئی.
چلاس کالج کے دورانیہ میں، میں ایم فل کررہا تھا. جب بھی اسلام آباد جانا ہوتا، قاری صاحب کو فون کرتا. وہ نخرے نہیں کرتے، بلکہ دعائیں دے کر رخصت کرتے تھے. میرے پاس ڈیپارٹمنٹ سے این او سی بھی تھی. کھبی ان کو بتایا بھی نہیں کہ این او سی ہے، مگر وہ بہانے نہیں بناتے، کئی دفعہ کہا، آپ ورکشاپ اٹینڈ کرکے آجائیں، ویسے بھی آپ نے شوق سے پڑھانا ہے. آپ کے سلیبس کا مسئلہ نہیں ہوگا.
ایک دفعہ مجھے ایمرجنسی میں لاکھ روپیہ کی ضرورت پڑی. کالج کے کئی احباب کے پاس ڈیم کا بڑا روپیہ موجود تھا،جن سے جمع خاطر بھی تھا. کچھ نے وعدہ بھی کررکھا تھا مگر عین وقت پر مکر گئے. ان کے قرضہ حسنہ کے وعدہ کی وجہ سے، میں بھی آگے وعدہ کرچکا تھا، مگر اب کہیں سے بندوبست تو کرنا تھا. پریشانی کے عالم میں قاری صاحب کے پاس جاکر کہا کہ فوری طور پر لاکھ روپیہ چاہیے. انہوں نے کہا ابھی فلاں فلاں سے لاتے ہیں. عرض کیا انہوں نے دینے کا وعدہ کرکے نہیں دیا ہے. آپ ان سے لائیں گے بھی تو نہیں لینا میں نے. کہیں اور سے بندوبست کیجئے. پھر انہوں نے لاکھ روپیہ کا فوری بندوبست کیا. چار ماہ بعد لوٹایا.
قاری صاحب کے ساتھ گپ شپ بہت لگتی تھی. وہ محفل جمانے والے انسان تھی. میری لچر گفتگو اور لطائف سے بہت خوش ہوتے تھے. یہاں تک کہ میرے بیان کردہ کچھ لطائف اپنے بیٹیوں کو بھی سنایا کرتے تھے اور اپنے احباب کو بھی. دوسری شادی پر کی جانے والی گفتگو کا بھی مزے لیتے. کبھی کبھی کہتے میں بھی کرونگا. پھر کہتے. میرا چھوٹا بیٹا آپ لوگوں کا دوست ہے. ان کو نہ بتاو کہ تمہارا باپ شادی کرنے کا ارادہ رکھتا ہے کہیں اسکا دل نہ ٹوٹے. کبھی کہتے: ان سے ذرا اندازہ تو کرو کیا کہتا ہے. قاری صاحب اپنے بیٹے حکیم سے بہت پیار کرتے تھے. ہر وقت اپنے ساتھ رکھتے.
2016 کے آخر میں بلاوجہ اور ضرورت، میری چلاس سے استور کالج پوسٹنگ کی گئی. میں بھی دلبرداشتہ ہوکر بغیر کسی کو اطلاع کیے گلگت روانہ ہوا. رات کو قاری صاحب نے فون کرکے محبت کا اظہار کیا. اگلے دن شاید دیامر کے ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹس کی میٹنگ تھی. قاری عطاء اللہ سب سے سینئر آفیسر تھے. ڈی سی سے کہا. میرے کالج کے استاد امیرجان حقانی کو بلاوجہ استور ٹرانسفر کیا گیا ہے. کالج ڈسٹرب ہورہا ہے. اگر آپ ان کی ٹرانسفری رکوا سکتے ہیں تو ضرور رکوائے. یہ بات اسی وقت میرے ایک ایگریکلچر کے دوست جو اپنے محکمہ کے ہیڈ تھے دیامر کے، فون کرکے بتایا کہ آج آپ کے پرنسپل نے آپ کی ٹرانسفری کو بہت برا منایا ہے اور ڈی سی کو رکوانے کا کہا ہے. کیا مسئلہ ہے.؟ میں نے کہا، یہ ان کی محبت ہے. ٹرانسفری جاب کا حصہ ہے تاہم ڈیپارٹمنٹ میں کچھ لوگ ویسے ہی مجھے تنگ کرنا چاہتے ہیں، اور میری وجہ سے کچھ دوسرے کولیگز کو بھی متاثر ہونا پڑ رہا ہے. میں تو استور جاکر بھی انجوائے کرونگا مگر ان احباب کی شقاوت قلبی یاد بھی رہے گی.
ریٹائرمنٹ کے بعد بھی کئی دفعہ مجھے نسالو کے گوشت کی دعوت کیا. سال 2022 میں اتنا مصروف رہا کہ چاہنے کے باوجود بھی قاری صاحب کی زیارت کے لئے حاضر نہ ہوسکا. اتنا افسوس ہوا کہ الفاظ میں بیان نہیں کرسکتا. کئی احباب نے بتایا بھی تھا کہ قاری صاحب آپ کو یاد کررہے ہیں. میری والدہ کی وفات کی خبر انہیں بہت دیر سے ملی. مجھے فون کیا اور کہا کہ دعاؤں میں یاد رکھتا ہوں، کیا کروں بیمار ہوں حاضر نہیں ہوسکتا. ایسے بے لوث لوگ بہت کم ہوتے ہیں. زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے!
بروز پیر 26 دسمبر 2022کو ہمارے پرنسپل پروفیسر محمد عالم صاحب نے فون کرکے پروفیسر عطاء اللہ کی رحلت کی المناک خبر سنا دی. عجیب سا لگا.واقعی دنیا بے ثبات ہے. آنکھوں کے سامنے قاری صاحب کے ساتھ بیتے ایام کی خوشگوار یادوں کی ایک طویل فلم دوڑنے لگی. فوری طور پر ان کے گھر کی طرف روانہ ہوا.بہت سارے لوگ جنازہ سے قبل ہی ان کے دولت کدہ پر جمع تھے. امیر اہل سنت والجماعت قاضی نثار احمد اپنے رفقاء سمیت پہنچے تھے. انہوں نے نماز جنازہ پڑھائی. ایک مفصل خطاب بھی کیا. قاری مرحوم کے محاسن بھی بیان کیے. نماز جنازہ میں ہزاروں لوگوں نے شرکت کی. سیاسی و مذہبی قائدین، سرکاری آفیسران اور علماء کرام کی بڑی تعداد موجود تھی. تمام مکاتب فکر کے لوگ جنازہ میں شریک تھے. بہت سارے جاننے والے اہل تشیع احباب کو دیکھا جو قاری صاحب کی جنازہ میں شریک تھے اور ان کے انتقال پُر ملال پر بہت حزیں تھے.بہتوں پر قاری صاحب کے احسانات بھی تھے. اچھے لوگ احسانات بھولتے نہیں. پروفیسر برادری کی بڑی تعداد موجود تھی. پروفیسر مولانا سید عبدالجلال انتہائی علالت اور بیماری کے باوجود حاضر ہوئے اور قاری عطاء اللہ کی آخری دیدار کرکے بلک بلک رونے لگے.وہ دونوں یارغار تھے.
قاری صاحب مرحوم کے دو بھائی شیرط اللہ اور حبیب الرحمان اور چھ بہنیں ہیں . ایک بھائی ڈی ایس پی شیرت اللہ صاحب بھی اللہ کو پیارے ہوئے ہیں. بڑے خوش مزاج انسان تھے.ان کی اولاد میں پانچ بیٹے، اسدللہ، نجیب اللہ، مجیداللہ، حکیم اللہ اور رحیم اللہ ہیں اور ایک بیٹی جن کا نام حفصہ ہے. قاری صاحب مرحوم کی اہلیہ ابھی حیات ہیں. اللہ تعالیٰ ان کا سایہ ان کے بچوں پر تادیر رکھے.اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ان کی اولاد ان کے حق میں اولاد صالح ہو. ان کے لیے صدقہ جاریہ کریں اور ہمیشہ دعاؤں میں یاد رکھیں.مرنے کے بعد یہی چیزیں انسان کے کام آتی ہیں.
ہم سب نے وہاں جانا ہے جہاں قاری صاحب مرحوم گیے ہیں. اللہ ان کی مغفرت فرمائے. اور اپنے جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے. آمین.