موسمیاتی تبدیلی اورگلگت بلتستان میں درختوں کی بے دریغ کٹائی
گلگت بلتستان میں سردیوں کی آمد کے ساتھ ہی پورے خطے میں لاکھوں درختوں کی کٹائی بھی شروع ہوجاتی ہے۔ علاقے میں سردی کی شدت میں اضافے کے ساتھ ہی یہاں کے عوام ایندھن کے طور پر لکڑیوں کا استعمال کرتے ہیں۔ گلگت بلتستان کے بعض علاقوں میں قدرتی گیس سیلنڈرز میں میسر ہے، مگر اس سال قیمتوں میں اضافے کے سبب بہت سارے خاندان گھریلو استعمال کے لئے گیس خریدنے سے قاصر ہیں۔ اسی لئے لکڑیاں کاٹنے اور جمع کرنے کا سلسلہ جاری وساری ہے۔گلگت بلتستان میں بجلی کا شدید بحران کئی عشروں سے جاری ہے، جس کے سبب مقامی افراد کے پاس گھروں کو گرم رکھنے کے لئے درخت کاٹ کر لکڑی استعمال کرنےکے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ ۔
درختوں اور دیگر نباتات کی کٹائی سے ماحولیاتی الودگی میں اضافہ ہورہا ہے جس کی زد میں اس خطے میں موجود گلیشیرز بھی آرہے ہیں۔ گلگت بلتستان میں پانچ ہزار سے زائد گلیشیرز موجود ہیں، جنہیں ماحولیاتی تبدیلی اور ارضی درجہ حرارت میں اضافے کے سبب خطرات لاحق ہوچکے ہیں۔
ماہرین کے مطابق گلگت بلتستان میں لکڑی کے زیادہ استعمال سے خطے کے گلیشیرزکو سخت نقصان پہنچ رہا ہے۔ لکڑی کے استعمال سے نہ صرف ماحول کی آلودگی ہوتی ہے بلکہ بلیک کاربن کے اخراج سے اس خطے کے گلیشیرز کو سب سے زیادہ نقصان پہنچ رہا ہے۔ یہی صورتحال جاری رہی تو مقامی افراد کے ساتھ ساتھ پاکستان بھر میں زراعت اور گھریلوں استعمال کے لئے پانی کی کمی ہوگی۔
اس وقت صورت حال یہ ہے کہ پچھلے سال گلگت بلتستان میں طوفانی بارشوں اورسیلابی ریلوں نے تباہی مچا دی تھی۔ سیلاب نے سب سے زیادہ نقصان ضلع غذر کوپہنچایا جہاں بعض علاقوں میں گلیشیائی جھیلوں کے ٹوٹنے کی وجہ سے سیلاب آیا اور کئی بستیوں کو صٖفحہ ہستی سے مٹا دیا۔ مقامی افراد کے مطابق جن علاقوں میں کئی صدیوں سے سیلاب نہیں آیا تھا اب ان علاقوں میں بھی سیلاب نے تباہی مچا دی ہے جس کی وجہ موسمیاتی تبدیلی اور گلیشیرز کا پگھلاؤ بتایا جاتا ہے۔
یاد رہے کہ دریائے سندھ کا زیادہ تر پانی انہی گلیشیرز سے نکلتا ہے اور ملک کی ایک بڑی آبادی کو سیراب کرتاہے مگر جس تیزی کے ساتھ یہاں کے گلیشیرز ٹوٹ رہے ہیں اگر یہ رفتار جاری رہی تو ائندہ چند سالوں میں ہمارے کاشتکار حضرات کو پانی کی کمی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
ایسے میں ہمارے ماہرین اور فیصلہ سازوں کو گلیشیرزکے پگھلاؤ روکنے کے لئے ابھی سے ہی اقدامات اٹھانے ہونگے۔ ان اقدامات میں سب سے پہلے گلگت بلتستان میں سردیوں کے موسم میں ہیزم سوختنی کے طور پر لکڑیوں کے بے تحاشا استعمال کو کم کرنا ہوگا۔ قدرتی گیس سستے داموں فراہم کر کے اس پر بہت حد تک قابو پایا جاسکتا ہے۔ قدرتی گیس مہیا ہونے کی صورت میں عوام الناس اپنے پھلدار اور دیگر درخت کاٹنا کم کر دیں گے اور اس سے لامحالہ ماحولیاتی آلودگی کم کرنے میں مدد ملے گی۔
شنید ہے کہ گلگت بلتستان کے لئے چائینہ سے گیس کی پائپ لائن بچھانے کا ایک منصوبہ زیر غور ہے اس منصوبے کو بھی آگے بڑھانا ہوگا تاکہ ہم ایک جانب اپنے درخت بچا سکے تو دوسری جانب ہماری گلیشیرزکو بلیک کاربن سے جو نقصان پہنچ رہا ہے اس میں کمی آسکے۔
گلگت بلتستان میں 2010کے بعد سے گلیشیرز کے پگھلاؤمیں اضافہ ہوتا جارہا ہے حالانکہ اس سے قبل اگر دیکھا جائے تو یہاں کے گلیشیرزکے پگھلاؤکی تاریخ نہیں ملتی۔ ضلع غذر کی تاریخ میں سب سے بڑا سیلاب 1905میں آیا تھا او یہ سیلاب گلیشیرکے پگھلاؤسے نہیں بلکہ گلیشیربڑھنے سے آیا تھا جب غذر کی بالائی تحصیل اشکومن جس کی سرحدیں افغانستان سے ملتی ہیں میں واقع پچیس کلومیٹر طویل قرمبر گلیشر پھیل کر سامنے پہاڑ سے جا کر ٹکرایا تھا اور دریائے اشکومن کو ایک ہفتے تک بند رکھا جس کے بعد اس گلیشیرکے پھٹ جانے سے گلگت بلتستان کی تاریخ کا خطرناک ترین سیلاب آیا غذر اور گلگت کے درجنوں دیہات صفحہ ہستی سے مٹ گئے اور اس سیلاب کی نشانیاں آج بھی غذر میں موجود ہیں اور انگریز حکمرانوں نے اس سیلاب کی سطح کو پتھر تراش کر محفوظ کر لیا ہے جو اس وقت بھی اپنی اصلی حالت میں غذر کے ہیڈ کوارٹر گاہکوچ کے قریبی گاؤں گورنجر کے سامنے موجود ہے۔
پوری دنیا اس وقت موسمیاتی تبدیلی کی زد میں ہے اورگلگت بلتستان اس وقت سب سے زیادہ متاثر ہورہا ہے۔ یہ اثرات مستقبل میں مزید شدت اختیار کر سکتے ہیں کیونکہ گلگت بلتستان جیسے چھوٹے سے علاقے میں پانچ ہزار سے زائد گلیشیرزموجود ہیں۔
اگر ہماری حکومت نے ان گلیشیرزکا پگھلاؤ روکنے کے لئے اقدامات نہ اٹھائے تو نہ صرف ہماری زمینوں کو پانی دستیاب نہیں ہوگا بلکہ چند سالوں بعد ہمیں پینے کے پانی کے حصول کے لئے بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گ۔ اوقت کا تقاضا ہے کہ ابھی سے ہی ہمیں اپنے پانی کو بچانے کے لئے اقدامات اٹھانے ہونگے ۔ دیامیر بھاشا ڈیم کی بروقت تعمیر بھی بہت اہم ہے۔ اگر یہ ڈیم بن جائے تو نہ صرف ہم اپنے پانی کو بچا سکیں گے بلکہ ملک میں توانائی کا جو بحران ہے اس میں کمی لاسکیں گے اور گلگت بلتستان سمیت قرب و جوار کے دیگر علاقوں میں سردیوں کے موسم میں ایندھن کے استعمال کے لئے درختوں کی بے دریغ کٹائی سے بھی چھٹکارا مل سکے گا۔