احسان فراموشی ہے نا شُکری ہے ،کیا ہے؟
کیا تم پہ مری ذات گراں گُزری ہے، کیا ہے؟
میں اپنے تَٸیں تم پہ کوٸی بار ہوں کیا ہوں؟
میں رَنج، مصیبت، کوٸی آزار ہوں کیا ہوں؟
تم لوگوں کے گھر آکے میں چرتا تو نہیں ہوں
میں اپنی شِکم اِس طرح بَھرتا تو نہیں ہوں
میں غار میں رہتا ہوں کسی گھر تو نہیں ہوں
تم لوگ بتادو میں گداگر تو نہیں ہوں
جنگل کا میں زیور ہوں پہاڑوں کا مَکِیں ہوں
میں بھی تو کوٸی نقطہِ تحریرِ زمیں ہوں
تم سب کی روایت کی علامت مِرے دَم سے
تم سب کی ثَقافت ہے سَلامت مِرے دَم سے
پھر کیوں مری نَسلوں کو مِٹانے پہ تُلے ہو؟
کیوں حُسن کو منظر سے ہَٹانے پہ تُلے ہو؟
تم وہ کہ جو اغیار کے سِکُّوں پہ بِکے ہو
تم وہ کہ جو اَفرنگ کے قدموں میں جُھکےہو
تم لوگوں کے سینوں میں نہ غیرت ہے نہ دِل ہے
تم اپنے ہو اِس بات پہ دُشمن بھی خَجِل ہے
ڈالَر کے عِوَض تم نے مِری نَسل کو مارا
میں اَصل تھا تم لوگوں نے اِس اَصل کومارا
تم لوگوں کی پہچاں کا مُحافِظ تھا اَمیں تھا
تم لوگوں کی دُنیا پہ کوٸی بوجھ نہیں تھا
پھر کیوں مری ہَستی پہ یوں بندوق چَلایا؟
کیوں میرا جو قاتل تھا اُسے سینے لَگایا؟
کیا تم سے وہ غیرت کا جو احساس تھا، کھویا؟
کیا تم میں امانت کا وہ جو پاس تھا، کھویا؟
پھر سُن لو اگر تم میں نہیں پاسِ وفا ہے
تم لوگوں کی فطرت میں ہی پیوَست جفا ہے
نکلونگا میں دھرتی سے کہیں اور چَلونگا
اور رو کے شکایات کہیں رَب سے کَرونگا
حسنین قاسمی