کالمز

مضبوط عورت سے خائف سماج اور عالمی یومِ خواتین

میمونہ عباس

مارچ کا مہینہ اپنے ساتھ بہار کی رونقوں اور رنگوں کا میلہ تو لاتا ہی ہے مگر پچھلے چند سالوں سے پاکستانی عوام و خواص کے لیے یومِ خواتین پر عورت مارچ کی سوغات بھی لارہا ہے۔ جہاں ایک طرف خواتین "عورت مارچ” منعقد کرکےعلی الاعلان اپنے حقوق کی جنگ لڑنے کا اعادہ کرتی ہیں تو دوسری جانب صدیوں پرانے پدرسریت کی فرسودہ و بوسیدہ دیواروں کو بھی اپنے بلند بانگ و بیباک نعروں کی گونج سے لرزا دیتی ہیں۔ نتیجتاً یہ ملبہ وقتاً فوقتاً ہر اس عورت پر گرتا رہتاہے، جو اپنے اور اپنی جیسی دوسری خواتین کے حقوق کے لیے کھڑی ہوجاتی ہے یا ان کے حقوق کے لئے آواز اٹھاتی ہے۔یوں اگلے عورت مارچ تک پچھلے عورت مارچ میں اٹھائے گئے پلے کارڈز پر درج شدہ نعرے اور مطالبات واقعتاً پدرسریت کو سوئی کی نوک تلے رکھ دیتے ہیں، سو کبھی تو مرد کو اپنی روٹی خود گرم کرنے کے مطالبے پر جھنجھلاہٹ ہوتی ہے تو کبھی برابری کا نعرہ عورت کی جانب سے بغاوت کا اعلان سنائی دیتا ہے، یوں اس کی تلملاہٹ عورت مارچ کے گزرجانے کے بعد بھی عروج پر  رہتی ہے۔ اس سال تو خیر عورت مخالف دھڑے نے یومِ خواتین پر عورت کے حق کے لئے بلند کی جانے والی آوازیں دبانے کی سرتوڑ کوششیں کیں مگر خیر ہو، خیر خواہوں کا کہ ابھی تاریکی کا راج مکمل طور پر نافذ نہیں ہوا، سو یہ واقعہ بھی وقوع پذیر ہوا،ہمیشہ کی طرح اور اچھے سے ہوا۔

 اس پوری سرگرمی میں، جہاں عورت خود ہی مرکز و محور تھی وہیں سب سے ذیادہ روشن خیال اور پڑھی لکھی قوم سے تعلق رکھنے والی، یعنی گلگت بلتستان کی عورت اپنے مطالبات اور حقوق کا ادراک کرتی تو نظر آئی مگر منواتی نظر نہیں آئی۔ مجھے یومِ خواتین کی مناسبت سے چند تقریبات میں شرکت کرنے کا موقع ملا، اور یہ دیکھ کر نہایت افسوس ہوا کہ مرد مقررین کی ایک بڑی تعداد نے عورت کے عالمی دن پر نہ صرف "عورت کا مقدمہ” پیش کیا بلکہ زبانی و کلامی طور پر اس کو حقوق دینے کی ہامی بھی بھری۔ پھر جنہوں نے عورت کی وکالت نہیں کی، انہوں نے اپنے ہلکے پھلکے طنز و مزاح کے روایتی انداز میں کمال ہوشیاری سے عورت پر پھبتیاں کسیں اور سادہ لوح شرکائے محفل خوب محظوظ ہوئے۔ خصوصاًسرکاری سطح پر منعقد کی گئی تقریب یومِ خواتین کے مہمان خصوصی جناب عبید اللہ بیگ صاحب اپنی تقریر میں پی آئی اے کی اس پائلٹ کا ذکر کرنا نہیں بھولے، جس کی غفلت کے سبب گلگت ائیر پورٹ کے رن وے پر جہاز بے قابو ہو کر کسی بڑے حادثے کا شکار ہونے بچ گیا تھا۔ اور جی ہاں! انہوں نے ہمیں یہ بھی یاد دلایا کہ ہماری چند بہادر خواتین الیکشن لڑ تو چکیں مگر مقدر ان کا، ہار ٹھہرا! یہ اور بات کہ وہ بہادر خاتون جس نے اپنے علاقے کی عورت پر سیاسی بصیرت کے دروازے کھولے،وہ محفل میں  موجود ہی تھیں۔ اب بھلا بتائیں ایک طرف آپ عورتوں کی ہمت کو سلام کرنے انہیں عزت بخشتے ہیں، دوسری طرف ان کی ناکامی کو موضوعِ سخن بنا کر ان کی ہمت توڑنے کا سبب بنیں۔۔۔سو !یہ بات کچھ  جمی نہیں

ہم یہ تو نہیں کہتے کہ خواتین کی ناکامیوں کا ذکر نہیں چھیڑا جانا چاہیے مگر یہ ضرور پوچھنا چاہیں گے کیا زمانے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ہار جیت سے بے پروا ہو کر میدان میں اتر جانے والی عورت کی کاوشوں کو سراہنا نہیں چاہئے؟ چہ جائیکہ ہم ان کے حوصلے توڑنے والے بنیں۔ اور کیا کبھی مرد نہیں ہارتے؟ یا ان سے پیشہ ورانہ ذمہ داریوں میں کمی کوتاہی نہیں ہوتی؟ اور اگر ہوتی ہے تو یہ کسی ایک عورت یا مرد کا معاملہ تو نہیں ہوا بلکہ پیشہ ورانہ زندگی کا وہ اتار چڑھاؤ  ہوا جو جنس کی تخصیص سے بہر حال بالا تر ہے۔ سو مجھے لگتا ہے کہ آج کا دن ان مثالوں کی تجدید کے لئے ہر گز مناسب نہیں تھا۔ یقیناً شرکائے محفل کے لئے ان مثالوں میں ہنسی و تمسخر کا سامان موجود ہوگا، مگر اس ہلکے پھلکے طنزو مزاح کے پیرایوں کو مزید کھنگالا جائے تو یہ تانے بانے جا کر عورت کی نااہلی سے متعلق راسخ عقائڈ سے جڑے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔

آج کے دن کی مناسبت سے عورت کو وراثت میں دینے کو حق، گھریلو تشدد کا شکار بننے پر دلانے کو انصاف،  بے گھر و در بدر ہوئی کو فراہم کرنے کو محفوظ پناہ گاہ یا ظلم و ستم کا شکار، ذہنی و جذباتی لحاظ سے کمزور پڑتی،خود کشی پر مائل عورت سے متعلق قانونی تحفظ فراہم کرنے، بل پاس کرانے، فلاحی اداروں کی تشکیل پر باتیں تو ہوئیں مگر ان تمام وعدوں پر ترجیحاتی بنیادوں پر عملی جامہ پہنانے کی بات نہیں ہوئی۔ یہاں وراثت پر قانون موجود ہے، عملدر آمد کرنے پر مرد مائل نہیں اور ہمارے بڑے معصومیت سے فرماتے ہیں کہ کس نے روکا ہے، عورت کا حصہ اسے ملنا چاہیے اور اسے لینا چاہیے۔ اور یہ تو سب کو معلوم ہے کہ اگر عورت اپنا حصہ لینے کی بات کرے گی تو اس کا خاندان اس کا سماجی طور پر بائیکاٹ کردیتا ہے۔ اور وہ اپنے بھائی/ باپ کو کھونے کے ڈر سے خاموشی سے اپنے حصے سے دستبردار ہوجاتی ہے، اور جو نہیں ہوتی، اسے جو پاپڑ نہیں بیلنے پڑتے ہیں، وہ کہانی پھر کبھی سہی!

یہاں یہ بات ضرور یاد دلاتی چلوں کہ گلگت بلتستان میں بے سہارا اور بے گھر خواتین کے لیے محفوظ پناہ گاہ کے نام پر کوئی ادارہ تا حال موجود نہیں۔ یہاں عورت اگر بے گھر کر دی جاتی ہے تو اسے جاننے والوں کے ہاں پناہ لینی پڑتی ہے،جو بوجوہ پناہ کم اور سزا ذیادہ ہوتی ہے۔  اور اگر حکومتی سطح پر دیکھا جائے تو خواتین پولیس سٹیشن کے علاوہ کوئی اور جگہ فی الحال بطور پناہ گاہ مختص نہیں۔ بھلا بتائیے کہ ایک در در کی ٹھوکریں کھاتی ہوئی عورت جس کی جذباتی و معاشی حالت پہلے سے مخدوش ہے، اس کے پولیس سٹیشن میں ملی ہوئی پناہ کس کام کی؟

اب دوسری جانب ان تقریبات میں جن عورتوں کو اپنی بات رکھنے کا موقع دیا گیا، اُن میں سے بیشتر خواتین نے اپنی ہی صنف کو درپیش، حقیقی مسائل سے نظر چرانے میں عافیت جانی۔ حالآنکہ اسی معاشرے کی عورت ہی ہے جسے نہ صرف سماجی و معاشی مسائل کا سامنا ہے بلکہ وہ بدترین گھریلو تشدد کا شکار ہونے کے باوجود خاموشی سے ظلم و ناانصافی کو برداشت کرنےاور انتہائی ناگفتہ حالات میں اپنی جان تک لینے کی حد تک مجبور کر دی جاتی ہے۔ وہ اپنے لیے آواز بلند نہیں کر سکتی اور اگر کبھی وہ اپنے لیے آواز یا کوئی اقدام اٹھا بھی لے تو پورا سماج اس سے منہ پھیر لیتا ہے۔ اب چاہے یہ معاملہ رشتہ نہ نبھا سکنے کا ہو یا والدین کی دہلیز پر واپس پلٹ جانے کا ہو، ہر دو صورتوں میں ایسی عورت کا وجود اس پدرسری سماج کو گوارا نہیں! جس کا خمیازہ عورت کو یوں بھگتنا پڑتا ہے کہ وہ اپنے قابلِ نفرین ہونے کے احساس پر مسلسل ظلم سہنے کو ترجیح دیتی ہے، یہاں تک کہ ایک روز وہ جان کی بازی ہار دیتی ہے۔ اس صورت حال کا سب سے ناگوار پہلو ہی یہی ہے کہ ایسی عورت کو تحفظ دینے، اسے خود مختار ہونے اور معاشی طور پر اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے لیے ہمارے نظام میں کہیں بھی گنجائش نہیں رکھی گئی۔

مسئلہ یہ ہے کہ یہاں عورت کے مسائل کی روح کو سمجھا نہیں گیا ہے،مرد تو مرد کبھی کبھار عورت خود بھی اپنی ساتھی عورتوں کا استحصال کرجاتی ہے۔ مرد کو دیکھیں تو وہ عورت کے مسائل کو سمجھنے، انہیں حل کرنے کا دعوٰی کرتا ہے جبکہ اس کی اپروچ دیکھیں تو بالکل سطحی ہے۔ پڑھا لکھا، برائے نام روشن خیال اور باشعور مرد بھی عورت کے حقوق پر باتیں تو بڑی کر لیتا ہے مگر عمل نام کو نہیں۔ اور جو عمل عورت کو اپنی شناخت بنانے اور خود مختاری کی جانب گامزن ہونے سے روکے، وہ یقیناً غلط ہے۔ چونکہ مرد کے پاس عورت کا جسم نہیں ہے سو وہ اس کے جسم سے وابستہ کیفیات اور اس سے پیدا ہونے والی نفسیاتی پیچیدگیوں کو سمجھ نہیں سکتا۔ ایسے میں عورت مرد کے لئے مجسم جنسیت ہی ہے۔ اب چونکہ اس کے اپنے ذہن میں پہلے ہی سے فتور بھرا ہوا ہے، اس لئے ایسے مرد کو خودمختار عورت ایک مجسم برائی لگتی ہے۔ اور اس برائی کو روکنے کے لئے مرد اس کے جسم و جان کو قابو میں رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔ یوں عورت اپنی شناخت کھو کر مرد کے پسندیدہ پیکر سے ادھار لی ہوئی زندگی جی رہی ہوتی ہے۔ اور شاید اسی بنا پر ہی سمون ڈیبوئر نے کہا تھا کہ عورت پیدا نہیں ہوتی، عورت بنائی جاتی ہے۔ دوسری جانب ہمارا معاشرہ ایسا ہے کہ جو عورت پوری جی جان لگا کر محنت مزدوری کرے، اچھا کام کرے یا اہنی ایک منفرد شناخت قائم کرے، وہ ایسی بہادر عورت کو بھی فوراً مرد بنا کر دم لیتا ہے۔ اس کی مثالیں ہمیں اپنی روزمرہ زندگی میں بکھری ہوئی ملتی ہیں۔ معروف شاعرہ و مصنفہ کشور ناہید اپنی کتاب "عورت: خواب اور خاک کے درمیان” میں اسی عمل کو چند جملوں کے ذریعےیوں بیان کرتی ہیں :

"عورت ہوتے ہوئے بھی مردوں کی طرح کام کرتی ہے۔”

"عورت ہوتے ہوئے بھی حالات کا مردانہ وار مقابلہ کرتی ہے۔”

"عورت ہے، مگر تمام تر انداز مردانہ ہیں۔ مردوں کی طرح ہنستی، باتیں کرتی، مردوں سے ہاتھ ملاتی اور مردانہ قسم کے لطیفے سناتی ہے۔”

اس بات میں کوئی دو رائے تو ہے نہیں کہ ہمارا سماج مضبوط عورت سے خوفزدہ ہے۔ مردوں کی ایک بڑی تعداد چاہتی ہے کہ وہ خود تو راجہ اندر بنی رہے مگر دروں خانہ ان کی عورتیں کنیزوں و باندیوں کی مانند کٹھ پتلیاں بن کر رہیں۔ اب ذرا اسی پس منظر میں دیکھیے گا کیسے کشور ناہید صاحبہ نے اگلے جملے میں مرد کے اس خوف اور کمزوری کو بیان کیا ہے۔

"میں تو اپنی بیوی کو اس سے (شاعرہ سے) اکیلے ملنے نہیں دیتا ہوں۔”

اب آپ یہاں پر، اس جملے میں پنہاں مرد کی خوف کی انتہا دیکھیں کہ نہ صرف وہ خود ایسی خودمختار خاتون سے خوفزدہ ہے بلکہ ایسی عورت سے میل جول رکھنے کو بھی مرد اپنی بیوی کے لیے غیر محفوظ تصور کرتا ہے۔ اور خوفزدہ کیوں نہ ہو، یہ "مرد نما” عورت جو ہے۔ یہاں پر بنیادی طور پر خوف عورت سے نہیں بلکہ مرد سے ہے، چونکہ وہ عورت اب مرد نما ہے!!! ہمارا مرد اپنے جیسے دوسرے مردوں سے خود اتنا خوفزدہ ہے تو وہ خواتین کو کیا خاک خودمختاری دے گا۔ وہ بھی جو خود پدرسری نفسیات سے متاثر شدہ ایک ذہن ہے۔ اور یہی ذہن عورت کے لیے چاہتا ہے کہ وہ اس کے خوابوں اور خواہشوں کی ملکہ بنے، اب اس کے خوابوں کی ملکہ خودمختار عورت تو ہر گز نہیں سو بدقسمتی سے ملکہ بننے کے اس چکر میں عورت غیر ذات بن کر اپنی اصل شناخت کھو دیتی ہے۔

یہاں اس بات کو رکھنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ عورت کو برابری کے حق سے محروم رکھنا اور اسے اپنی شناخت سے محروم رکھنا بھی تشدد کے زمرے میں آتا ہے۔ اب تشدد چاہے جسمانی، معاشی، جذباتی یا نفسیاتی، کسی بھی شکل میں ہو، عورت کو گھٹن میں دیٹا ہے۔ اور اسی پدرسری معاشرے کی عنایت کردہ گھٹن کا شاخسانہ ہے کہ گلگت بلتستان میں خواتین کی خودکشیوں کا تناسب ملک کے دیگر علاقوں کی نسبت زیادہ ہے۔ یہی پدر سری معاشرے کی عنایت کردہ طرز زندگی ہی ہے کہ یہاں عورت غیرت کے نام پر آسانی سے قتل ہوجاتی ہے جبکہ مرد کو مکمل آذادی ہے کہ وہ عورت کی جان لے کر بھی فخر سے سینہ تان کر چلتا رہے۔ مردوں کے مروج کردہ اصولوں پر رائج اس معاشرے کو یہ ہر گز گوارا نہیں کہ عورت سے معمولی بھی کوتاہی سرذد ہو، جبکہ یہی معاشرہ مرد کو اپنے لیے اپنی مرضی کی زندگی جینے کی مکمل آذادی دیتا ہے۔ ایسی صورت حال میں پھر کیوں نہ عورت گھٹن کا شکار ہو، کیوں نہ اسے زندگی اندھیروں کی آماجگاہ نظر آئے؟ جو عورت اپنے خواب جینا چاہتی ہے اسے قبر کی خاک دیکھنی نصیب ہوتی ہے۔ یوں ہمارے معاشرے کی عورت خاک اور خواب کی کشمکش میں زندگی گزارتی ہے۔ اور اس کشمکش میں زیادہ تر خواتین خاک کی نذر ہو جاتی ہیں۔ فیض احمد فیض کےخاک میں لتھڑے ہوئے، خون میں نہلائے ہوئے، جابجا کوچہ و بازار میں بکتے ہوئے اور ریشم و اطلس و کمخواب میں بنائے ہوئے جسم یہی عورتیں ہی تو ہیں لیکن ان افتادانِ خاک کو سنے گا بھی تو کون؟ کہ یومِ عورت پر بھی مرد عورت پر پھبتیاں کس کر گزر جاتا ہے اور ہم منہ تکتے رہ جاتے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ آنے والے وقتوں میں اس معاشرے کی ہر عورت کی آواز کبھی سنی بھی جائے مگر تب تک ہر گز نہیں جب تک ہر عورت خود اپنے لیے آواز بلند نہ کرے ورنہ تو بقول شاعر:

ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن

خاک ہوجائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک!

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button