میں نے بچپن میں اقبال کی نظم ” ہمدردی” میں بلبل اور جگنو کی کہانی سن رکھی تھی جس میں ایک جگنو شام کے دُھندلکے میں بھٹکے بلبل کی راہنمائی کرتا ہے ۔ ہمارے استاد جی نے اس نظم کی تشریح کرتے ہوئے ہمیں جگنو کے نقش قدم پر چلنے کی تلقین کی تھی ۔ استاد نے یہ بھی فرمایا تھا کہ قد کاٹھ معنی نہیں رکھتا ، ذات پات ، مذہت ، علاقہ ، زبان اور نسلی بالا تری پر گھمنڈ محض عقلی فتور کے نتیجہ کے علاوہ اور کچھ نہیں ۔ دنیا میں نام اُن کا رہتا ہے جو اس کرہ ارض کے اوپر رہنے والوں سے محبت کرتے ہیں اور اُن کا سہارا بنتے ہیں ۔اُس زمانے میں یہ محض ایک نظم تھی لیکن جب میری ملاقات امریکہ میں مقیم چترال کےدو ہیروں سے ہوئی تو علامہ اقبال کی نظم ” ہمدری” کی تشریح کی گہرائی کا اندازہ ہوا ۔ اور استاد نے جو تشریح کی تھی اُسکا اب عملی مظاہرہ دیکھنے کو ملا ۔
؎ ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے آتے ہیں جوکام دوسروں کے
یہ دو ہیرے روزیمن شاہ اور اُن کی اہلیہ نگہت شاہ ہیں ۔ وادی لوٹ کوہ میں سنگلاخ پہاڑوں کے دامن میں پیدا ہوئے اور امریکہ جاکے نہ صرف آباد ہوئے بلکہ کئی ایک خاندانوں کی کفالت کی اور آباد بھی کیا ۔ روزیمن شاہ اور اُن کی اہلیہ نگہت شاہ نےآج سے یہی کوئی ۲۰ سال قبل زندگی کے سنگلاخ اورپرپیچ راستوں کی مسافت اختیار کی۔ مستقبل کے راستوں میں حائل رکاوٹوں سے نبرد آزمائی کی اور ہر تعّرض کو مواقع کی کسوٹی پر مثبت انداز سے پرکھتے ہوئے اعلیٰ ظرفی، ایمانداری اور سخت کوشی کے ساتھ نشان منزل کی جانب گامزن رہے ۔
مجھے اُن سے ملاقات کا اشتیاق اُس وقت دامن گیر ہوا جب میرے جگر گوشہ احسان الحق جان نے اپنی حیات میں روزیمن شاہ اور نگہت شاہ کائے کی سحر انگیز شخصیت کا متعدد بار ذکر چھٹیوں پر پاکستان آکر اور پھر ہمارے امریکہ جانے کے دوران کیا تھا۔ میں نے ملاقات کی تقویمِ خاص تشکیل دی تاکہ کہیں مصروف ترین لوگوں کے معقولات میں مخل ہونے کا مرتکب نہ ہو جاوں ۔ ہم اپنے بھائی صدرالدین کے یہاں ٹھہرے ہوئے تھے میمفیس کے اُسی محلّے میں مقیم چھوٹے بھائی منظور اور اُن کی اہلیہ بشریٰ نے اُس دن ایک عشا یئے کا اہتمام کیا ہوا تھا یوں کھانے کی میز پر امریکہ میں آباد چھوٹے چترال کے راجہ اور رانی سے ہماری اتفاقی ملاقات ہوئی ۔ یہ قطرے میں دجلہ تھے اور جزو میں کل ۔یہ وہ بوندیں تھیں جوکہ زندگی کے جھرنوں میں پتھروں سے سر پٹخاتے رہے لیکن کوئی شور نہیں مچایا اور نہ کسی سے مدد کی اپیل کی کیوں کہ اُنہوں نے ایک گہرے سمندر میں اُتر کر اپنے لیے جگہ بنانا تھا اور سمندر بھی اتنا نا موافق کہ جس کا ہر موج ایک کڑی آزمائش سے کم نہ تھا۔ بقول غالب ؎
دامِ ہر موج میں ہے حلقہ صد کامِ نہنگ جانے کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک
غالبؔ کی نظر میں دنیا کی سب سے قیمتی موتی آسمان سے بارش کے کسی قطرے میں لپٹ کر زمین پہ گرتی ہے ، پانی کے ساتھ شامل ہو کر اپنا سفر کسی نہ کسی طرح سمندر کی جانب رواں دواں رکھتی ہے ۔دو جہاں کی دولت سموئے ہوئے یہ بوند سمندر میں ایک خاص مچھلی کے منہ میں جاکر حفاظت سے پنپتی ہے اکثر بوندیں منزل سے پہلے ہی آبی دشمنوں کا نوالہ بن جا تاہے لیکن کچھ قطرے ایسے ہوتے ہیں جو تمام تر مشکالات سے نبرد آزما ہوکر رُکاوٹوں سے سیکھتے ہوئے اپنی منزل تک پہنچنے میں کامیاب جاتے ہیں اور وہ لاکھوں میں کوئی ایک ہی ہوتاہے ۔ اُن ہی میں سے روزمن شاہ اور نگہت شاہ ایک ہیں ۔ ایک کامیاب قطرے کی مانند اپنا سفر جاری رکھا ۔ اُنہوں نے کشتیاں جلائیں اور زندگی کی تنگ و تاریک گھاٹیوں سے منزل کی جانب رو بہ سفر رہے کیوں کہ وہ حیدر علی آتش کی زندگی کے اس فلسفے پر یقین رکھے تھے ؎
سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے ہزارہا شجر سایہ دار راہ میں ہے
ہم اُس رات ، رات گیِے تک بیٹھے اور خوش گپیاں کرتے رہے ۔ اس نشست میں میرے دل نے مجھ سے کہا کہ کیوں نہ اِن دو شخصیات کی زندگی کے نشیب و فراز سے پردہ اُٹھایا جائِے ۔ ہم نے سوچا کہ اگلی صبح ہم ملیں گے ۔ یوں اگلے دن ہماری اگلی ملاقات محترم روزیمن شاہ اور محترمہ نگہت شاہ صاحبہ سے اُن کے دفتر میں ہوئی ۔ ملاقات کے دوران میں نے سوچا کہ شاید بادی النظر میں یہ بے حد سیدھے سادے اور چترالی تہذیب و ثقافت کےعلمبردار لوگ نظر آتے ہیں لیکن جیسے جیسے ہماری نجی گفتگو تکلفات کے حصار سے نکل گئی تو مجھے حتمی طور پر یہ فیصلہ کرنے میں کوئی دقت محسوس نہ ہوئی کہ یہ لوگ صرف ایک نظر میں مختصر وقت کےلیے بھلے معلوم ہونے والے لوگوں میں سے قطعی طور پر نہیں بلکہ وجدانی طور پر بھی اُتنے ہی دلفریب ہیں جتنے نظر آتے ہیں ۔ اگرچہ یہ لوگ گزشتہ دو عشروں سے امریکہ میں آباد ہیں لیکن نشست و برخواست اور علاقائی تکلفات میں زرہ برابر بھی کمی نہیں آئی۔ ان سے ملتے ہوئے آپ کو یہ بالکل احساس نہیں ہوگا کہ یہ لوگ امریکہ کے کاروباری حلقے کے معتبر ناموں میں سے ایک ہیں ۔ تیسری دنیا سے ریاست ہائے متحدہ امریکہ جیسی وسیع دنیا میں تیز طرار لوگوں کا مقابلہ کرتے ہوئے سبقت پانا اوراُنہیں اپنے کاروباری مراکز میں ملازم رکھنا پاکستان کےلیے فخر کا مقام ہے ۔ مجھے ان دو شخصیات پر بہت پہلے لکھنا تھا کیوں کہ میری ان دونوں فیروز بختوں سے ملاقات27 جون ۲۰۲۲ میں ہوئی تھی ۔ لیکن ایک ایسا وقت آڑے آیا کہ ہم اپنے آپ کو بھی بھُلا بیٹھے ۔ حافظہ جب دھیرے دھیرے سے لوٹ آنے لگا تو ذہن کے دریچوں سے سب سے پہلے نظر آنے والے لوگ یہی تھے ۔ یہ وہ لوگ تھے جو بعد میں ہمارے مشکل وقت کے دست و بازو رہے، ہمارا سہارا بنے اور ہمیں ڈھارس بندھائی۔ اُنہوں نے انتہائی مشکل صورت حال میں ہماری جس انداز سے مدد کی ، ہم کسی اور مضمون میں اس پر بات کریں گے ۔ کسی کی مدد کرنا اُن کےلیے کوئی بڑی یا کوئی نئی بات نہیں ۔ یہاں آباد لوگوں کی مدد کرنا اُن کا معمول ہے اور اُن کی فراخ دلی کے قصے طولانی ہیں ۔ سر دست میرے حافظے میں روزیمن شاہ اور نگہت شاہ سے اُن کے دفتر میں ایک مختصر ملاقات یاد ہے جس میں ہم نے خالص کھوار زبان میں باتوں باتوں میں اُن کی زندگی کے پیچ و خم کو اپنی گفتگو کا حصہ بنالیا تھا ۔
ہم جب اُ ن کے دفترکے بیرونی دروازے سے اندر داخل ہوئےتو دفتر کی نفاست اور شان و شوکت دیکھ کر تذبزب کا شکار رہے کہ کہیں ہم غلطی سے کسی اور دفتر میں تو داخل نہیں ہوئے ہیں کیوں کہ روزیمن شاہ بھائی اور نگہت شاہ کائے سے کل شام ہی ملاقات ہوئی تھی اور اُن کی سادگی دیکھ کر آج کی اُن کی اس پرکاری کا گمان گزرنا مشکل تھا۔ وسیع و عریض اراضی پر مشتمل صاف و شفاف عمارت جس کے باہر کئی ایک گاڑیوں کی پارکنگ کی جگہ موجود تھی اور دفتر کہ جس میں مختلف شعبے متحرک اور عملہ مصروفِ عمل تھا ۔ استقبالیہ پر مامور ایک خاتوں نے انتہائی احترام سے ہمارا استقبال کیا اور ہمارے دورے کی وجہ پوچھی ۔ ہم نے اپنے آمد کی توجیہ بیان کی تو اُنہوں نے ایک دفتر کی جانب میری اور میری شریک حیات کی راہنمائی کی۔ ہمارے افس کے اندر داخل ہونے سے پہلے نگہت شاہ کائے کو ہماری آمد کی اطلاع ہوئی تھِی ۔ محترمہ اپنے دفتر سے باہر آئیں اور خالص مشرقی اور باالخصوص چترالی انداز سے مصافحہ کیا اور ہمیں اپنے دفتر کے اندر لے گئیں ۔ یہ ایک کشادہ آفس تھا جو چاروں اطراف سے مہمانوں کی میز کرسیوں اور صوفوں سے مزئین تھا۔ میں جب اُن کی اس شان و شوکت اور ملنے والوں کےلیے خلوص کو انسانی زندگی کے اخلاقی رویوں کے ترازو میں تولتا ہوں تو وزن کا نتیجہ اقبال کا یہ شعر نکلتا ہے کہ
؎ مٹا دے اپنی ہستی کو اگر کچھ مرتبہ چاہے کہ دانا خاک میں مل کر گلِ گلزار ہوتا ہے
نگہت شاہ کائے نے اپنی دفتری نشست چھوڑ دی اور مہمانوں کی نشست پر آکر ہمارے ساتھ شریک گفتگو ہوئیں۔ تھوڑی دیر بعد روزیمن شاہ بھائی تشریف لائے ۔ متناسب قد کاٹھ ، سانولا سلونا ، ملیح چہرا ، کمان کی طرح خمدار آبروجن کے نیچے گہری جھیل کی مانند متبسّم اور فہم و فراست کی آئینہ دار آنکھیں ، لبوں پر خوشگوار مسکراہٹ ، گفتگو میں دھیما پن اور الفاظ کے انتخاب میں بے حد متانت مگر بلا کی صاف گوئی ۔ ہمارے ساتھ نشست پر کچھ اس تکریم سے بیٹھے جیسے ہم اُن کے خاندان کے بڑے بڑوں میں شمار تھے یا یہ کہ وہ ہمارے دفتر میں کسی کام سے آئے تھے ۔ ہم نے اُن کے دفتری اوقات کار مِیں مخل ہوِئے بغیر کچھ غیر رسمی گفتگو کی اور زندگی میں بہت کچھ سیکھنے کو ملا ۔ مزے کی بات یہ تھی کہ دنوں کی زبان اور ادائیگیِ الفاظ میں بلا کی ملائمت تھی اور آواز میں میٹھاس و دھیما پن ۔ ہم نے گفتگو شروع کی جو کہ صاحب موصوف اور اُن کی اہلیہ کی ابتدائی تعلیم سے شروع ہوکر اُن کی شادی خانہ ابادی اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں مقیم ہونے تک پہنچی تو شام نے اپنی کالی زلفیں بچھا دیں اور ہم بنے مہمان روزیمن شاہ اور نگہت شاہ کے ۔
(بقیہ دوسری قسط پر ملاحظہ فرمایئے)