کالمز
گلگت بلتستان لینڈ ریفارمز اور دیامر کی زمینی حیثیت
تحریر۔اسلم چلاسی
گلگت بلتستان انتہائی حساس اور جفرافیائی لحاظ سے دنیا بھر میں ایک منفرد و نمایاں مقام کا حامل خطہ ہے۔یہ علاقہ کشمیر کا حصہ ہے یا مسلہ کشمیر کا جو بھی ہے کچھ نہ کچھ تو ہے اس لیے باقاعدہ صوبہ نہیں ہے قومی اسمبلی اور سینٹ میں صفر نمائندگی ہے خیر یہ بھی ٹھیک ہے ہمیں لارڈ پیار مل رہا ہے تمام محکمے ادارے موجود ہیں ترقیاتی فنڈز مل رہے ہیں یہاں کی دو ملین کے قریب آبادی اٹھائیس ہزار مربع میل زمین کی ملکیت کی دعویدار ہے۔ دس اضلاع پر مشتمل خطہ گلگت بلتستان سواۓ سمندر کے تمام قدرتی وسائل سے مالا مال محدود قانون سازی پر اختیار رکھنے والی ایک عدد ننھی سی موسمی اسمبلی بھی ہے جو گرمیوں میں فنکشنل ہوتی ہے اور سردیوں میں سوجاتی ہے۔
عوام کی طرف سے منتخب خانہ بدوش ممبران صاحبان سردی کی امد کے ساتھ پنجاب کی میدانی علاقوں کے طرف رخ کرتے ہیں اور مرکز کی سیاسی شغل میلے کا حصہ بنتے ہیں حالانکہ ان کی ضرورت کسی بھی حوالے سے مرکزی سیاسی جماعتوں کو نہیں ہے ان کا ووٹ نہ سینٹ میں پڑتا ہے نہ مرکزی حکومت کو اور نہ گلگت بلتستان کی حکومت سے مرکز کو کوئی خاص فرق پڑتا ہے پھر بھی یہاں کے سیاستدان خوا مخواہ مرکز کے سرکس میں بے جا کود کر لال پیلے ہوجاتے ہیں حالانکہ ان کو ووٹ زندہ باد مردہ باد کیلے نہیں بلکہ عوامی مسائل کے حل کیلے ملتا ہے دیکھا جائیں تو اس میں فیڈریشن کا کوئی قصور نہیں ہے زبردست فنڈنگ کے باوجود بھی ہینڈل نہیں کرپاتے یہ ہماری سیاسی قیادت کی نالائقی اور نا اہلی ہے خیر بات دیامر کے زمینوں کی تھی در اصل یہ نیم قبائلی علاقہ ہے اور آج کی دیامر اگر تاریخی اعتبار سے دیکھا جائیں تو تین مختلف اکائیوں یا حصوں پر مشتمل علاقہ جات داریل- تانگیر اور -چلاس ایجنسی پر مشتمل تھے ڈوگروں کے آمد سے قبل یہ تمام علاقے یغستان(بغیر کسی حکومت یا حکمران کے ) تھے ان علاقوں کے ہزاروں سال پرانی تاریخ تمدن منفرد سیاسی ثقافتی اور جغرافیائی حیثیت رہی ہے مگر ہر دور میں یہاں کے تمام تر قدرتی وسائل مقامی باشندگان کے ملکیت رہے ہیں چراگاہوں سے لیکر زرخیز زمینوں تک ہر شے ہر دور میں ان کی زاتی یا مشترکہ جائداد کی حیثیت سے تصرف میں رہے ہیں قبل از پاکستان یہ انتہائی مزاحمتی شورش زدہ علاقہ تصور کیا جاتا تھا یہاں پر کئی انگریز اسسٹنٹ پلٹکل ایجنٹ مارے گئے ایک ادھا راجہ نے بھی قسمت آزمائی کی وہ بھی مارا گیا انگریز اور ڈوگر کبھی بھی جم کر حکومت نہیں کر سکے ہمیشہ یہ علاقہ ان کیلے درد سر رہا ہر آنے والا بھاگنے کی کرتا پھر لوگ اس قدر بد مست تھے کہ کوئی اپنا مسلہ لیکر انگریز کے پاس نہیں جاتا تھا اپنے مسائل مقامی روایتی جرگے کے زریعے حل کرتے پھر انگریز کو اپنی حکمرانی کی فکر لاحق ہوگئی اپنے درباری خوش آمدیوں اور ملازمین کو شکوہ کیا کہ میرے پاس تو کوئی بھی اپنا مسلہ لیکر نہیں آتا میں لوگوں کو اپنے طرف راغب کیسے کروں یہ لوگ میرے پاس مسائل لیکر کیسے آئیں گے پھر اللہ ان کا بھلا کریں اطاعت گزاروں نے مشہورہ دیا کہ آپ ایسا کریں کہ ہر علاقے کے با اسر سر داروں کی لسٹ بنائیں ان کو مراعات دیں اختیارات دیں لین دین کریں آپ سے ان کو کوئی فائدہ پہنچے گا تو وہ آپ کے پاس مسائل لیکر آئیں گے آپ کو حاکم قبول کریں گے ایسے تو یہ اکڑ خان لوگ ہیں کسی کو خاطر میں نہیں لاتے پھر انگریز نے ایسا ہی کیا تمام علاقوں کے عمائدین کو تحائف بھیجا اپنے پاس طلب کیا ان کو ایک عدد گورا(رائفل) ایک گھوڑا تنخواہ یا وظیفہ کے ساتھ جسٹیری کا آرڈر (مجسٹڑیٹ درجہ اول کی اختیارات) بھی تھما دیا بعد میں وہی جسٹیری لیوی حوالداری سے ہوتے ہوۓ نمبرداری میں تبدیل ہوگئ اور یوں انگریز نے مقامی قبائلی سرداروں کے زریعے عام عوام کو قابو کرکے حکومت کی مگر پھر بھی دیامر کا ایک اینچ زمین نہ انگریز اپنی ملکیت میں لیے سکا نہ ڈوگر اپنے نام کر سکے البتہ اس دور کے پلٹکل اینجٹ نے مختلف قبائل اقوام یا علاقوں کے درمیان زمینوں اور چراگاہوں کی ملکیت یا حدود کے تنازعات کے فیصلے کر کے عوامی ملکیت کو مزید واضع کیا اس وقت انگریز دور کے ایسے فیصلوں کے ہزاروں نقل و مثل موجود ہیں جس میں اس نے فریقین کے درمیان تنازعات کا مقامی غیر جانبدار عمائدین کے زریعے فیصلے کراکے زمین جنگلات یا چراگاہوں کی ملکیت ایک قوم قبیلہ علاقہ یا گروہ سے منتقل کرکے دوسرے کی حق یا ملکیت میں دے دیا مگر کہیں پر بھی کوئی ایک ایسا فیصلہ آرڈر یا دستاویز دستیاب نہیں جس میں لکھا ہو کہ فلا آراضی چراگاہ یا علاقہ سرکاری ملکیت ہے جب پاکستان بنا تو دیامر کے کچھ علاقے داریل تانگیر چھوڑ کر بقیہ دیامر پاکستان کے زیرے کنٹرول آۓ اور اس کے ٹھیک پانچ سال بعد 1952 میں چلاس ایجنسی کے عمائدین کو پاکستان کی طرف سے چلاس رنوئی اسسٹنٹ پلوٹکل ہاوس میں طلب کیا گیا اور وہاں ان سے داریل تانگیر کو پاکستان سے الحاق کرانے کیلے کردار ادا کرنے کی اپیل کی گئی یوں چلاس ایجنسی کے تمام علاقہ جات سے با اثر مقامی عمائدین کا ایک بڑا وفد داریل تانگیر چلا گیا اور زبردست کوششوں کے بعد الحاق پاکستان پر اقوام داریل تانگیرکو امادہ کیا گیا اور داریل پھوگچ کے مقام پر ایک بڑا عوامی مجمع میں سب سے پہلا پاکستان زندہ باد کا نعرہ میرے پدرے محترم کے ساتھ معمور شخص میرمحمد آف ہڈور نے لگایا اور اس کے بعد میر محمد کو سرکاری طور پر پاکستان کا خطاب ملا اور مستقل سرکاری نوکری بھی دی گئی جو موروثی طورپر تاحال جاری ہے اور اس طرح تمام دیامر کے قبائلی عمائدین کی موجودگی میں مشروط طور پر باقاعدہ ایک معاہدہ کے تحت ایک بار پھر پوری دیامر کا االحاق پاکستان ہوا اور تمام قدرتی وسائل عوامی ملکیت قرار پائے اور اس طرح پورا دیامر با ضابطہ طور پر پاکستان میں شامل ہوگیا پھر 2010 میں دیامر ڈیم کمیٹی اور ریاست پاکستان کے درمیان ایک اور تاریخی معاہدہ ہوا جس میں معاہدہ 1952 کی توثیق ہوئی اور تمام بنجر اراضیات کو عوامی ملکیت قرار دیا گیا اور ڈیم میں آنے والی بنجر اراضی کی قیمت طے ہوئی جو باقاعدہ طور پرعوام کو ادا کی گئی اب ان تمام تاریخی و قانونی معاہدات کی روشنی میں دیامر میں ایک اینچ زمین سرکاری ملکیت نہیں ہے ایسے میں عوامی زمینوں کی ریفامنگ سرکاری سطح پر نہیں کی جاسکتی سرکار اور عوام ہر دو فریق طے شدہ معاہدات کے پابند ہیں ویسے بھی دیامر کے میدانی علاقوں میں موجود ستر فیصد عوامی زمینیں ڈیم میں آجائے گی پیحھے تیس فیصد زمینیں بچتی ہیں جو آبادی کی ریشو کے حساب سے بہت کم ہیں اگلے تیس سالوں میں زراعت تو بہت دور کی بات ہے لوگوں کو رہایشی مکانات کیلے بھی جگہ کم پڑ جاۓ گی لہزا دیامر کی زمینوں کی ریفارم کسی بھی اعتبار سے ممکن نہیں ہے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دیامر میں آباد ہر شخص کو ملکیتی حقوق حاصل نہیں ہیں کل آبادی کی اسی فیصد یعنی چار قوموں کو علاقے کی زمینوں اور جنگلات پر ملکیتی حق حاصل ہے البتہ جاۓ سکونت کے اعتبار سے قدرتی وسائل پر استفادے کا حق ہر ایک کو حاصل ہے اب ان لوگوں کیلے ڈیم بننے کے بعد نقل مکانی کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہے ان کی بقا کیلے مقامی قبائل کو چاہیے کہ آپس میں مشاورت سے کوئی ایسا پلان ترتیب دیں جس سے ان کی آنے والی نسل کو کم از کم رہنے کی جگہ میسر آسکیں امید ہے صوبائی حکومت دیامر کی تاریخی اور قانونی حیثیت کو متاثر کرنے کی کوشش نہیں کرے گی مقامی قبائل اور ریاست کے درمیان طے شدہ معاہدات کی پاسداری کرے گی